• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں یومِ آزادی کا جشن ہر شہری نے اپنے اپنے انداز میں منایا ، عام لوگوں نے بچوں کو جھنڈے ، جھنڈیاں دے کر خوش کیا ،سیر گاہوں کی سیر کروائی جب کہ بچوں نے بھی اپنے چہروں کو قومی پرچم کے سبز ہلالی رنگ سے مزین کیا ، بڑوں نے یہ سوچتے ہوئے یومِ آزادی منایا کہ ان کی گزربسر کس طرح ہوگی، معاشی مشکلات کیسے ختم ہوں گی ، ایسا کیا کاروبار کیا جائے کہ کم از کم یوٹیلیٹی بلز ہی آسانی سے ادا ہوسکیں ؟البتہ پی ٹی آئی کے کار کنوں کا جوش و خروش دیدنی تھا، جنہوں نے اپنی قیادت کے کہنے پر یومِ آزادی کا جشن جلسوں میں شرکت کرکے بھر پور انداز میں منایا۔

ا مریکی سفیر ڈونلڈبلوم نے یومِ آزادی پاکستان پر پاکستانیوں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئےکراچی میں قائد اعظم محمد علی جناحؒؒ کے مزار پر حاضری دی اور آزادی کے 75سال مکمل ہونے پر بانیٔ پاکستان کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔امریکی قونصلیٹ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعلامیے کے مطابق، سفیر ڈونلڈبلوم نے مزار قائد پر پھول چڑھائے اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے مزار پر بھی حاضری دی۔انہوں نے میوزیم کا دورہ کرتے ہوئے بانی پاکستان کی زندگی سے وابستہ شاہکار فن پاروں کا معائنہ کیا۔امریکی سفیرنے مہمانوں کی کتاب پر تاثرات درج کرتے ہوئے لکھا،” مزارِ قائد کا دورہ اور بانیٔ پاکستان محمد علی جناحؒ کے عظیم ورثے کویاد کرتے ہوئے خراجِ عقیدت پیش کرنا باعث ِفخر ہے۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے ملک کے علاوہ پڑوسی ممالک میں امن سمیت پاکستان میں مذہبی رواداری، معاشی و معاشرتی استحکام کا تصور پیش کیا۔امریکہ بانیٔ پاکستان کے فروغ میں شراکت دار رہا ہے، ہم امریکی عوام کی جانب سے پاکستان کو آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں‘‘۔

وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرکے اپنے دکھڑے بھی بیان کئے، مخالفین کے لَتے بھی لئے اور کچھ ذکرِ خیر پاکستان کے حوالے سے بھی کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ انتشار اور نفرت کے بیچ بوئے جا رہے ہیں، قوم کو تقسیم در تقسیم اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ پچھلی حکومت کے پیدا کردہ معاشی بحران نے اس صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے، آج مالی بحران گویاہماری قومی شناخت بن گیا ہے۔

ہمیں ان سے یہ سوال ضرور کرنا چاہئے کہ حضور آپ اور آپ کی اتحادی جماعت پی پی پی تو اس ملک پر نصف صدی سے حکمران چلی آرہی ہے، قائد کے پاکستان کو آپ نے مل کر کون سی ترقی دی؟ فوج جو اس ملک کی قیام پاکستان سے بلا شرکت غیرے محافظ چلی آرہی ہے ،جس کے جوان مسلسل اس قوم کیلئے اپنے لہو کے نذرانے پیش کررہے ہیں کبھی پاک بھارت جنگوں اور کبھی معرکۂ کارگل ، کبھی ضربِ عضب اور کبھی سوا ت و شمالی وزیرستان میں، تو کیا اس لیے کہ ’قوم ‘ کی خدمت اور حکمرانی کا تاج ہمیشہ باپ کے بعد بیٹے اور بیٹی نے ہی سر پر سجایا ہے اور سجانا ہے ؟ آخر کیوں؟ اس پر ظلم یہ کہ وزیر اعظم کے بھائی اور بھتیجی اور ان کے شوہر نامدار ،پارٹی کے نامور رہنماؤں نے ہمیشہ ہی اس ادارے کے سربراہ کو ہدفِ تنقید بنایا ہے ۔ آج کس منہ سے اس ادارے کی حرمت کے محافظ ہونے کا کھو کھلا کردار ادا کیا جارہا ہے؟ مقامِ شکر ہے کہ بدعنوانی کے الزامات ایک طرف، شہباز شریف نے کبھی پاک فوج پر کوئی رکیک حملہ بھی نہیں کیا لیکن بڑےبھائی کو احترام میں کبھی منع بھی نہیں کیا ۔وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ہم ان بحرانوں سے کیوں دوچار ہوئے، جن میں معاشی بحران نمایاں ترین ہے۔

معاشی بحران کے خاتمے کے لئے جنرل باجوہ نے تو امریکہ سےبھی رابطہ کرکے آئی ایم ایف سے قرضے کے معاملے پر کردار ادا کرنے کو کہا اور سعودی عرب کی قیادت سے بھی بات کی ۔قوم کی خاطر انہوں نے یہ خدمت بھی انجام دی اور اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا ۔ ہمارے اداروں کی حالت 75سال بعد بھی یہ ہے کہ ناگہانی آفات کے موقع پر فوج کے جوان ہی مدد کے لئے آتے ہیں اور لوگوں کی جان و مال کوبچاتے ہیں دریاؤں کے پشتے مضبوط بناتے ہیں اور تباہ کاریوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ سول جمہوری حکومتوں نے تو اداروں کو اس قابل بھی نہیں بنایا کہ وہ مشکل حالات میں عوام کی ڈھال بن سکیں ۔پھر شکوہ کیا کرنا ، قوم کو جناب کیا دکھڑے سناتے ہیں ،مخالفین کوبے نقط سناکرکسے خوش کر رہے ہیں؟ سراب سے نکلیں اورمخالفین کو غدار، ملک دشمن کہنا چھوڑیں، اپنے دامن کو اور بند قباکو دیکھیں، آگے بڑھیں صرف اور صرف اداروں کی مضبوطی اور عوام کی بلا امتیاز خدمت اور خوشحالی کوحرزِ جاں بنائیں ، روشن سیاسی مستقبل آپ کا منتظر ہے۔

تازہ ترین