• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
8سال پہلے جیسا زلزلہ تربت اور آواران میں آیا ہے ایسا ہی زلزلہ کشمیر اور کے پی کے کچھ علاقوں میں آیا تھا۔ میں زلزلے سے4دن بعد واپس پاکستان آئی تھی۔ پہلے ڈرتے ڈرتے اپنے گھر گئی اور جب جگہ جگہ سے سیمنٹ اترا ہوا دیکھا، باقی خیریت تو خدا کاشکر ادا کیا۔ اگلے روز ہی میں این آر ایس پی کی گاڑی میں باغ،راولا کوٹ اور مظفر آباد گئی۔ میں نے پہلے بھی کئی بار باغ اور راولاکوٹ کادورہ کیاتھا مگر اس دفعہ توسوائے مٹی اور اینٹوں کے ڈھیر کے مجھے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ لوگ تنبوؤں میں بیٹھے آگ سلگا رہے تھے۔14فٹ اونچے چڑھ کے مسجد بنتی نظر آئی ۔ وہاں این آر ایس پی کی طرف سے چیک تقسیم کئے۔ ایک تنبو میں بنک کام کررہا تھا۔ چشمہ کہیں اور تھا ،اب کہیں اور نکل آیا تھا۔ یہی حال راولاکوٹ اور مظفر آباد کاتھا۔ہمارے ٹھہرانے کاجس بلڈنگ میں بستر زمین پر بچھا کر اہتمام کیاگیا تھا، اس کی دیوار کھلی کھڑی تھی۔اللہ کانام لے کر رات گزاری اور صبح ٹوٹی سڑکوں پر چلتے ہوئے پہلے تو پریذیڈنٹ اور پرائم منسٹر ہاوس دیکھا یہ بلڈنگیں بھی ڈھے چکی تھیں۔ یہاں بھی ٹینٹ لگے ہوئے تھے۔ اب بھی باغ اور راولا کوٹ میں اپنی مدد آپ کے تحت بلڈنگیں، اسکول اور ہیلتھ یونٹ بنائے جارہے تھے۔ ابھی تک ایسا ہی منظر نامہ ہے۔ البتہ مظفر آباد میں چونکہ کیوبا، ترکی، ایمیرٹس اور بین الاقوامی اداروں نے بہت مدد کی تھی۔ اس لئے سول سکریٹریٹ اور لڑکیوں کی یونیورسٹی ترکی کی حکومت نے خود اپنی نگرانی میں بنوائی۔ مانسہرہ وہ شہر نہیں رہا اور نہ بالا کوٹ اس طرح کا ہے۔ ابھی تک آلودگی اور بربادی کی نشانیاں موجود ہیں۔
اب اپنی جان پر کھیل کر تربت پہنچی، اپنے دفتر گئی اور وہاں سے فور وہیلرز گاڑی میں اجڑے ہوئے بادام کے درخت دیکھے ۔جگہ جگہ پنجگور میں مٹی کے ڈھیر پہ بیٹھے ہوئے اداس نظروں سے تکتے، بزرگ دیکھے کہ فوجی جوانوں نے انہیں کھانے کی اشیاء فراہم کر دی تھیں مگر پکائیں کیسے۔ کوئی کونہ نہیں تھا جہاں پردے دار عورتیں بیٹھ سکیں۔ تنبو کے اندر بہت گرمی تھی۔ باہر سورج کاٹنے کو آتا تھا ۔ چاروں طرف اونٹ اور دیگر جانور تھے۔
آواران میں تو اور بری حالت تھی،دوسری دفعہ کے زلزلے نے تو ہلا کر رکھ دیا تھا چاروں جانب مٹی کے ڈھیر،خصوصی عارضی بیت الخلا تعمیر کر رہے تھے۔ مشکے میں تو یہ عالم تھا کہ سارے بزرگ مل کر 20لڑکیوں کی اجتماعی قبر بنا رہے تھے۔ ننگے سر اور ننگے پیر، بچے بچیاں مٹی سے کھیل رہے تھے۔ پانی کی باقاعدہ اور گھروں کی تعمیر کی منصوبہ بندی میں مقامی انتظامیہ مصروف تھی۔ بچیوں اور عورتوں کے مٹی سے اٹے بال دیکھ کر، تقسیم کے وقت کے سارے منظر یاد آ گئے۔ مظفر آباد اور راولا کوٹ بھی یاد آ گیا۔ میں ایک دفعہ زلزلے کے چھ ماہ بعد چین گئی تھی۔ انہوں نے سارا شہر چھ ماہ میں دوبارہ مکمل کر لیا تھا۔ یہی حال میں نے1943میں تاشقند میں دیکھا تھا، وہاں بھی زلزلے سے پورا شہر تباہ ہو گیا تھا۔ وہاں کی انتظامیہ نے نیا شہر بنانے کے بعد، سوختہ شہر کا ایک حصہ ، نئی نسل کو دکھانے کے لئے محفوظ کر لیا تھا۔ ہم اپنے 2005اور2013کے زلزلوں کی زندہ مثالیں سلامت رکھے ہوئے ہیں کہ آج بھی مہاجر کیمپوں کے علاوہ ابھی تک بہت سے شہری تنبوئوں میں زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں ،بہت سے ادارے وہاں کام کرنا چاہتے ہیں۔ سرکار اجازت نہیں دے رہی۔ سیکورٹی کا سبب ہے کہ کیا ہے۔ میں نے آواران سے واپس آ کر نظم لکھی وہ آپ کو سناتی ہوں۔
بلوچستان کے زلزلہ زدگان کی بپتا
اٹھو اماں
بچے بھوک سے چیخ رہے ہیں
پوچھو ان بچوں کا حال
جو مٹی میں پڑے ہیں
پانی مانگتے مانگتے
جن کے ہونٹ ادھوری بات بنے ہیں
اٹھو اماں
آج ہماری بستی کی دیوار نہ در ہے
نہ کوئی گھر ہے
نہ کوئی کھیت نہ چمن باقی
نہ کوئی بال نہ بچی باقی
نہ کوئی دیا نہ بتی باقی
نہ کوئی کھرپی، کنڈی باقی
اٹھو اماں!
لاشوں کے ڈھیروں سے اٹھو
اپنی گود کے پالوں کو دفنانے اٹھو
دھول اور مٹی سارا تربت کیسا لگتا ہے
اٹھو اماں
یہ تو بتائو
اللہ ہم کو پالنے والا
مارنے والا کیسے بنا ہے
کیسے اپنی مٹی کی دیواریں ٹوٹیں
کیسے میرا بابا زندہ لاش بنا ہے
اٹھو اماں!
میرے بجھتے ہونٹ،اٹکتی سانس کی
اس دہلیز پر ٹھہرو اور دیکھو تو
ساری دشمن دنیا
میرے ننگے بدن کو تصویروں میں ڈھال رہی ہے
تم شرمندہ مت ہو اماں
اٹھو اماں!
تازہ ترین