• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریکِ پاکستان کے دوران جو عوامل کار فرما رہے ،اُن میں بنیادی حیثیت اس نکتے کو حاصل تھی کہ ’’ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان ہر اعتبار سے ایک علیحدہ قوم ہیں۔ دونوں قوموں میں مذہبی اور تہذیبی اعتبار سے خاصا نمایاں فرق ہے اور ان کے مقاصد ِحیات بھی یک سر مختلف ہیں۔ ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کا سیاسی و معاشرتی مستقبل ’’متّحدہ ہندوستان‘‘ میں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چوں کہ ماضی کی طویل تر تاریخ کے ہردَور میں مسلمانوں کو ہندوئوں کی طرف سے تلخ تجربات ہوئے ہیں، اس لیے یا تو مسلمانوں کو ہندوستان میں مکمل اور یقینی تحفّظ حاصل ہونا چاہیے یا ہندوستان کی تقسیم ہونی چاہیے، تاکہ تقسیم کے بعد مسلمان اپنے زیرِ اقتدار علاقوں میں ایک اسلامی مملکت قائم کرسکیں۔ ‘‘ 

اس طرح پاکستان کا قیام محض چند برس کی نہیں، بلکہ اُس طویل ترین جدّوجہد کا نتیجہ ہے، جس کے تحت مسلمانوں نے ہردَور میں اپنی جدا گانہ ہستی برقرار رکھنے کی بھر پور کوشش کی ۔ محمّد بن قاسم سے احمد شاہ ابدالی تک جس نے بھی ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا آغاز یا احیاء کیا، اُسے ہندوؤں کی جانب سے مشکلات، محاذ آرائی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر ہندوؤں کا دوسرا محاذ ’’سیاسی اور تہذیبی‘‘ تھا۔ مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم تسلیم کرنے کے باوجود ہندو اُن کی جدا گانہ حیثیت ماننے پر تیار نہ تھے۔ سیاسی میدان میں ہندوؤں کی جانب سے گرچہ ’’ہندو، مسلم بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ بھی گونجا، لیکن عمل در پردہ اس کے برعکس رہا۔ 

اُن کا مقصد صرف ایک تھا کہ اکثریت کے بَل بوتے پر حکومت کے اختیارات ہندوئوں ہی کے ہاتھ رہیں اور مسلمان تا عُمران کے محکوم بنے رہیں۔ اُن کے نفرت انگیز رویّے نے کبھی اُردو زبان کی مخالفت کا روپ دھارا، تو کبھی’’ گاؤ ماتا‘‘ کے تحفّظ کا۔ کسی نے مسلمانوں کو غیر ملکی حملہ آور قرار دے کر عرب لَوٹ جانے کی تلقین کی، تو کسی نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنا مذہب، تاریخ، روایات اور تہذیب ہر شئے ترک کر کے خود کو ہندو قومیت میں ضم کر لیں اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘کا جزو بن جائیں۔ یہ کوششیں آج بھی بھارت میں کسی نہ کسی صُورت نمایاں ہیں، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں جارحانہ طور پراضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

انگریز راج میں بھی ہندوؤں کی یہی خواہش تھی کہ مسلمان اپنے زوال کی انتہا تک پہنچ جائیں۔ اس کی وجہ محض یہ نہیں تھی کہ مسلمان اُن کے سابق حکم ران تھے، بلکہ وہ ان سے ذاتی بغض و عناد رکھتے تھے کہ مسلمان دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ دینی اخوّت کے رشتے سے جو بندھے تھے۔ پھر یہ رشتہ انگریزوں کے لیے بھی تشویش کا باعث تھا، کیوں کہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی وہ استعماری عزائم رکھتے تھے۔ چناں چہ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ہندوستان میں اسلام کسی طور ایک قوّت نہ بن سکے۔ مسلمانوں کے سامنے ہندوئوں اور انگریزوں کے مشترکہ مقاصد پوری طرح نمایاں تھے۔ وہ محض ہندوستان میں بسنے والی ایک قوم کی حیثیت سے نہیں، ایک مسلم اُمّہ کی حیثیت سے اپنے قومی وجود کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ 

انھوں نے ہندوؤں کے مصلحت آمیز منافقانہ عمل کے مقابلے میں متعدد مرتبہ بغاوت کی۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے ان کے ملّی وجود کو غیر قوموں کے ساتھ اشتراک سے روکا۔ شاہ ولی اللہ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی قومی حیثیت کو مزید تقویت پہنچائی۔ ان کے شاگردوں اور ماننے والوں میں سید احمد شہید اور ان کے رفقاء نے ایک طویل عرصے تک دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد کیا، جو ان کے پیروکاروں کے طفیل بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہا۔1857ء کی جنگِ آزادی میں بھی مسلمان ہی پیش پیش تھے۔ بعد میں اسی اضطراب اور بے چینی کے نتیجے میں مسلمانوں نے اکثر مواقع پر اپنے اس مزاج کا مختلف تصوراتِ آزادی اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے تصوّر کی شکل میں اظہار کیا۔

مسلمانوں کی سیاست جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ہمیشہ ایک متوازی رستے پر چلی، کبھی ہندو سیاست کے جال میں گرفتار نہ ہوئی۔ مسلمانوں نے اپنی ساری جدّو جہد میں اسلام کے اس نظریے اور اس مزاج کا بار بار اظہار کیا کہ وہ غیروں کی غلامی کسی صُورت قبول نہیں کریں گےاورپاکستان کا قیام بھی دراصل اسی مزاج اور نظریے کی عملی تعبیر ہے۔ یاد رہے، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے صرف ایک آزاد مملکت کا حصول ہی حتمی اور آخری مقصد نہیں تھا، بلکہ اصل مقصد تو اس سرزمین پر ایک اسلامی معاشرے کا قیام، شریعتِ اسلامی کا نفاذ اور عدل و انصاف کی ترویج تھا۔ پاکستان کی بنیادیں واضح ، ٹھوس نظریاتی اساس پر رکھی گئی تھیں اور قرار دادِ پاکستان سے ان بنیادوں کی نشان دہی ہوتی تھی۔ 

تحریکِ پاکستان کے دوران قائدِ اعظم نے پاکستان کے آئین کی تفصیلات پر اظہارِ خیال سے ہمیشہ گریز کیا۔ انھوں نے ہر موقعے پر یہی کہا کہ ’’یہ کام پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کرے گی۔‘‘ قائداعظم محض اپنی مرضی سے کوئی لائحہ عمل ترتیب نہیں دینا چاہتے تھے۔ وہ خود قانون دان ہونے کی حیثیت سے آئین اور دستور کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، تب ہی انھوں نے آئین کی تیاری دستور ساز اسمبلی کی صوا بدیدسے مشروط رکھی۔

قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی قومی سیاست ابتدا ہی سے دشواریوں کی شکار رہی۔ آزادی کے بعد پہلا سال ایک نئی انتظامیہ ترتیب دینے ، لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری اور ریاستوں کے بے حد مشکل اور ہمہ گیر مسائل سے عہدہ برآ ہونے میں صرف ہوگیا۔ پھر چند ہی ماہ بعد بھارت نے کشمیر میں جنگ چھیڑ دی۔ پاکستان کے لیے ایک نئے آئین کی تیاری بھی اُس وقت ایک اہم اور ضروری مسئلہ تھا۔ 

قیامِ پاکستان کے وقت قانونِ آزادیٔ ہند کے تحت 1935ء کے قانون ہی کو بعض تبدیلیوں کے ساتھ وقتی طور پر اختیار کیا گیا، چوں کہ یہ پرانا قانون مُلک کی نظریاتی ضرورتوں اور تقاضوں پر پورا نہیں اُتر تا تھا، لہٰذا نظریۂ پاکستان اور عام قومی احساسات سے ہم آہنگ آئین مرتّب کرنے کے لیے فوری طور پر ایک نئی دستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی، جس نے انتہائی جاں فشانی سےاپنا فریضہ سرانجام دینا شروع کر دیا۔ 

اس دوران مُلک کے اندرونی مسائل اور بیرونی خطرات نے قومی جذبات کو مسلسل مضطرب اور منتشر کیے رکھا، جب کہ اسی دوران قوم قائداعظم کی رحلت کے شدید اور الم ناک سانحے سے بھی دو چار ہوئی۔ بہرحال، آئین سازی کا فریضہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم، نواب زادہ لیاقت علی خان کے ذمّے آیا۔ویسے تو عام حالات میں بھی آئین سازی ایک بہت مشکل اور ہمت آزما عمل ہے کہ کسی بھی مُلکی آئین کی تیاری میں زیادہ سے زیادہ نقطہ ہائے نظر کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے، کیوں کہ نظریاتی کشمکش اور مفادات میں تصادم کے ساتھ ساتھ لسانی اور علاقائی سوالات اٹھ کھڑے ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔

لیکن پاکستان میں آئین ساز اسمبلی کو جن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،وہ انتہائی پیچیدہ ہونے کے علاوہ تعداد کے اعتبار سے بھی بہت زیادہ تھے۔ اس کے باوجود حصولِ پاکستان کے مقاصد، قومی احساسات کے تقاضوں اور پھر آئین سازوں کے عزم و استقلال کا نتیجہ تھا کہ پاکستان دستور ساز اسمبلی نے بہر کیف 12مارچ 1949ء میں ایک قرار داد منظور کرلی، جو ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے اس قرار داد کی منظوری کو حصولِ آزادی کے بعد مُلکی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیا۔ یہ قرارداد دراصل مستقبل کے آئین کے بنیاد ی رہنما اصولوں پر مشتمل تھی۔ جس میں پاکستان کا دستور قرآن اور سنّت کے مطابق تشکیل دینےکا عہد کیا گیا تھا۔ 

اس میں کہا گیا کہ ’’ساری کائنات کی حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اس کے مقرّر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اہلِ پاکستان اقتدار کا استعمال کریں گے۔ پاکستان میں اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت، آزادی اور معاشرتی عدل کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے گا اور پاکستان کے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی حیثیتوں میں اپنی زندگیاں کتاب و سنّت کی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکیں۔ اقلیتوں کو اپنے مذہب و ثقافت کے فروغ اور اس پر عمل درآمد کی معقول ضمانت دی جائے گی، اُن کے بنیادی حقوق کابھرپور تحفظ کیا جائے گا۔ عدلیہ کی آزادی محفوظ رہے گی اور مُلک کی سالمیت اور آزادی کا بھرپورتحفّظ کیا جائے گا۔‘‘

ایک طویل جدّوجہد اور لازوال قربانیوں کے بعد بالآخر مسلمانانِ ہند (موجودہ پاکستانی) اپنے مقاصد اور خواب اس قرارداد کی شکل میں حقیقت میں ڈھلتے دیکھ رہے تھے۔ لیکن افسوس کہ پون صدی گزر جانے کے باوجود نہ تو وہ خواب پورے ہوئے ،جن کے لیےیہ مُلک حاصل کیا گیا تھا اور نہ ہی پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی مملکت قائم ہوسکی کہ معاشرے میں انصاف اور اخلاقیات کو فروغ حاصل ہوتا، باہمی اتحاد و یگانگت قائم رہتی اور ترقّی و استحکام سے خوش حالی آتی۔ 

ہاں، یہ ضرور ہوا کہ قیامِ پاکستان سے مسلم ملّت کے اس حصّے کو، جو پاکستان میں آباد ہے، بھارت میں آباد مسلم ملّت کے مقابلے میں خوش حالی اور ترقّی کے زیادہ مواقع میسر آئے، اُن کا معیارِ زندگی بلند ہوا۔ لیکن بھارت سے تا حال یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ گوکہ بحالتِ مجبوری، بادلِ ناخواستہ اُس نے پاکستان کا قیام قبول تو کرلیا، لیکن اس کا وجود آج بھی اس کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزِ اوّل ہی سے وہ پاک دھرتی کے خلاف سازشوں میں جُتا ہے۔ تمام اخلاقی اور بین الاقوامی اصولوں کو نظر انداز کر کے کشمیر پرقابض ہونا، پاکستان کے خلاف اس کا اوّلین اقدام تھا۔ 

پھر سیاسی ریشہ دوانیوں، بیرونی اثرات اور خاموش دراندازی کے ذریعے اس نے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کے جال میں گرفتار کر کے معاشی طور پربھی کھوکھلا کرنے کی کوشش کی۔ عالم یہ ہے کہ آج بھی ہر بد امنی ، کسی بھی غیر مُلکی سازش کے پیچھے اصل ہاتھ بھارت ہی کا ہوتا ہے۔ یہی نہیں، بھارت نے ہمارے دانش وَروں میں بھی روزِ اوّل ہی سے ایک ایسے طبقے کی سرپرستی کی، جو بڑی مصلحت، چالاکی اور خُوب صُورتی سے عوام کے ذہنوں میں اپنی مذہبی، تہذیبی، فکری، معاشرتی روایات اور اقدار سے متعلق مسلسل شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔

ہمارے مُسلّمات کو متنازع بنا کر ہمیں، ہماری مذہبی اور اخلاقی اقدار سے دُور کرنے کے ساتھ تاریخی حقائق جھٹلانے اور ہمیں ہمارے اکابر اور قائدین سے بدظن کرنے میں بھی پیش پیش ہے۔ اس ضمن میں ہمیں قائد اعظم کے فرمودات اور تعلیمات کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ یوں تو نظریۂ پاکستان کو سمجھنے اوراس پر عمل پیرا ہونےکے لیے قائدِ اعظم کی پوری زندگی کی جدّوجہد ہمارے سامنے ہے۔ لیکن اُن کے یہ خیالات بھی اُن کے مقاصدِ زندگی سمجھنے میں بنیادی مآخذ کا کردار ادا کر سکتےہیں:

٭ ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اپنے ضابطۂ حیات، اپنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کر سکیں۔ ہمارا مذہب، ہمارا کلچر اور ہمارے اسلامی نظریات ہی وہ محرکات ہیں، جو ہمیں خود مختاری حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھاتے ہیں۔‘‘

٭ ’’آل انڈیا مسلم لیگ کا مطالبہ ہے کہ ہندوستان کے اُن علاقوں میں ،جہاں مسلمان تعداد کے لحاظ سے اکثریت میں ہیں ،ایسی مملکت قائم کی جائے، جہاں مسلمان اسلامی شریعت کے تحت حکومت کر سکیں۔‘‘

٭’’ہمارے لیے بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی قوم کو منظّم کریں اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب ہم طاقت وَر ہوں اور اپنی قوم کی مدد کریں۔ نہ صرف استقلال و آزادی کے لیے بلکہ اس کو برقرار رکھنے کے لیے اور اسلامی تصوّرات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے۔‘‘

٭’’پاکستان کا مقصد صرف آزادی و خود مختاری ہی نہیں، ایک اسلامی نظریہ ہے، جو ایک بیش قیمت عطیے کی حیثیت میں ہم تک پہنچا ہے۔‘‘

نوٹ:(مذکورہ بالا تمام خیالات ، قائد اعظم کی تقاریر و بیانات کے مستند ترین مجموعے ’’Speeches and writings of Mr. Muhammad Ali Jinnah. ‘‘ مرتّب: جمیل الدّین احمد، جلدِ اوّل، لاہور، 1960ء، سے ماخوذہیں)۔