• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1992ءیا 1993ءکی بات ہے،جب چوہدری پرویز الٰہی غالباً وزیر بلدیات تھے۔ انہوں نے گجرات میں واقع ’’نت ہائوس‘‘ میں ایک عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا تھا۔ میرے دوست اور روزنامہ جنگ کے اس وقت ادبی ایڈیشن کے انچارج حسن رضوی مرحوم نے اس مشاعرے کا ڈول ڈالا تھا۔

 اس مشاعرے میں پاکستان کے تمام نامور شاعروں کے ساتھ ساتھ بھارت، ناروے، کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ سے بھی مشہور شعرائے کرام آئے تھے۔ خمار بارہ بنکوی کو پہلی اور آخری بار میں نے اسی مشاعرے میں سنا تھا۔ اس مشاعرے کے سامعین میں اس زمانے کے تقریباً تمام اہم سیاست دان شامل تھے۔

غوث علی شاہ، نور جہاں پانیزئی، غلام حیدر وائیں سے تو میری ملاقات بھی ہوئی تھی۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں اس مشاعرے کی مجلسِ استقبالیہ میں شامل تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین ہمارے میزبان تھے۔

 ان کی ’’روٹی شوٹی‘‘ تب بھی مشہور تھی۔ اس لئے چوہدری پرویز الٰہی کے اصرار پر لاہور میں موجود تمام شاعروں کو پہلے ظہور الٰہی روڈ پر واقع عالی شان اقامت گاہ لے جایا گیا۔

’’روٹی شوٹی‘‘ کھلائی گئی، بعد میں لگژری بسوں میں شعرائے کرام کو گجرات پہنچایا گیا جہاں ادب اور ادیب دوست ایس ایس پی اظہر حسن ندیم نے ان کا استقبال کیا۔ جب ایک بہت بڑے شاعر نے پولیس کی بھاری نفری مشاعرہ گاہ میں دیکھی تو بولے کہ یہ پولیس یہاں کیوں آئی ہے؟ اظہر حسن ندیم نےبرجستہ کہا: ’’ مجھے پتا ہے کہ آج آپ مشاعرہ لوٹنے آئے ہیں اس لئے ہم نے نفری احتیاطاً منگوالی ہے‘‘۔

 اس مشاعرے کے بعد چوہدری صاحب نے مشاعرے کرانا چھوڑ دیئے۔ شاید اسلئے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے اور اب وہ دوسری بار اس نشست پر متمکن ہوئے ہیں اور خوب ہوئے ہیں۔

شاید ایسے ہی کسی موقع کے لئے کہا گیا تھا: دیر آید درست آید۔ پی ٹی آئی کی حکومت اگر اقتدار میں آتے ہی پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیتی تو شاید پنجاب میں اس کی جڑیں بہت پہلے مضبوط ہو چکی ہوتیں۔

چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے پہلے دور کی طرح اس بار بھی آتے ہی عوامی فلاح کے کاموں پر دھیان دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ انہیں اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ اپنا ووٹر بھی عزیز ہے۔ اپنے پہلے دور میں انہوں نے 1122کی سروس کا آغاز کیا اور شہریوںکے دل جیت لئے۔ پرانی ٹریفک پولیس کو ختم کرکے وارڈن سسٹم متعارف کرایا اور ایک خوش گوار تاثر دیا۔

مختلف شہروں میں دل کےاسپتال قائم کئے اور بیماروں کی دعائیں لیں۔ سرکاری ملازمین کے لئے پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہائوسنگ فائونڈیشن بنائی۔ انکی وزارت اعلیٰ کے دور میں لاتعداد سرکاری ملازمین کو ریٹائر ہوتے ہی سات ، دس اور بیس مرلے کے مکان ملے۔ بعد میں شہباز شریف نے صوبائی اسمبلی سے ایک ترمیمی بل پاس کرا لیا اور سرکاری ملازمین کو مکانوں کے بجائےپلاٹ ملنے لگے۔

ایل ڈی اے ایونیو ون کی اسکیم بھی سرکاری ملازمین کے لئے تھی لیکن شہباز شریف کی حکومت میں اس اسکیم کے ساتھ سوتیلی اولاد کا سا سلوک کیا گیا۔

اب دوسری بار وزارت اعلیٰ کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہی چوہدری صاحب نے اسپتالوں میں مفت ادویات فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ طلبہ و طالبات کو ایک خاص درجے تک تعلیم، کتابیں اور یونیفارم مفت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

معذور سرکاری ملازمین کو ماہانہ دس ہزار روپے خصوصی الائونس دینے کا حکم دیاہے۔ چوہدری صاحب کو اس بات کا ادراک ہے کہ ان کے پاس وقت کم ہے شاید اسلئے وہ عوامی بھلائی کے کام تیزی سے کرتے چلے جا رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے آبائی ضلع گجرات کو ڈویژن بنانے کا فیصلہ بھی کیااور اعلان بھی کردیا ہے۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ پی ٹی آئی کے ایک نوجوان رہنماماضی میں کہتے رہے ہیں کہ وہ کبھی گجرات کو ڈویژن نہیں بننے دیں گے لیکن چوہدری صاحب نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا۔

ان دنوں جنوبی پنجاب بارش اورسیلاب کے عذاب کا شکار ہے۔ بے شمار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہزاروں جانور سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ لوگوں کے ہزاروں مکان گرگئے۔ سیلاب زدگان غذائی قلت کا شکار ہیں۔ حتیٰ کہ انہیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔

یہ وہ موقع ہے جب چوہدری صاحب سیلاب زدگان کے زخموں پر مرہم رکھ کر یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ2018ءمیں عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانا سب سے بڑی غلطی تھی۔

 جنوبی پنجاب کے عوام اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں انکی ہمیشہ بھرپور نمائندگی ہوتی ہے لیکن وہ اس لحاظ سے بدقسمت ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے کبھی اپنے ووٹروں کی آواز اسمبلی کے اندر نہیں اٹھاتے۔ شطرنج کی بساط بچھا کر نئی نئی چالیں چلتے ہیں۔

جنوبی پنجاب کے لوگ مشکل میں پڑتے ہیں تو ہمیشہ لاہور کی طرف دیکھتے ہیں۔ چوہدری صاحب چاہیں تو سیلاب زدگان کی امدادی تحریک میں اپنی کرشماتی اور درد مند شخصیت سے تیزی لا سکتے ہیں۔ کچھ لوگ انفرادی سطح پر اور کچھ ادارے اجتماعی سطح پر امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں لیکن حکومت کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔

چوہدری صاحب اگرایک بار پھر لوگوں کے دل جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے جوان ارادوں کو آتش شوق دکھائیں۔ ہمارے نوجوان سیلاب زدگان کیلئے سامان جمع کرسکتے ہیں اور ان تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔

تازہ ترین