• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈنمارک سے خبر آئی ہے کہ ڈنمارک کے ہی ایک سپوت ڈاکٹر Lanay wester gard نے اپنے ساتھی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر آئن اسٹائن کی تھیوری CONDENSATION کی مدد سے سورج کی روشنی کی رفتار کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ڈاکٹر لینی (LANAY) نے اپنی اس تھیوری کا نام بھارتی سائنس دان شنیدر ناتھ بوس اور آئن اسٹائن کے نام پر رکھا ہے۔ ان دونوں سائنس دانوں نے اپنے مطالعے کی بنیاد پر کہا تھا کہ سورج کی روشنی کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے اور یہ بات طے ہے کہ ابھی دنیا میں روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار کسی چیز کی نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے ایک خاص پروسس کے ذریعے روشنی کی رفتار 71 کلو میٹر فی گھنٹہ کر دی ہے۔ (یہ پروسس ابھی عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آئے گا، اس کیلئے ایک علیحدہ کالم درکار ہے)۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ انسانی جسم کے سب سے اونچے اور اوپر والے حصے میں موجود ایک چھوٹا سا دماغ کیسی کیسی چیزوں کو اپنے بس میں کر لیتا ہے اور اس سے کیا کیا استفادہ کرتا ہے۔ یہی دماغ کبھی چاند اور مریخ پر پہنچنے کی بات کرتا ہے تو کبھی ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعہ ساری دنیا کی خبر لے لیتا ہے۔ کبھی اپنے مقام پر بیٹھے بٹھائے لاکھوں میل دور اپنے دشمن پر وار کر دیتا ہے۔ یہ دماغ ہی کا کمال ہے کہ کل تک جو سفر مہینوں میں طے ہوتے تھے، وہ آج گھنٹوں اور منٹوں میں طے ہو رہے ہیں۔ یہ سائنس ہی کا کمال ہے کہ سورج جو کہ ایک سیارہ ہے اور سائنسی نظریہ کے مطابق ہزاروں سیاروں میں سے ایک سیارہ ہے۔ ان دنوں نئی کھوج اور ریسرچ کی بدولت سورج اور دوسرے سیاروں کے متعلق نئی نئی باتیں اور معلومات سامنے آ رہی ہیں جیسا کہ ثابت ہو چکا ہے کہ کچھ سیارے ایسے بھی ہیں جن کی روشنی کو سطح زمین تک پہنچنے میں کئی ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ایک خیال لگ بھگ تین سو برس سے انسان کے ذہن پر مسلط ہے کہ مادہ اور توانائی دو الگ الگ چیزیں ہیں، البتہ ان دو اشیا کے درمیان ایک رشتہ یا تعلق ضرور ہے۔ آج کے ایٹمی دور میں سائنس نے اس خیال کو ایک دم بدل دیا ہے اور یہ ماننے پر مجبور کر دیا ہے کہ مادہ و توانائی ایک ہی شے کے دو مختلف روپ ہیں۔ آج کل یہ خیال بھی خام ثابت ہو گیا ہے کہ مادہ صرف قدرت ہی کی دین ہے۔ آج مادہ کو ریڈیائی اشعاع (ریڈیشن) سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ آئن اسٹائن نے نظریہ اضافیت دے کر ہر ایک کو حیرت کدہ میں گم کر دیا ہے کہ کائنات میں ہر شے اضافی ہے یعنی آپ کسی شے کو دیکھ کر یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ آپ جو کچھ دیکھ یا سمجھ رہے ہیں وہی درست یا حرف آخر ہے۔ وہ شے اس سے مختلف بھی ہو سکتی ہے جو کچھ آپ کو نظر آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس پرانی تھیوریوں اور فارمولوں کی جگہ نئی اور ٹھوس حقیقتوں کو جگہ دیتی آئی ہے اور دیتی رہے گی اور لطف کی بات یہ ہے کہ سائنس سب کچھ منطق اور ناپ تول سے دیتی ہے جبکہ لوگ آج دنیا، مذہب، خدا اور انسانی زندگی کے بارے میں ہر بات کو ماننے کیلئے تیار یا رضامند نہیں ہیں جو کہ مذہبی رہنما یا کتابیں انہیں بتاتی ہیں۔ اب سوچنے کا ڈھنگ زیادہ تر اس بات پر منحصر ہے کہ انسان کیا دیکھ سکتا ہے، کیا محسوس کر سکتا ہے اور کیا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اس رویہ کو سائنس ہی نے جنم دیا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ انسان کا دنیا کو ایک خاص نظر سے دیکھنا۔ نئے دور کے سائنس دانوں، مفکروں اور دانشوروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ علم کو انسان کے مفاد کیلئے استعمال کرنا چاہئے اور انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ اچھا ہونا چاہئے، اس لئے نہیں کہ خدا یا مذہب نے ایسا کہا ہے بلکہ اس لئے کہ دونوں انسان ہیں۔ سائنس کی ایک اہمیت اور بھی ہے اس اہمیت کا دارومدار اس پر ہے کہ سائنس کس حد تک ایک عام آدمی کی عقل اور سوجھ بوجھ کے دریچے کھولتی ہے یا نئے رشتے قائم کرنے میں کہاں تک معاون بنتی ہے۔ ان نئے نئے پیدا کئے گئے رشتوں سے ایک نئی قوت کا احساس ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ سائنس کا مقصد ہماری سوجھ بوجھ اور علم میں اضافہ کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک نئی قوت کا احساس بھی ہوتا ہے کہ جو جذبہ انسان کو بھرپور عمل کیلئے تیار کرتا ہے وہ سائنس ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے جو لوگ زندگی میں عملی زندگی پر زور دیتے ہیں وہ صحیح معنوں میں ’’سائنس دان‘‘ کہے جا سکتے ہیں۔ سائنس ہماری مالی، اقتصادی اور سماجی ترقی میں بڑا ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ ویسے بھی کتنے موضوعات ایسے ہیں جو دراصل ہماری روزمرہ زندگی کے موضوعات ہیں۔ ایسی زندگی جس میں ہم روزانہ نشوونما پاتے ہیں، زندہ رہتے ہیں، سانس لیتے ہیں، ایسے موضوعات ہماری زندگی سے الگ تصور نہیں کئے جا سکتے۔ چنانچہ ہمارے اردگرد جس زاویئے، جس ڈھنگ سے سائنس کا عمل یا اس کا رشتہ ہماری سماجی یا گھریلو زندگی سے جڑتا ہے، اس کا علم ہمارے لئے ازحد ضروری ہے۔ میرے حساب سے سائنسی معلومات پڑھے لکھے لوگوں کیلئے اتنی ہی ضروری ہے جتنی ان کیلئے زندگی کی دوسری باتوں کا علم۔پرانے زمانے میں سائنسی عمل کو شخصی ملکیت سمجھا جاتا تھا، آج کل اس کے معنی خاصے بدل چکے ہیں۔ آج ہر سائنسی ریسرچ، سائنسی عمل اور ہر سائنسی معلومات بنی نوح کا حق بن چکی ہے۔ سائنس صرف سائنس ہوتی ہے۔ اسلامی سائنس دان یا اسلامی ڈاکٹر یا اسلامی انجینئر نامی کوئی شے نہیں ہوتی۔ آج ہر مذہب میں ایسے پیروکار موجود ہیں جو سختی سے سائنسی قواعد و قوانین پر عمل پیرا ہونے کو مذہب کی بقا کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ آج کی سائنس کسی ایک حکومت یا کسی ایک ادارے کی جاگیر نہیں رہی، یہ تو علم کا بہتا دریا ہے جو چاہے دو گھونٹ بھر لے۔ اس میں عیسائی، مسلم، ہندو، سکھ، بدھ مت، یہودی کا کوئی بھید بھائو نہیں۔ اس بہتے دریا سے علم اور عقل رکھنے والا انسان اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔ ہر آدمی جو عمل کو زندگی کا حصہ اور اصول بنانے کا قائل ہو وہ اپنی سوجھ بوجھ اور کھوج سے علم کے ایسے چشمے تلاش کر سکتا ہے جو اس کے شوق کی پیاس بجھا سکیں۔یہ سائنس ہی کا کمال ہے کہ امریکہ کے وائٹ ہائوس میں بیٹھا ایک شخص پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
ہم نے چٹان کاٹ کے پانی بھی پی لیا
وہ اپنے سوکھے ہونٹ دکھانے میں رہ گئے
تازہ ترین