• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد عبدالمتعالی نعمان

نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ بتولؓ، نوجوانانِ جنّت کے سردار، کربلا کے قافلہ سالار، حق و صداقت کے عَلم بردار، سیّدنا حضرت حسینؓ، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیّین، حضرت محمّد مصطفیٰﷺ کے چہیتے نواسے، شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور سیّدۃ النساء اہل الجنّۃ، حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کے عظیم فرزند اور حضرت حسنؓ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ابو عبداللہ آپؓ کی کنیت، سیّد، طیّب، مبارک، سبط النبیؐ، ریحانۃ النبیؐ اور نواسۂ رسولؐ القابات ہیں۔سیّدنا حضرت حسینؓ شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی خبر سُن کر سیّدِ عرب و عجم، سرکارِ دو عالمﷺ ، حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے اور نومولود کے کانوں میں اذان دی اور آپؓ کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن داخل فرمایا، آپؓ کے لیے دعا فرمائی اور آپؓ کا نامِ نامی’’ حسینؓ ‘‘رکھا۔

سیّدنا حسینؓ نے تقریباً سات سال تک سرورِ کونینﷺ کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی۔ نبی کریمﷺ ، حضرات حسنینؓ سے غیرمعمولی محبّت و شفقت فرماتے اور تمام صحابۂ کرامؓ بھی رسالت مآبﷺ کی اتباع میں حسنین کریمینؓ سے خصوصی شفقت و محبّت رکھتے اور اکرام فرماتے۔نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد خلیفۃ الرسولؐ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، امیر المومنین سیّدنا حضرت عُمر فاروقؓ اور سیّدنا حضرت عثمان غنیؓ بھی حضرات حسنینؓ کو نہایت عزیز اور مقدّم رکھتے اور اُنہیں اپنی اولاد پر ترجیح دیتے تھے۔

امام عالی مقام، سیّدنا حسینؓ بے حد فیّاض، نہایت متقی، عبادت گزار اور کثرت سے نیک عمل کرنے والے تھے۔ سخاوت، مہمان نوازی، غرباء پروری، اخلاق و مروّت، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپؓ کی خصوصیاتِ حسنہ تھیں۔ آپؓ کو نماز سے بے حد شغف تھا۔ اکثر روزے سے رہتے۔ حج و عمرہ کی ادائی کا اِتنا ذوق تھا کہ متعدّد حج پاپیادہ ادا فرمائے۔آپؓ نہ صرف صُورت بلکہ سیرتِ مبارکہ میں بھی رسول اللہﷺ کی شبیہ تھے۔ آپؓ کی ذاتِ گرامی اِتنے محاسن اور محامد سے آراستہ ہے کہ نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ سیّدنا حسینؓ نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادۂ نبویؐ میں پرورش پائی، اِسی لیے معدنِ فضل و کمال بن گئے۔ 

علم کا باب تو آپؓ کے گھر میں کُھلتا تھا اور تقویٰ کی سیّدنا حسینؓ کو گُھٹی ملی تھی، اِسی لیے فطری طور پر آپؓ اپنے دَور میں شریعت اور طریقت کے امام تھے۔تمام اربابِ سیرت نے حضرت امام حسینؓ کے فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے کہ آپؓ بڑے درجے کے حامل تھے۔ حضرت علیؓ قضاء و افتاء میں بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ سیّدنا حسینؓ نے بھی حصولِ علم کے بعد مسندِ تدریس کو زینت بخشی اور مسندِ افتاء پر فائز ہوئے۔ اکابرِ مدینہ مشکل مسائل میں آپؓ کی طرف رجوع کیا کرتے ۔سبطِ رسولؐ، سیّدنا حضرت حسینؓ دینی علوم کے علاوہ عرب کے مروّجہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ آپؓ کے تبحرِ علمی، علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ آپؓ کے خطابات سے لگایا جاسکتا ہے، جن میں سے کچھ آج بھی کتبِ سیرت میں موجود ہیں۔

جگرِ گوشۂ بتولؓ، سیّدنا حضرت امام حسینؓ فضائل و مناقب اور سیرت و کردار کا روشن و درخشاں باب ہیں۔ متعدّد احادیثِ مبارکہؐ آپؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ بارگاہِ رسالتﷺ میں حضرات حسنینؓ کی عظمت و محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ اکثر نبی مہربانﷺ آپؓ دونوں کے لیے دُعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپؓ کے ساتھ محبّت رکھنے کی تاکید فرماتے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اِس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپﷺ ایک کندھے پر حضرت حسنؓ کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسینؓ کو اُٹھائے ہوئے تھے، یہاں تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا’’ یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں۔‘‘ اور پھر فرمایا’’ اے اللہ! مَیں اِن دونوں کو محبوب رکھتا ہوں، تُو بھی ان کو محبوب رکھ اور جو اِن سے محبّت کرتا ہے، ان کو بھی محبوب رکھ‘‘(مشکوٰۃ شریف)۔

سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا’’حسنؓ و حسینؓ نوجوانانِ جنّت کے سردار ہیں‘‘ (ترمذی)۔ ایک موقعے پر خاتم النبیینﷺ نے فرمایا’’جس نے حسنؓ و حسینؓ سے محبّت کی، اُس نے درحقیقت مجھ سے محبّت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا، وہ دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے‘‘(البدایۃ و النہایۃ، ج8 ص208)۔اِسی طرح آنحضرتﷺ کا ارشادِ مبارک ہے’’حسینؓ مجھ سے ہے اور مَیں حسینؓ سے ہوں‘‘(ترمذی)۔ حضرت ابنِ عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ حسنؓ اور حسینؓ دنیا کے میرے دو پھول ہیں‘‘(مشکوٰۃ شریف)۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپؐ کو اہلِ بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبّت ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ‘‘ حَسن و حُسین سے۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت فاطمہؓ سے فرماتے،’’ میرے بچّوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپ اُنہیں چومتے اور سینے سے لگاتے۔‘‘(ترمذی)۔حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ اچانک دیکھا، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سرخ قمیصوں میں ملبوس گرتے پڑتے آرہے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اُترے، دونوں کو اُٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا‘‘ (ترمذی)۔

سن60ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا، تو لادینیت، ناانصافی، عہد شکنی، ظلم و جبر اور فسق و فجور کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روح کے منافی فسق و فجور سے آراستہ فاسقانہ ثقافت یزید کے دَور اور اس کے دربار میں پروان چڑھنے لگی۔ تاریخ کی بے شمار کتب اس کی گواہ ہیں۔ ایسے وقت میں، جب خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی اور ملوکیت کی بنیادیں رکھی جانے لگیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لازم ہوگیا، تو اس نازک وقت اور سنگین دَور میں یہ عظیم سعادت سیّدنا حسینؓ کا مقدّر ٹھہری۔ 

آپؓ ایمانی جذبے سے سرشار ہو کر کھڑے ہوئے اور یزید کے باطل اقدامات کے خلاف آہنی دیوار بن گئے۔یہاں تک کہ برائی کے سدِّباب کے لیے آخری سانس تک ہر ممکن کوشش کی۔ امام حسینؓ نے تمام خطرات کے باوجود عزیمت کی راہ اختیار کی، کیوں کہ ایک طرف ذاتی خطرات تھے اور دوسری طرف، ناناﷺ کا دین اور اُمّتِ محمّدیؐ کا مفاد تھا، لہٰذا آپؓ نے نہ صرف اپنی ذاتِ اقدس بلکہ اپنے پورے گلشن کو اسلام کی سربلندی اور اُمّت کے وسیع تر مفاد پر قربان کردیا۔

اور یوں 10؍محرم الحرام، بروز جمعہ 61ہجری میں وہ دل دوز، دل خراش سانحہ پیش آیا، جس میں امام مظلوم، سیّدنا حضرت امام حسینؓ اپنے فرزندوں، بھتیجوں اور دیگر عزیزوں، جاں نثاروں کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے مقامِ کربلا میں یزیدی لشکر سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے اور باطل کو وہ شکستِ فاش دی کہ رہتی دنیا تک جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔اس طرح حق و صداقت کی وہ لازوال شمع روشن کی، جو کفر و باطل کی گھٹا ٹوپ ظلمتوں میں انسانیت کے لیے راہِ نجات اور چراغ راہِ منزل ہے۔؎فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے…جسے مرنا نہیں آتا،اُسے جینا نہیں آتا۔

رحمتِ دوعالمﷺ نے فرمایا’’افضل جہاد ظالم سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے‘‘(نسائی، ترمذی)اور سیّدنا امام حسینؓ نے دورِ ظلم و جور میں جس شان سے افضل جہاد کیا اور جرأت و شجاعت، عزم و استقلال، ایمان و عمل، ایثار و قربانی اور تسلیم و رضا کی جو بے مثال داستان رقم کی، تاریخِ انسانی اُس کی نظیر پیش کرنےسے قاصر ہے۔؎حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیریؓ…بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی۔

آپؓ کے یوں ڈٹ جانے نے لوگوں کے شعور کو جِلا بخشی، جذبۂ حریّت بیدار ہوا اور خلافت کی حدود کا تعیّن ہوا۔ امام عالی مقام، سیّدنا حسینؓ کا مقصد اعلائے کلمۃ الحق، اللہ تعالیٰ کی سر زمین میں اللہ جل شانہ کی حکومت کا قیام، دینِ مبین کی ترویج و اشاعت اور حق و صداقت کی نشر و اشاعت تھا۔ نواسۂ رسولؐ، سیّدنا حسینؓ نے اپنی بے مثال قربانی سے لاالہٰ الا اللہ کا مفہوم اُجاگر کیا۔ سلطان الہند، حضرت خواجہ معیّن الدین چشتیؒ سے منسوب یہ بے مثل اشعار اسی ابدی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔؎شاہ است حسینؓ، پادشاہ است حسینؓ…دین است حسینؓ، دین پناہ است حسینؓ…سرداد، نہ داد دست در دستِ یزید…حقّا کہ بنائے لاالہٰ است حسینؓ۔

اگر تاریخ کے اس نازک موڑ پر حضرت امام حسینؓ کھڑے نہ ہوتے، تو حقیقت یہ ہے کہ شاید آج تک حقیقت مشتبہ ہی رہتی، کچھ معلوم نہ ہوتا کہ خلافت کیا ہے اور ملوکیت کیا؟ ہمیں کون سا نظام اختیار کرنا ہے اور کس نظام سے بچنا ہے؟ اگر آپؓ کھڑے نہ ہوتے تو ملوکیت کو سندِ جواز مل جاتی، جیسے کلیم اللہ، حضرت موسی ؑفرعون کے خلاف قیام نہ فرماتے تو فرعونیت قائم رہتی۔ شاعرِ مشرق، علّامہ اقبالؒ نے شاید اِسی لیے شبیرؓ و یزید کا ذکر موسٰی ؑ و فرعون کے ساتھ کرتے ہوئے کیا خُوب فرمایا ہے؎موسٰیؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید…ایں دو قوّت از حیات آید پدید۔

یہ تاریخی فرض ادا کرنے پر حضرت امام حسینؓ بجا طور پر خیرِ اُمّت ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر سیّدنا حسینؓ کا اسوہ ہمارے سامنے نہ ہو، تو جبر و استبداد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا اور ظلم کے خلاف کوئی تحریک نہیں چل سکتی۔ امام الشہداء، سیّدنا حضرت امام حسینؓ کا فلسفۂ شہادت نہ صرف مسلمانوں بلکہ کُل انسانیت کے لیے ایک دستورِ حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

سیّدنا حضرت امام حسینؓ کی شہادت نے ضمیروں کو بیدار کیا، دِلوں کو بدلا، ذہنی انقلاب کی راہیں ہم وارکیں اور انسانی اقدار کی عظمت و اہمیت کو فروغ دیا، لہٰذا استبدادی حالات اور ظلم و جور کی حکومت میں سیّدنا حسینؓ کا اقدام ہمیں درس دیتا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، باطل چاہے کتنا ہی طاقت ور ہو، یزیدی قوّتیں کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں،حق و صداقت، اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت، اسوۂ نبویؐ کے احیاء اور دین کی سربلندی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے، چاہے اس راہِ حق میں جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے، چاہے اس راہِ حق میں اپنی جان ہی چلی جائے، راہِ حق میں اپنی گردن ہی کیوں نہ کٹوانی پڑے۔صدیاں گزرنے کے باوجود سیّدنا حضرت امام حسینؓ کا پیغام اور فلسفۂ حق و صداقت، دینِ اسلام کی سربلندی کا روشن نشان ہے، اس لیے کہ؎قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے…اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔