• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد احمد غزالی

حضرت عثمان مروندیؒ(جو عوام میں لعل شہباز قلندر کے لقب سے معروف ہیں) کی درگاہ، سندھ کا سب سے پُررونق روحانی مقام ہے کہ یہاں زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ تاہم، اِس عوامی مقبولیت کے باوجود آپؒ کی شخصیت، خاندان، حالاتِ زندگی، روحانی سفر اور تعلیمات سے متعلق بہت کم مستند معلومات دست یاب ہیں۔ بزرگانِ دین کے قدیم تذکروں میں آپؒ کا ذکر موجود نہیں۔ اِسی طرح برّ ِ صغیر پاک و ہند میں اولیائے کرامؒ سے متعلق لکھی گئی قدیم کتب بھی آپؒ کے تذکرے سے خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندرؒ سے متعلق لکھی گئی کتب اور مضامین میں زیادہ تر مواد کی کسی مستند تاریخی ماخذ سے تصدیق نہیں ہوتی۔

نام،جائے ولادت، خاندان

آپؒ کے اسمِ گرامی سے متعلق کچھ عرصے سے ابہام اور شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، حالاں کہ سندھ کی تاریخ کی قدیم ترین کتب میں آپؒ کا نام عثمان ہی درج ہے۔ نیز، آپؒ سے منسوب کلام میں بھی آپؒ نے خود کو عثمان ہی کہہ کر پکارا ہے۔ البتہ مؤرخین میں آپؒ کے آبائی وطن اور جائے ولادت پر خاصا اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ آپؒ تاریخی شہر، مرو

( merv-merw) میں پیدا ہوئے، جو کسی زمانے میں ایرانی صوبے،خراسان کا حصّہ تھا، مگر اِن دنوں ترکمانستان میں ہے۔قدیم کتب میں اسے ہرات کے قریب بتایا گیا ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان 418 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ کئی ایک مؤرخین نے مرند(marand)کو آپؒ کا آبائی وطن قرار دیا ہے،جو ایرانی صوبے، مشرقی آذربائیجان کا ایک شہر اور تبریز سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔واضح رہے، آذربائیجان کے نام سے ایک مُلک بھی ہے۔ کئی سوانح نگاروں کا خیال ہے کہ آپؒ کا تعلق مروند (marwand) سے تھا، جسے میوندی یا میوند بھی کہا جاتا ہے۔یہ افغانستان میں قندھار شہر سے70 کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ میوند ایک تاریخی مقام ہے،جہاں 1880ء میں افغانوں اور برطانوی افواج کے درمیان جنگ لڑی گئی تھی۔

بعض نے اسے میمند(Meymand) بھی کہا ہے،حالاں کہ میمند ایرانی صوبے کرمان میں واقع ہے۔یعنی میوند اور میمند دو الگ الگ مقامات ہیں۔اِن تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ مؤرخین اور سوانح نگار آپؒ کے آبائی وطن سے متعلق ابھی تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکے ۔ آپؒ کی تاریخِ پیدائش کے ضمن میں538 ہجری سے 583 ہجری تک کی تاریخیں ملتی ہیں۔تحفۃ الکرام(اشاعت: 1188 ہجری)اور’’لُب تاریخ سندھ‘‘ (1900ء) میں درج نسب نامے کے مطابق،آپؒ ، حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند حضرت اسماعیلؒ کے بیٹے منصور کی نسل سے تھے۔

تاہم، سوانح نگاروں نے حضرت اسماعیلؒ کے صرف دو بیٹوں کا ذکر کیا ہے،جن کے نام محمّد اور علی تھے،ممکن ہے کہ ان ہی میں سے کسی کو منصور کہا جاتا ہو(واللہ اعلم)۔ بعض افراد آپؒ کو شہزادہ غیاث الدّین عباسی قرار دیتے ہوئے عباسی خلفاء سے شجرہ ملاتے ہیں، لیکن اِس رائے کے حق میں اُن کے پاس ٹھوس دلائل موجود نہیں ہیں۔

روایت ہے کہ آپ کے والد سیّد کبیرالدّین کا عراق سے تعلق تھا اور وہ منگولوں کی وجہ سے ترکِ وطن پر مجبور ہوئے۔والد اور مقامی علماء سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور چھوٹی عُمر ہی میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔گو کہ آپؒ کے اساتذہ کی تفصیلات دست یاب نہیں ہیں،تاہم آپؒ کے علمی مقام کے پیشِ نظر،جس کا ذکر اگلی سطور میں آئے گا،اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپؒ نے کئی علماء کے سامنے زانوئے تلمّذ طے کیا۔

روحانی سفر

بعض روایات کے مطابق حضرت لعل شہباز قلندرؒ نے منصور حلّاج سے ملاقات کرکے اُن کے ہاتھ پر بیعت کی اور اُن کی نگرانی میں روحانی منازل طے کیں،مگر یہ روایت اِس لیے قابلِ اعتبار نہیں کہ منصور حلاج تو آپؒ کی ولادت سے ڈھائی صدی قبل انتقال کرچُکے تھے۔شہزادہ دارا شکوہ نے اپنے شجرۂ طریقت میں حضرت عثمان مروندیؒ کو قادری سلسلے کے بزرگوں میں شمار کیا ہے۔ یہ شجرہ یوں ہے، دارا شکوہ، ملّا شاہ بدخشیؒ، حضرت میاں میر لاہوریؒ، حضرت خضر سیوہانیؒ ،شاہ سکندرؒ ،خواجہ خانیؒ ، سیّد علی قادریؒ ، حضرت مخدوم سیّد عثمان مروندیؒ ، شاہ جمال مجردؒ ، ابواسحاق ابراہیمؒ ، مرتضیٰ سبحانیؒ ، حضرت احمد بن مبارکؒ ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ۔

عام رائے کے مطابق، حضرت لعل شہاز قلندر عراق سے تعلق رکھنے والے بزرگ ، ابو اسحاق ابراہیمؒ کے مرید تھے، جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؒ نے ملتان آکر حضرت بہاءالدّین زکریاؒ کے ہاتھ پر سلسلۂ سہروردیہ میں بیعت کی۔ ممکن ہے کہ آپؒ نے ابتدائی روحانی تعلیم سلسلہ قادریہ کے شیخ کی نگرانی میں حاصل کی ہو اور خلافت حضرت بہاء الدّین زکریاؒ سے سہروردی سلسلے میں پائی ہو کہ اُس زمانے میں پیرِ تعلیم اور پیرِ خرقہ کی روایت عام تھی۔

ہندوستان کا سفر، سہون آمد

مختلف روایات کے مطابق حضرت عثمان مروندیؒ نے طویل عرصہ سیّاحت میں گزارا،جس کے دَوران آپؒ حج کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ بزرگانِ دین کے مزارات پر بھی گئے اور کئی بزرگوں سے ملاقاتیں کرکے استفادہ بھی کیا۔ اِس سفر کے نتیجے میں آپؒ نے کئی زبانیں بھی سیکھ لیں۔ ہندوستان آمد پر سب سے پہلے ملتان پہنچے۔ اُس زمانے میں غیاث الدّین بلبن تخت نشین تھا۔جب اُس نے شہباز قلندر کی آمد کی خبر سُنی، تو آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیش بہا تحائف پیش کرنے کے بعد ملتان میں مستقل قیام کی درخواست کی، مگر آپ نے معذرت کرلی۔

بعض کتب میں یہ واقعہ غیاث الدّین بلبن کے صاحب زادے، سلطان محمّد کے حوالے سے مذکور ہے۔کہا جاتا ہے کہ آپؒ سیر و سیاحت کرتے ہوئے پانی پت میں حضرت بوعلی قلندرؒ کی خدمت میں پہنچے،تو اُنہوں نے فرمایا، ’’ہند میں تین سو قلندر موجود ہیں، بہتر ہے کہ آپؒ سندھ تشریف لے جائیں۔ ‘‘ اِس پر آپؒ سیوستان( سہون) آگئے۔

ممتاز عالمِ دین، ماہرِ لسانیات

حضرت عثمان مروندیؒ دینی علوم پر گہری دسترس رکھتے تھے، خاص طور پر ماہرِ لسانیات کے طور پر معروف تھے۔ ملتان میں قیام کے دوران حضرت بہاء الدّین زکریاؒ کے قائم کردہ مدرسے میں مدرّس کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔واضح رہے، یہ مدرسہ اُن دنوں یونی ورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا اور اسے خطّے کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کا اعزاز حاصل تھا۔حضرت شہباز قلندرؒ عربی زبان و بیان پر عبور رکھتے تھے، تو اُنھوں نے طلبہ کے لیے مختلف نصابی کتب بھی تحریر فرمائیں، جن میں عقد، صَرف، صَرف صغیر قسم دوئم، اجناس، میزان الصرف وغیرہ معروف ہیں۔

یہ کتب کئی صدیوں تک مدارس کے نصاب کا حصّہ رہیں۔ مشہور انگریز محقّق، ایف برٹن نے 1852ء میں لکھا کہ’’ اِس وقت اسلامی مدارس میں جو کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں، اُن میں شہباز قلندرؒ کی کتب بھی شامل ہیں۔‘‘کہا جاتا ہے کہ آپؒ کو عربی، فارسی، تُرکی، سندھی، پشتو اور سنسکرت زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔

تبلیغِ دین

تحفۃ الکرام اور دیگر کتب میں یہ روایت درج ہے کہ شہباز قلندرؒ سہون میں جس مقام پر آ کر ٹھہرے، وہ برائی کا اڈّا تھا، مگر آپؒ کی آمد کی برکت سے اُس رات وہاں کسی برائی کا ارتکاب نہ ہوا۔صبح مَردوں میں اِس حوالے سے چہ میگوئیاں ہوئیں، تو وہ سمجھ گئے کہ یہ ان بزرگ کی آمد کی برکت سے ہوا ہے، اِس پر وہاں کی تمام خواتین اور مَردوں نے آپؒ کے ہاتھ پر توبہ کرلی۔

یہ سومرو عہدِ حکومت تھا،جسے سندھ کا روشن عہد قرار دیا جاتا ہے کہ اُس دور میں علمی و روحانی سرگرمیاں عروج پرتھیں۔ آپؒ نے عوام النّاس کو دینی تعلیمات سے روشناس کرنے کے لیے ایک طرف وعظ و نصیحت کی راہ اختیار کی، تو دوسری طرف ایک مدرسے کی بھی بنیاد ڈالی۔

یہ مدرسہ آپؒ کی وفات کے بعد بھی بہت عرصے تک قائم رہا۔ جب ابنِ بطوطہ اپنی سیّاحت کے دوران سہون آئے، تو اُنھوں نے اس مدرسے کو دیکھا اور اس کے منتظم، شیخ محمّد البغدادی سے ملاقات بھی کی۔ مختلف روایات کے مطابق آپؒ دو سے چھے سال تک سہون میں مقیم رہے، اس دوران آپؒ کو عوام میں بہت پزیرائی حاصل ہوئی۔ ہزار ہا افراد آپؒ کی زیارت کے لیے آتے اور قرآن و سُنّت پر عمل کا عزم لے کر واپس لوٹتے۔

چاریار

سوانح نگاروں نے حضرت بہاؤ الدّین زکریا ملتانیؒ، خواجہ فرید الدّین گنج شکرؒ، سیّد جلال الدّین بخاریؒ اور حضرت عثمان مروندیؒ کی دوستی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اِن چاروں بزرگوں کے درمیان بہت خوش گوار تعلقات تھے۔ سندھ اور پنجاب میں کئی ایسے مقامات مشہور ہیں،جن کے متعلق کہا جاتا ہے وہاں اِن بزرگوں کے درمیان ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ تحفۃ الکرام کے مطابق، حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا کراچی کے علاقے، منگھو پیر میں خواجہ حسنؒ کے پاس بھی آنا جانا تھا۔

لعل شہباز قلندر

حضرت عثمان مروندیؒ عوام میں لعل شہباز قلندر کے لقب سے معروف ہیں۔ اِس حوالے سے مختلف اور متضاد روایات بیان کی جاتی ہیں۔ کسی کے مطابق سرخ لباس پہنا کرتے تھے جس پر لال شہباز کہلائے، تو کسی کا کہنا ہے کہ سُرخ رنگت کے مالک تھے۔ ایک رائے کے مطابق، گلے میں کوئی ایسی چیز پہنے رکھتے تھے،جس سے گردن جُھکی رہے اور اُس میں لعل جڑا ہوا تھا۔تاہم، قابلِ اعتماد بات یہی ہے کہ یہ لقب آپؒ کی روحانی بلندی کی جانب اشارہ ہے اور یہ پیرومرشد نے عطا فرمایا تھا۔

وصال، مزار

آپؒ کے وصال کی معروف تاریخ21 شعبان 650 ہجری ہے،تاہم اِس کے علاوہ بھی کئی تاریخیں بیان کی جاتی ہیں،جن میں 673ھ بھی شامل ہے۔سلطان فیروز شاہ تغلق نے سیوستان اور ٹھٹّھہ کے حاکم، ملک رکن الدّین عرف اختیار الدین کو کہہ کر مزار تعمیر کروایا۔ 993ھ میں ٹھٹّھہ کے حاکم، مرزا جانی بیگ نے مرمّت کے ساتھ توسیع کروائی۔بعدازاں، 1009ھ میں اُس کے بیٹے، مرزا غازی بیگ نے ازسر نو مزار تعمیر کروایا۔ پھر شاہ جہاں نے 1041 ہجری میں مزار پر کام کروایا۔ 

ذوالفقار علی بھٹّو اور بے نظیر بھٹّو کے ادوار میں بھی مزار پر تعمیراتی کام ہوا، جب کہ 2017ء میں ہونے والے خود کُش حملے میں مزار کو نقصان پہنچا،جس پر بحالی کا کام کیا گیا۔ آپؒ نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ عام تاثرکے برعکس آپؒ کا بیش تر وقت دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے وعظ و نصیحت یا درس و تدریس میں گزرتا تھا۔

سندھ کے نام ور محقّق، پیر حسّام الدّین راشدی نے ’’مقالات الشعراء‘‘ نامی کتاب میں حضرت شہباز قلندرؒ سے منسوب ایک تصویر کا عکس دیا ہے، جو اُن کے مطابق لاہور میوزیم میں موجود ہے۔ اس تصویر میں آپؒ جائے نماز پر بیٹھے ہیں، سفید ٹوپی اور کُرتا زیبِ تن کر رکھا ہے۔ ہاتھ میں چھوٹی تسبیح ہے اور مُشت بھر داڑھی ہے۔ اِس تصویر سے کسی ملنگ کی بجائے ایک عالمِ دین کی عکّاسی ہوتی ہے اور یہ آپؒ کی شخصیت کی درست نشان دہی کرتی ہے۔

شاعری

حضرت لال شہباز قلندرؒ سے فارسی زبان میں کچھ کلام منسوب ہے، جسے سندھ کے معروف اسکالر، عبدالمجید سندھی نے قلمی بیاضوں سے جمع کیا ہے۔بہت سے محققّین اِس حوالے سے تحقیقی کام پر زور دیتے ہیں کہ معلوم ہوسکے، کیا یہ واقعی آپؒ کا کلام ہے یا اس میں کسی حد تک دوسروں کا کلام بھی شامل ہے۔