محمّد احمد غزالی
’’ ہم آج پھر اللہ کے مہمان ہیں۔‘‘ ماں کا یہ اعلان سُن کر بچّوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ اِس گھرانے میں ہر چند روز بعد ایسا ہی اعلان ہوا کرتا تھا۔جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا، تو ماں بچّوں کو حوصلہ دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرتی۔ ایک بار کہیں سے خاصا غلّہ آگیا، تو کئی روز تک چولھا جلتا رہا، جس پر بہن، بھائی پریشان ہوگئے کہ آخر ہم اللہ کے مہمان کب بنیں گے۔ یہ وہ ماحول تھا، جس میں خواجہ نظام الدّین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی پرورش ہوئی۔
خاندان، تعلیم
جب چنگیزی لشکروں نے تباہی مچائی، تو خواجہ نظام الدّین کے دادا اور نانا اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بخارا سے لاہور آگئے۔کچھ عرصہ وہاں رہ کر بدایوں چلے گئے،جہاں 636 ہجری میں خواجہ صاحبؒ کی ولادت ہوئی۔نام محمّد، جب کہ نظام الدّین اولیاء، محبوبِ الٰہی اور سلطان المشایخ جیسے القاب سے معروف ہیں۔ ابھی پانچ برس کے تھے کہ والد کا سایہ سَر سے اُٹھ گیا اور پرورش کی ذمّے داری والدہ پر آن پڑی۔ قاری شادی مقری سے ناظرہ قرآن پڑھنے کے ساتھ فنِ قرأت میں مہارت حاصل کی۔ پھر مولانا علاءالدّین اصولی سے فقہ حنفی کی مشہور کتاب ،قدوری سمیت کئی کتب پڑھیں۔
جب یہ سلسلہ تکمیل کو پہنچا، تو استاد نے باقاعدہ دستار بندی کی، جس کے لیے والدہ نے بازار سے روئی منگوائی،اُسے کاتا اور پھر اُس کی دستار بنوائی، جو بہت سے بزرگوں کی موجودگی میں آپؒ کے سر پر باندھی گئی۔ اِس موقعے پر والدہ نے شرکاء کے لیے کھانے کا بھی اہتمام کیا۔ 16 برس کی عُمر میں والدہ اور بہن کے ساتھ دہلی آگئے اور تین، چار برس تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ کچھ ہی عرصے میں اِس قدر علمی رسوخ حاصل ہوگیا کہ بحث مباحثے میں کوئی سامنے نہ ٹھہر پاتا،یہاں تک کہ’’ محفل شکن‘‘ کے نام سے پکارے جانے لگے۔تاہم، اِس علمی شغل کے باوجود دل تو کسی اور ہی چیز کی تلاش میں تھا۔
اِس دَوران اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ زیادہ دن تمھارے درمیان نہیں رہ سکوں گا۔ تعلیم کی تکمیل پر قاضی بننے کی کوشش کی تاکہ معاش کا مسئلہ حل ہو، مگر قدرت کوئی اور ہی کام لینا چاہتی تھی، اِس لیے خواجہ فرید الدّین گنج شکرؒ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ آپؒ کے تعلیمی سفر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ آپؒ نے خواجہ فرید الدّینؒ سے خلافت ملنے کے بعد قرآنِ پاک حفظ کیا اور بعدازاں، جب43 برس کے تھے،تو مولانا سیّد کمال الدّین زاہد جیسے معروف محدّث سے اجازتِ حدیث حاصل کی ، جب کہ مولانا امین الدّین احمد تبریزی سے بھی حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپؒ کے نزدیک حصولِ تعلیم کی کس قدر اہمیت تھی۔
خواجہ فرید الدّین گنج شکرؒ کی خدمت میں
بارہ برس کے تھے کہ ایک شخص سے حضرت فرید الدّین گنج شکرؒ کا تذکرہ سُنا، تو دل اُن کی محبّت و عقیدت سے سرشار ہوگیا۔ 20برس کی عُمر میں تعلیم سے کچھ فراغت پائی،تو سیدھے اجودھن کی راہ لی تاکہ بابا صاحبؒ سے اخذِ فیض کرسکیں۔ بیعت کے بعد تعلیمی سلسلے سے متعلق پوچھا، تو بابا صاحبؒ نے تعلیم جاری رکھنے کی ہدایت کی۔آپؒ وہاں سات ماہ مقیم رہے،جس کے دوران بابا صاحبؒ سے چھے پارے تجوید کے ساتھ پڑھنے کے ساتھ حدیث اور تصوّف کی کئی کتب بھی سبقاً سبقاً پڑھیں۔
جب کہ اُن کی ہدایت کے مطابق ذکر و مجاہدات میں بھی مصروف رہے۔ یوں جلد ہی سلوک کی منازل طے کرلیں۔ بابا صاحبؒ کی زندگی میں تین مرتبہ اجودھن گئے اور سات مرتبہ بعد میں وہاں کا سفر کیا۔ بابا صاحبؒ نے یہ کہتے ہوئے تحریری طور پر خلافت عطا فرمائی کہ’’تم ایسے درخت ہوگے، جس کے سائے میں مخلوقِ خدا آرام پائے گی۔ اللہ نے تمھیں علم، عشق اور عقل سے سرفراز فرمایا ہے اور جس میں یہ تینوں چیزیں ہوں، وہ خلافت کا حق دار ہے۔‘‘ اندازہ یہی ہے کہ خلافت کے وقت آپؒ کی عُمر 25 برس کے قریب قریب رہی ہوگی۔
دہلی میں خانقاہ کا قیام
ایک روز نمازِجمعہ کے بعد بابا صاحبؒ نے آپؒ کو بلوایا، قرآن ِپاک حفظ کرنے کی وصیّت کی اور وقت کو فضول کاموں میں گزارنے کی بجائے اچھے کاموں میں مشغول رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے دہلی جانے کا حکم فرمایا۔ اس موقعے پر ارشاد فرمایا،’’ برو مُلکِ ہند گیر‘‘ یعنی جاؤ اور ہندوستان پر حکومت کرو۔ نیز، یہ بھی فرمایا کہ’’ ہم نے اللہ سے تمھارے لیے دین کے ساتھ تھوڑی سی دنیا بھی مانگ لی ہے۔‘‘یوں مرشد سے رخصت ہو کر دہلی کی راہ لی۔ ایک تاجر کے آپؒ کی طرف کچھ بقایا جات تھے، اِسی طرح کسی سے ایک کتاب لی تھی،جو کہیں کھو گئی تھی۔
دہلی پہنچ کر سب سے پہلے اُن دونوں کے پاس گئے تاکہ یہ معاملات نمٹائے جاسکیں۔ اُنھوں نے کہا،’’ تم جہاں سے آ رہے ہو، اس کا یہی نتیجہ ہونا چاہیے تھا‘‘اور اپنا حق معاف کردیا۔ دہلی آکر ایک مدّت تک لوگوں سے الگ تھلگ رہ کر عبادات میں مشغول رہے۔ یہ دن بہت تنگ دستی میں گزرے۔ فرماتے ہیں،’’ اُس زمانے میں دو جیتل( سکّہ) میں ایک مَن خربوزے مل جاتے تھے اور میرے پاس ایک خربوزے جتنے بھی پیسے نہ ہوتے، یہاں تک کہ پورا موسم گزر جاتا۔روٹی تک خریدنے کی سکت نہیں تھی۔‘‘ والدہ سے بے حد محبّت تھی اور اُن کی خدمت میں مشغول رہتے۔
چاند رات آئی، تو اُنھیں مبارک باد پیش کی، جس پر اُنھوں نے کہا،’’ بیٹے! اگلے برس کسے مبارک باد دو گے؟‘‘یہ سُن کر آپؒ رو پڑے اور بولے،’’ مجھ مسکین کو کس کے حوالے کرکے جا رہی ہیں؟‘‘ اُنھوں نے کہا،’’ صبح بتاؤں گی۔‘‘علی الصباح والدہ نے بلوا بھیجا، جب اُن کے پاس گئے، تو اُنھوں نےکہا،’’تم نے رات ایک بات پوچھی تھی، مجھے اُس کا جواب دینا ہے۔‘‘پھر پوچھا،’’ تمھارا سیدھا ہاتھ کون سا ہے؟‘‘خواجہ صاحبؒ نے داہنا ہاتھ آگے بڑھایا، تو والدہ نے ہاتھ پکڑ کر کہا’’ اے اللہ! مَیں اسے تیرے سپرد کرتی ہوں‘‘ اور انتقال کرگئیں۔ آہستہ آہستہ آپؒ کی ایک صوفی بزرگ کے طور پر مقبولیت ہونے لگی،جو آپؒ کے لیے پریشان کُن تھی،تو لوگوں سے بچنے کے لیے مختلف تدابیر کرتے۔ایک سے دوسرے مقام پر منتقل ہوتے رہے۔
تاہم، پھر ایک غیبی اشارے پر دہلی کے نواح میں غیاث پور کے مقام پر مقیم ہوگئے، جہاں اُن دنوں بہت کم آبادی تھی، لیکن اُس کے قریب بادشاہ نے محل بنوایا، تو وہ جگہ بھی تیزی سے آباد ہونے لگی اور اس کے ساتھ ہی آپؒ کی شہرت میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ اس پر وہاں سے کسی اور جگہ جانے کا ارادہ فرمایا، تو ایک مجذوب کے کہنے پر ارادہ بدل لیا اور پھر مستقل طور پر وہیں مقیم ہوگئے۔ بعدازاں ،ایک عقیدت مند نے تین منزلہ خانقاہ یا جماعت خانہ تعمیر کروا دیا۔
عوامی رجوع، شاہانہ لنگر
خواجہ نظام الدّین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو جو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی، وہ خطّے میں کم ہی کسی اور بزرگ کے حصّے میں آئی۔ بادشاہ آپؒ کے پاس حاضر ہونے کی درخواستیں کرتے اور عوام کی تو گویا قطاریں لگی رہتیں۔ جب بھی شاہی لشکر کسی مہم پر روانہ ہوتا،تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں دُعا کے لیے آپؒ کے پاس حاضر ہوتے۔ لوگ کثرت سے ہدیے پیش کرتے، جو ضرورت مندوں میں تقسیم کروا دیتے۔
اگر کبھی زیادہ رقم یا اناج وغیرہ جمع ہوجاتا، تو پریشان ہوجاتے اور اُس وقت تک سکون نہ ملتا، جب تک سب کچھ تقسیم نہ ہوجاتا۔ ہر جمعے کو گوداموں میں جھاڑو دی جاتی اور وہ دوبارہ بَھر جاتے۔اُس دور کے ایک شاہی مؤرخ، ضیاء الدّین برنی کے مطابق، مال دینے اور لینے والوں کا جمگھٹا لگا رہتا۔البتہ بادشاہوں سے کوئی چیز نہ لیتے، وہ زمینیں وغیرہ دینے کی بہت کوشش کرتے، مگر آپؒ ہر بار انکار کردیتے۔
گو کہ آپؒ کی خوراک تو بہت سادہ تھی، مگر آپؒ کا لنگر شاہانہ تھا۔ تقریباً پانچ ہزارافراد ایک وقت میں موجود ہوتے، جن کے لیے پُرتکلّف کھانے پکتے۔پیاز کے اِس قدر چِھلکے جمع ہوجاتے کہ اُنھیں باہر پھینکنے کے لیے اونٹوں پر لاد کر بھیجا جاتا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا،جب بادشاہ قطب الدّین خلجی نے آپؒ کا معاشی گھیراؤ کیا تاکہ آپؒ کا اثر و رسوخ کم کیا جاسکے۔ اُس نے امراء اور سرداروں کے آپؒ کے پاس جانے اور نذرانے پیش کرنے پر پابندی عاید کردی،جب کہ جاسوس بھی مقرّر کیے کہ دیکھیں اب آپؒ کا شاہانہ لنگر خانہ کیسے چلتا ہے،مگر اس کے باوجود روزانہ ہزار ہا افراد آپؒ کے ہاں کھانا کھاتے رہے۔یہاں تک کہ کھانا پہلے سے دُگنا پکنے لگا۔
شخصیت، تعلیمات
آپؒ بہت کم کھانا کھاتے، اکثر روزے سے رہتے۔ خانقاہ کی تیسری منزل پر رہتے تھے اور ہر نماز کے لیے نیچے مسجد میں تشریف لاتے۔نمازِ فجر کے بعد دیر تک تلاوت کرتے۔ پھر اشراق اور بعدازاں چاشت کی نماز ادا کرتے، اِس دوران ذکر اذکار میں مصروف رہتے۔ چاشت کے بعد عام مجلس منعقد ہوتی۔ نرمی اور شفقت سے گفتگو فرماتے۔ خیر خیریت دریافت کرتے، لوگوں کی ضروریات پوری کرتے۔ نمازِ ظہر کے بعد کچھ دیر تلاوت کرتے، پھر عزیز و اقارب میں سے کوئی آیا ہوتا، تو اُس سے ملاقات کرتے۔کچھ دیر قیلولہ فرماتے۔ نمازِ عصر کے بعد چند سورتیں پڑھتے، پھر عام مجلس منعقد ہوتی۔ نمازِمغرب کے بعد سورۂ واقعہ پڑھنا معمول تھا،جس کے بعد دستر خوان لگا دیا جاتا۔
سبزی کے ساتھ ایک آدھ روٹی کھا لیتے، کریلے بہت پسند تھے۔پان بھی کھایا کرتے تھے۔ پھر بالا خانے پر تشریف لے جاتے اور شہر کے مختلف علاقوں سے آنے والوں سے وہاں ملاقات کرتے۔ شرکاء کی خشک میووں اور دیگر اشیاء سے تواضع کی جاتی۔ نمازِ عشاء کے لیے مسجد تشریف لاتے اور پھر اپنے بالا خانے پر جاکر کافی دیر تک ذکر اذکار میں مصروف رہتے۔ پھر چارپائی پر تشریف فرما ہوتے، اِس دوران صرف امیر خسرو کو آپؒ کے پاس بیٹھنے کی اجازت تھی، جو آپؒ کو قصّے اور خبریں سُناتے۔ آپؒ تسبیح پر کچھ پڑھتے رہتے۔امیر خسرو کے جانے کے بعد خادم وضو اور طہارت کے لیے چند لوٹے پانی رکھ دیتا اور آپؒ اٹھ کر اندر سے دروازے کی کنڈی لگا لیتے۔
چوں کہ شادی نہیں کی تھی، اِس لیے اکیلے ہی رہا کرتے تھے۔ مہینے میں ایک بار خواجہ قطب الدّین بختیار کاکیؒ کے مزار پر جاتے اور رات بھر مراقب رہتے۔سماع کا ذوق تھا، لیکن آلاتِ موسیقی کے بغیر اشعار سُنا کرتے، جس شعر پر آپؒ پے گریہ طاری ہوتا، وہ دہلی میں مشہور ہوجاتا۔ مزاج میں بے حد تواضع اور انکسار تھا۔ایک مرتبہ پیر کی تکلیف کی وجہ سے پلنگ پر بیٹھے تھے اور لوگ نیچے،جس پر بار بار لوگوں سے معذرت کرتے رہے۔فرماتے،’’انسان کو دو کاموں کا خاص طور پرخیال رکھنا چاہیے۔
ایک تو یہ کہ ایسے کاموں سے دُور رہے،جو اُسے اللہ تعالیٰ سے دُور کرتے ہوں اور دوسرا یہ کہ دِلوں کو راحت پہنچائے یعنی مخلوقِ خدا کی بہتری کے کام کرے۔‘‘ آپؒ اِس قول پر مکمل طور پر عمل پیرا تھے۔ ایک طرف اوقات عبادات اور رشد و ہدایت میں گزرتے، تو دوسری طرف، عوامی بھلائی کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ ایک بار ایک عورت کو دیکھا، جو کنویں سے پانی لے کر گھر جا رہی تھی،تو اُس سے پوچھا،’’ تم اِتنی زحمت کیوں کرتی ہو،جمنا کا پانی پی لیا کرو۔‘‘اس پر وہ بولی، ’’جمنا کا پانی پینے سے بھوک زیادہ لگتی ہے اور ہم غریب لوگ ہیں، ہمارے پاس کھانے کو بہت کم ہوتا ہے۔‘‘
یہ سُن کر آپؒ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اپنی خانقاہ سے اُس گھرانے کے لیے یہ کہتے ہوئے وظیفہ لگوا دیا کہ’’ کنویں سے پانی بھرنے کی مشقّت مت اُٹھایا کرو، جمنا کا پانی پیا کرو۔‘‘ایک بار علاقے میں آگ لگی، تو جتنے گھر جلے نہ صرف متاثرین تک کھانا پہنچایا بلکہ مکانات کی مرمّت و تعمیر کے لیے اُنھیں مالی مدد بھی فراہم کی۔ آپؒ نے علاقے کے رہنے والوں اور علماء کے لیے باقاعدہ وظائف مقرّر کر رکھے تھے۔ لوگوں میں روزانہ کپڑے، اناج اور دیگر سامان تقسیم کیا جاتا۔ چوں کہ وہاں پانی کا مسئلہ تھا،اِس لیے آپؒ کی طرف سے علاقے بھر میں پانی سے بَھرے مٹکے فراہم کیے جاتے۔قرآن پاک کے حفظ پر بہت زور دیتے۔اپنے تمام بھانجوں کو حفظ کروایا۔
خود تفسیر، حدیث اور فقہ کی کتب کا درس دیتے۔کسی کو خلافت دیتے ہوئے دیکھتے کہ وہ دینی علوم کے لحاظ سے کس مقام پر ہے، اگر کوئی کمی ہوتی، تو خلافت نہ دیتے۔ لوگوں کے مزاج کے مطابق اُن کی تربیت کرتے۔ ایک مرید کو فرمایا،’’ جس کی ایک لڑکی ہوتی ہے اُس کے اور جہنّم کے درمیان ایک پردہ ہوجاتا ہے اور تمھاری تو چار لڑکیاں ہیں۔‘‘ پھر فرمایا،’’ لڑکیوں کے باپ کے رزق میں وسعت کرد ی جاتی ہے۔‘‘ایک موقعے پر ارشاد فرمایا،’’ سونا، چاندی، گھوڑے اور سامان دنیا نہیں، بلکہ ان سے محبّت رکھنا دنیا ہے۔‘‘
آپؒ کا ارشاد ہے،’’اگر کوئی کانٹا رکھے اور تم بھی جواب میں کانٹے بچھاؤ، تو کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے۔ اچھوں کے ساتھ اچھے اور بُروں کے ساتھ بھی اچھا ہونا چاہیے۔‘‘ فرمایا،’’اعمال میں استقامت ہی کرامت ہے۔‘‘حضرت ابراہیم ادہمؒ کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا،’’ حرام لقمے سے بچو اور دل سے دنیا کی محبّت دور کردو، پھر اللہ کا جو نام لو گے، اسمِ اعظم کا اثر پیدا کرے گا۔‘‘
روزگار کی تنگی دُور کرنے کے لیے ہر شب سورۂ جمعہ کی تلاوت کی ہدایت فرماتے۔ مطالعے کا بے حد شوق تھا، اپنا وسیع کتب خانہ تھا۔ رات دیر تک مطالعہ کرتے رہتے اور اہم نکات کتاب کے حاشیے پر لکھتے جاتے۔ شعر کا بھی نہایت عُمدہ ذوق پایا تھا اور اس حوالے سے کافی گہری نظر تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امیر خسرو آپؒ کی ہدایات کی روشنی میں اشعار تخلیق کیا کرتے تھے۔ ایک موقعے پر فرمایا،’’شعر ایک لطیف چیز ہے، مگر جب اس کے ذریعے قصیدہ خوانی کریں اور ہر کس وناکس تک لے جائیں، تو یہ سخت بد ذوقی ہے۔‘‘
حکم رانوں سے تعلقات
چشتی سلسلے کے مشایخ، بادشاہوں اور اُن کے درباروں سے دُور رہتے تھے، خواجہ صاحبؒ زندگی بھر اس روایت پرسختی سے عمل پیرا رہے۔آپؒ تقریباً ساٹھ برس دہلی میں رہے،جس دَوران آٹھ بادشاہ تخت پر بیٹھے، جن میں سے کئی ایک آپؒ کے معتقد تھے۔ سلطان جلال الدّین خلجی نے کئی بار آپؒ کے ہاں آنے کی کوشش کی، مگر آپؒ نے اجازت نہیں دی۔
سلطان علاء الدّین خلجی کو بھی خواہش کے باوجود باریابی کی اجازت نہ مل سکی۔ البتہ، دربار سے منسلک امراء وغیرہ کثرت سے آپؒ کے پاس آتے تھے۔اِس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپؒ کا دامن محلّاتی سازشوں سے محفوظ رہا اور تخت نشینی کی جنگوں سے آپؒ کے متعلقین کو نقصان نہیں پہنچا، تو دوسری طرف، آپؒ نے بااثر امراء اور وزراء کے ذریعے اصلاح کا کام بھی جاری رکھا۔
وصال
وصال سے کئی روز پہلے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ ہر وقت گریہ طاری رہتا۔ بار بار پوچھتے، نماز کا وقت ہوگیا اور نماز پڑھنے لگتے۔ بدھ 18 ربیع الثانی 725 ہجری میں طلوع ِآفتاب کے وقت انتقال کرگئے۔ نماز جنازہ، حضرت بہاء الدّین زکریاؒ کے پوتے، شیخ رکن الدّین ملتانیؒ نے پڑھائی۔ مزار غیاث پور میں ہے، جسے اب ’’بستی نظام الدّین‘‘ کہا جاتا ہے۔
فوائد الفواد
یہ آپؒ کے ملفوظات کا مجموعہ ہے، جسے آپؒ کے مرید امیر حسن سجزی نے قلم بند کیا۔ یہ پندرہ برس کے دورانیے کی 188مجالس پر مشتمل ہے۔ خواجہ صاحبؒ نے انھیں ملاحظہ فرمایا اور بعض مقامات کی تصیحح بھی فرمائی۔ اِن ملفوظات کا اردو میں بھی ترجمہ ہوچُکا ہے۔