• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے صوبے میں گزشتہ چھ ماہ 100یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے بل معاف کرنے کا اعلان کیا جس پر تاحال شور مچا ہوا ہے ،مخالفین اسے سیاسی اسٹنٹ قرار دے رہے ہیں اور یہ قرینِ قیاس بھی نظر آرہا ہے لیکن کیا کریں سیاستدان کا دماغ ہی سب فیصلے کرتا ہے جہاں سے فائدہ ملے وہاں سے حاصل کرلو فائدہ بھی وہ جو چند روزہ نہ ہو بلکہ دیرپا ہو، وعدوں کا کیا ہے مکرجانے کے لیے ہی کیے جاتے ہیں ۔ماضی میں پاؤں پڑ کر ووٹ لیے جاتے تھے، اب دور بدل گیا ہے اور ترقیاتی پیکیجز کا اعلان کیا جاتا ہے۔

لاہور میں ن لیگ کے پارٹی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاو ن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے کہا کہ آج بجلی کا بل قیامت ڈھاتا ہے۔پنجاب بھر میں 100یونٹ استعمال کرنے والے 44 لاکھ خاندان ہیں یعنی صوبے کے ساڑھے 5 کروڑ عوام ماہانہ 100یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں، حکومت پچھلے 6 ماہ میں 100 یونٹ استعمال کرنے والوں کو مفت بجلی فراہم کرے گی۔ پنجاب حکومت 100 یونٹ استعمال کرنے والوں کا خرچہ اٹھائے گی۔انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ پنجاب حکومت مستحق افراد کو بلاومعاوضہ سولر پینل بھی فراہم کرے گی تاکہ انہیں ہمیشہ کے لیے بجلی مفت مل سکے، حکومت عوام کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر کام کررہی ہے، ہم اسپتالوں میں ادویات بھی مفت فراہم کررہے ہیں۔

اگرچہ پنجاب حکومت کا یہ ایک اہم اعلان ہےکہ جو صارفین گزشتہ چھ ماہ تک ایک سو یونٹ تک کا بل ادا کرتے رہے ہیں، ان کو اس سے یقینی طور پر ریلیف ملے گا، اس بارے میں آگاہ کیا جانا چاہئے کہ ایسے صارفین کو آنے والے بلوں کی مد میں زیرو بل کی اس وقت تک سہولت دی جائے جب تک ان کی چھ ماہ تک کے بلوں کی ادا کردہ رقم پوری نہ ہوجائے ۔ ضروری تھا کہ ایک سو یونٹ کی بجائے ایک سو پچاس یونٹ تک ماہانہ بجلی کا بل ادا کرنے والوں کو اس ا سکیم میں شامل کیا جاتا کیوں کہ سو یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کی تعداد تو غریب صارفین کی ہے ڈیڑھ سو یونٹ والا ،سفید پوش طبقہ ہے اسے بھی ریلیف ملنا چاہئے ،ایک سو سے اوپر پچاس یونٹ کا بل لے لیا جائے لیکن سو یونٹ فری ہونے چاہئیں ۔ بالعموم ایک سو دس بیس یونٹ تک کا ہی ماہانہ بل بھجوایا جاتا ہے۔ ایک سو یونٹ سے ایک یونٹ زیادہ بڑھنے کی صورت میں بل کی فی یونٹ قیمت دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں پر لاگو ر ریٹ کے مطابق ہو جاتی ہے ۔

عبوری مدت کے لیے اس عہدے پر متمکن وزیراعلیٰ پنجاب اس طرف خصوصی توجہ دیں ، اسی طرح سفید پوش اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے اس صوبے کے باسیوں کو بھی ماہانہ پٹرول کی مد میں ریلیف دیا جائے اور قومی شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے انہیں ماہانہ دو چار ہزار روپے تک کی پٹرول سبسڈی دی جائے تاکہ ان کی اکھڑی ہوئی معاشی سانسیں بحال ہوسکیں ۔ یہ امر بھی خوش آئندہے کہ پنجاب حکومت مستحق افراد کو مفت میں سولر پینل فراہم کرے گی تاکہ انہیں ہمیشہ کیلئے بجلی مفت مل سکے۔مارکیٹ میں اس وقت سولر پینلز کی قیمتیں آسمان پر ہیں۔ دو چار مرلے کے گھرمیں رہنے والے شخص کو سولر پینل کی خریداری پردس سے بیس ہزار روپے تک خرچ کرناپڑیں گے۔ایسی پالیسی بنائی جائے کہ مستحق ،غریب اور سفید پوش افراد کو اوپن مارکیٹ سے سولر پینلز سستے داموں خریدنے کی سہولت دستیاب ہو جائے، صرف سولر پینل ہی نہیں، بیٹریاں اور اس کی انسٹالیشن پر اٹھنے والے اخراجات کا بھی اگر نصف نہ سہی تیس فیصد حکومت فراہم کرے تو اس سے بھی عوام کو سکون کا سانس نصیب ہوگا۔لازم ہے کہ صرف یوٹیلٹی اسٹورز کی بجائے گلی محلے کی دکانوں اور جنرل اسٹورز پر سستا آٹا وافر مقدار میں روزانہ کی بنیاد پر فراہم کیا جائے، چکی کاآٹا سو روپے فی کلو جب کہ عام فائن کے نام پر فروخت ہونے والے پندرہ کلو آٹے کی قیمت اس وقت راولپنڈی شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ساڑھے تیرہ سے چودہ سو روپے تک ہے جو ظلم کے مترادف ہے ۔

کہا جاسکتا ہے کہ حمزہ شہباز نے مثبت سوچ اور فکر کا مظاہرہ کیا ہے تاہم ضروری ہے کہ ماضی کو کوسنے کی بجائے وہ خوشدلی سے آگے بڑھیں اور روایتی سیاست کا شکار ہوئے بغیر صوبے کے کمزور اور پسے ہوئے طبقات کو پاؤں پر کھڑا کرنے اور انہیں زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی کوشش کریں ۔خود بھی، اپنے وزرااور ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات کو ختم کرنے کا اعلان کریں ،اس بچائی جانے والی رقم کو محروم طبقات کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں اوراپنی جماعت کے ارکان کو ہدایت کریں کہ وہ روزانہ عوام سے ملیں ،ان کے مسائل حل کرائیں سرکاری اداروں میں دھکے کھانے والوں کو ریلیف دیں ،میرٹ پر کام کو یقینی بنائیں ۔ مراعات اور تنخواہوں کی مد میں اینٹھی جانے والی رقم کا مثبت استعمال کریں، اسمبلی کے ہر رُکن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے لوث عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائے، سیاست کوخدمت کی بجائے کاروبار اور اثاثے بڑھانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین