• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کے بعد سے پاکستان کو اپنے روایتی حریفوں، مشرق میں بھارت اور مغرب میں افغانستان کے حملے کا خوف رہا ہے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے اندر ایسے دشمن موجود ہیں جو ہمارے تمام بیرونی مخالفوں سے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ فعالیت کی سطح پر ان اندرونی قوتوں کو بیرونی عناصر کی سرپرستی اور حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔

اگرچہ اندرونی قوتیں برسوں سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور اپنے مذموم منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئےاس کا فائدہ اٹھانے میں مصروف رہیں، لیکن گزشتہ چند برسوں میں وہ جس تباہ کن شدت کے ساتھ فعال ہیں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ عمران خان کے اقتدار میں آنے اور ان کی اصلاحی پالیسیوں کے سال تھے۔ وہ ان سب کا احتساب کرنے کے لئے پرعزم تھے جو کسی نہ کسی حیثیت میں اقتدار کے عہدوں پر رہے ہیں۔ عمران خان نے پالیسی کی سمت بھی بدل دی جس پر ملک روایتی طور پر گامزن تھا۔ اقتدار کی نشستوں پر عشروں سے براجمان افراد کے مفادات کو برقرار رکھنے کی بجائے ریاست اور اس کے مفادات اس بنیادی پالیسی کی ترجیح بن گئے۔ پالیسیاں اب کسی فرد یا کچھ طاقتور کارٹلز کے مفادات کو پورا کرنے کے لئے نہیں تھیں۔ ریاست اور اس کے عوام کا اجتماعی مفاد نئی طرزِ فکر کا بنیادی محرک قرار پایاتھا۔ پالیسی پر نظر ثانی کا ہدف پاکستان کو امریکہ کی غلامانہ گرفت سے آزاد کرانا اور طاقت کے علاقائی مراکز کے ساتھ وابستہ کرنا تھا تاکہ ملک غلامی کی دلدل سے نکل کر معاشی اور تزویراتی آزادی کی فضائوں میں سانس لے سکے۔

پالیسی میں اس کثیر جہتی تبدیلی نے روایتی اسٹیٹس کو مافیاز اور کارٹیلز کے مفادات کو بری طرح زک پہنچائی۔ اور یہ ان کے لئے قابلِ قبول نہیں تھا۔ اس کے ردِعمل میں عمران خان کے ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے فوراًبعد ہی ان کے خلاف ایک مہم چلائی گئی جس کی شدت ، مقصد اور سمت وقت گزنے کے ساتھ ساتھ مزید زہرناک ہوتی گئی۔ عمران خان پر بہت سی چیزوں کا الزام لگایا گیا جس سے ان کا دور دورتک کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے لانگ مارچ کئے گئے ۔ منتخب میڈیا ہاؤسز کو ان پر کیچڑ اچھالنے اور ان کی کثیر جہتی کامیابیوں کو جھٹلانے کے لئے مسلسل پروپیگنڈے کےلئے استعمال کیا گیا۔ آج تک وہ واحد ایسے رہنما ہیں جنہوں نے ایک نجی شہری کے طور پرکینسر کے علاج، تعلیم اور عوامی بہبود کے کلیدی شعبوں میں پاکستان کے لئے بہت زیادہ کام کیا۔

ان مقاصد کے لئے اُنھوں نے بینکوں سے قرض نہیں لیا کہ وہ نادہندہ ہوکرقومی خزانے کو نقصان پہنچا سکیں۔ وہ لوگوں کے پاس گئے اور ان سے ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے تعاون کی درخواست کی۔ باقی تاریخ ہے۔اپنی زہریلی دشمنی میں اندھے ہوکر کارٹیلز نے ان کی انسانی فلاحی خدمات کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی۔ بدعنوانوں کا ایک عظیم اتحاد ان کو اقتدار کی کرسی سے ہٹانے کےلئے اکٹھا کیا گیا تھا تاکہ وہ ایک بار پھر اپنی ذاتی تجوریوں کو بھرنے کے لئے اقتدار پر براجمان ہوسکیں اورملکی خزانہ لوٹ سکیں۔ وہ لوگ جنھیں عدالتِ عظمیٰ نے سنگین جرائم کی وجہ سے عوامی عہدوں پر فائز ہونے سے نااہل قرار دے دیا تھا اور جو اس وقت سے فوج اور اس کے اہلکاروں پر تنقید کر رہے تھے، جمہوری طور پر منتخب حکومت کو گرانے کے اس افسوس ناک منصوبے میں شامل کرلئےگئے ۔ اس مہم کا مقصد عمران خان کی کردار کشی کرنا اور انہیں بدنام کرنا ، غیر جانب دار رپورٹنگ کرنے والے میڈیا کی زبان بندی کرنا، دبائو بڑھانے کے لئے پارٹی کے اہم افراد کو نشانہ بنانا، سوشل میڈیا کو محدود کرنا اور یو ٹیوبرز کا پیچھا کرنا ہے۔ مہم کا حتمی مقصد لوگوں کوخوفزدہ کرنا، خاص طور پر وہ لوگ جو پارٹی کے حامی ہیں، پی ٹی آئی کو ناکام بنانا اور عمران خان کو عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دینا ہے۔

یہ ایک گیم پلان ہے جو ملک میں بہت ہی تال میل کے ساتھ کھیلا گیا ہے :ایک نئے دشمن کو ہٹانے کے لئے سابقہ دشمنوں کو شراکت دار بنانا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کی جڑیں کبھی گہری نہیں ہو سکیں۔ جب سے عمران خان کو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر عہدے سے ہٹایا گیا، تب سے ان کی مقبولیت عروج کے نت نئے معنی لکھ رہی ہے۔ جب بھی وہ آواز دیتے ہیں، لاکھوں لوگ ان کے جلسوں میں تاریخ رقم کرنے جمع ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف پنجاب اور خیبر پختونخوامیں تحریک کی حکومتوں کو دباؤ میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کچھ عرصہ کے لئے پنجاب کو بھی انتہائی غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے کرائم سنڈیکیٹ کے حوالے کیا گیا جو کہ حال ہی میں ان کی طاقت کے مرکز میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد پلٹ گیا ۔ اس سے وہ خوفزدہ ہو گئے ہیں اور وہ مشن کی تکمیل کےلئے اضافی مدد کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں طالبان جنگجوؤں کی دراندازی خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہیں۔ وہ ریاست کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ وہ کیسے آئے ہیں اور ان کے ڈرائیور کون ہیں؟ایک بار پھران علاقوں میں داخل کیسے ہوئے جہاں سے اُنھیں بے دخل کر دیا گیا تھا؟کیا یہ کوئی راز ہے؟ شاید نہیں۔

پاکستان داخلی طور پر حملے کی زد میں ہے۔ تشدد اور فساد کی لہر ابھر رہی ہے۔ نجات کا ایک ہی پرامن راستہ ہے:فوری طور پر شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا اعلان۔

تازہ ترین