• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں اس وقت self sustainingشہروں کا تصور فروغ پا رہا ہے ۔ ایک ایسا شہر ، جس کی تمام ضروریات اس کے اندر ہی سے پوری کی جا سکیں۔ایسا ہی ایک شہر سعودی عرب میں تخلیق کرنے کا منصوبہ ہے ۔ انسانو ں کو تو چھوڑئیے ،جو لوگ جانورپالتے ہیں وہ ان کی خوراک کے بارے میں انتہائی فکر مند ہوتے ہیں ۔ حساب لگایا جاتا ہے کہ ایک جانور کتنی خوراک کھا جائے گا ۔ بلیوں جیسے جو جانور انڈے، گوشت اور دودھ نہیں دیتے ، وہ جلد ہی پالنے والے پر ایک بہت بڑا بوجھ بن جاتے ہیں آپ نے ایک بلی پالی ،چھ ماہ بعد وہ چا ر ہو چکی ہوں گے اور سال بعد 12۔ انسان عاجز آجاتا اور انہیں ویرانے میں چھوڑ آتا ہے ۔ ایسے لوگ بھی موجود ہیں ، جو سینکڑوں آوارہ بلیاں پال رہے ہیں ۔ قرآن میں درج ایک آیت سنائی دیتی ہے’’ اور زمین پہ کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو ۔ ‘‘

اگر آپ غور کریں تو یہ زمین بھی ایک بہت بڑا شہر ہے ۔ ایک self sustainingشہر ۔ مٹی سے لے کر پانی تک ، ہر شے اس میں ایک حساب سے تخلیق کی گئی ہے ۔ یہ مٹی اپنے اندر اتنے پودوں کو جڑیں گاڑنے کی اجازت دیتی ہے ، جو تمام جانداروں کیلئے آکسیجن اور خوراک پیدا کرنے کیلئے کافی ہو۔ پودوں کو زمین میں گاڑنے کیلئے کتنی مٹی کی ضرورت ہو گی، یہ حساب کا سوال تھا ، جو صرف بہت بڑے سپر کمپیوٹرز ہی حل کر سکتے تھے ۔ یہ حساب لگایا خدا نے ، جو علیم و خبیر ہے ۔

پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون

کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟

یہ مٹی پانی کو ایک خاص گہرائی سے نیچے نہیں اترنے دیتی ۔ زمین کے نیچے درجہ ء حرارت بے حد زیادہ ہوتاہے ، جو اس پانی کو بھسم کر سکتاہے لیکن ہر شے کے درمیان پردے تخلیق کر دئیے گئے ہیں۔ نہ تو یہ پانی زیادہ نیچے اتر سکتا ہے ۔ نہ ہی بادلوں سے اوپر فرار ہو سکتاہے ۔ کبھی کبھی انسان اس وقت کے بارے میں سوچتا ہے‘ خدا جب یہ دنیا تخلیق کر رہا تھا۔ ایک نیلگوں سیارے اورہر قسم کی مخلوقات پیدا کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ ان میں سے ایک مخلوق پر شریعت اترنا تھی۔ مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے کئی چیزوں کا بندوبست لازم تھا۔یہ بندوبست تھا؛ خوراک کا اور آکسیجن سمیت ان چیزوں کا‘ جن کی ان مخلوقات کو اپنی زندگی کے دوران ضرورت پڑنا تھی۔ اب آپ بتائیں کہ ایک سیارے پر اتنی آکسیجن کی مقدارکا اندازہ کیسے لگایا گیا؟جواب:علم کی بنیاد پر۔خدا علیم و خبیر ہے۔مکمل صحیح اندازہ حساب کتاب کی مدد سے ہی لگایا جاتا ہے ۔

خشکی اور پانی کے جانداروں کو آکسیجن جسم میں لے جانے کے لئےالگ الگ اعضا کی ضرورت تھی یہ پھیپھڑے اور گلپھڑے کس نے تخلیق کئے ؟

اس سے بھی ذرا پیچھے جائیں۔کششِ ثقل کتنی رکھی جائے کہ ہائیڈروجن اکھٹی کر کے سورج تخلیق ہو سکے۔ یہ کششِ ثقل اتنی ہونی چاہئے کہ سیارے سورج کے مدار سے فرار نہ ہو سکیں۔سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں اور کوئی کسی سے ٹکراتا نہیں ۔ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی اپنے محور کے گرد گردش کہ حرارت مساوی رہے ۔ مائع پانی بہتا اور پودے اگتے رہیں ۔گندم اور چاول سمیت پودوں کے ذائقے ایسے ہیں ، جو مخلوقات کو خوش کرتے ہیں۔ دوسری طرف انسان جب اپنے فائدےکیلئےمنصوبے بناتا ہے تو وہ کوئلہ، تیل اور گیس جلا کر زمین کا درجہ حرارت ہی بڑھا دیتا ہے۔ گلیشیر پگھلنے لگتے ہیں ۔ پانی بلند ہو جاتا ہے ۔ آخر کار عالمی برادری سر جوڑ کر بیٹھتی اور فاسل فیولز کا استعمال ختم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے ۔

پلانکٹن اور الجی سمیت پانی کی فوڈ چین مختلف ہے اور خشکی کی مختلف۔ اس فوڈ چین کے ذریعے مخلوقات کو پودے کھانا تھے‘ ایک دوسرے کا شکار کرنا تھا‘ لیکن اس طرح کہ یہ سسٹم چلتا رہے اور extinctionسے مخلوقات بچی رہیں۔مخلوقات کا الگ الگ میٹابولزم ریٹ بنایا گیا۔ انسانی بچہ سال بھر میں قدم اٹھانا سیکھتا ہے۔ بلی اور بکری اتنے عرصے میں خود ماں بن جاتی ہے۔ یہ الگ الگ میٹابولزم ریٹ کیا بے حساب ہی بن گیا ؟

زمین کی اپنے محور کے گرد ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کی رفتا رسے حرکت‘ زمین پہ پودوں اور آکسیجن کی مقدار‘ مٹی کی مقدار‘ زمین کا سورج سے فاصلہ‘ چاند کا زمین سے فاصلہ اور زمین پہ پانی کی حرکت سمیت زندگی پہ اس کے مفید اثرات۔ یہ سب جس خدا نے تخلیق کیا، اس کے بارے میں ہم اپنے بچوں کو یہ کہتے ہیں کہ سوچے سمجھے بغیر اس پہ ایمان لائو۔وجہ ؟ ہماری اپنی کم علمی کی وجہ سے پیدا ہونے والا خوف۔ یہ خوف کہ شاید خدا سائنس نہیں جانتا‘۔ جس خدا نے آسمان‘ ستارے اور سیارے تخلیق کئے‘ وہ جب مخلوق سے کلام کرتاہے تو وہ اپنے پسندیدہ بندوں کے بارے میں کہتا ہے: جو کھڑے‘ بیٹھے اور پہلو کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں۔۔۔‘‘(آلِ عمران: 191)۔ ''بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں اور لوگوں کے فائدے کیلئے کشتی کے پانی پر تیرنے میں‘ اور جو اللہ نے آسمان سے پانی برسا کر مردہ زمین کو زندہ کر دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہوائوں کی گردش اور وہ بادل جو مسخر ہے زمین اور آسمان کے درمیان‘ان سب میں نشانیاں ہیں‘ عقل والوں کے لئے(بقرۃ164:)

تازہ ترین