معروف فرانسیسی اخبار نے ہندوستان کے معروف بلقیس بانو کیس کے مجرمان کی جلد رہائی کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا کہ ایسا لگتا ہے مسلمانوں کے خلاف کیے گئے جرائم، جرائم نہیں ہیں۔
یہ تبصرہ بیلجیئم کے فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والے ایک معروف اخبار 'La Libre' نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار اور ان کے خلاف جرم کرنے والوں کی سزا میں تخفیف پر شائع کردہ اپنی رپورٹ میں کیا۔
’ہندوستان میں مسلم مخالف پروگرام جاری ہے‘ کے عنوان سے شائع کردہ اپنی اس رپورٹ میں اخبار نے لکھا کہ ایک مسلم خاندان کی عصمت دری اور قتل کے 11 مجرمان کی رہائی اس مذہبی اقلیت پر ظلم کرنے والوں کے خلاف استثنیٰ کے ماحول کی گواہی دیتی ہے۔
بعد ازاں تبصرہ نگار ایمانوئل ڈیرویل نے اس واقعے کا پورا پس منظر بتایا۔
انہوں نے اپنی تحریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ وہ معاملہ ہے جسے ہندوستان بھول گیا تھا۔
ایک ایسا جرم جو 15 اگست 2022ء کو دوبارہ سامنے آیا جب ریاست گجرات کے حکام نے گینگ ریپ اور 3 سال کی کمسن لڑکی سمیت 14 افراد کے قتل عام کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 افراد کو رہا کیا۔
صرف ایک خاتون 21 سالہ بلقیس بانو جو اس وقت حاملہ تھی وہ زندہ بچ گئی تھیں جس کے ساتھ اس موقع پر زیادتی کی گئی اور اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔
اخبار نے 28 فروری 2002 کے اس واقعے کو پوری تفصیل سے بیان کرنے کے بعد پولیس اور ریاستی اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ ہندو بنیاد پرست جماعتوں بے جے پی اور VHP کےکردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اخبار نے ان مجرموں کی رہائی کیلئے بنائے گئے کمیشن کے ایک رکن نے ان کی جلد رہائی سے اتفاق اور مجرموں میں سے ایک کی جانب سے ادا کیے گئے اس فقرے کو کہ 'مجرم کیونکہ اعلیٰ ذات کے ہندو ہیں، اس لیے وہ آزاد ہونے کے مستحق ہیں، خاص طور پر نوٹ کیا'۔
اخبار نے آگے چل کر تحریر کیا کہ بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے والوں کی رہائی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مسلم مخالف جرائم کو معاف کرنے کے علاوہ حکام کی ملی بھگت سے ہندو بنیاد پرستوں کو اس کا بدلہ بھی دیا جاسکتا ہے۔
بلقیس بانو کے معاملے میں اہم موڑ مسلم مخالف نفرت کی تازہ ترین کڑی ہے جو نریندر مودی کے 2014ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے پیدا ہو رہی ہے۔
اخبار نے اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے والے انسانی حقوق کے 2 کارکنوں تیستا سیتلواڑ اور آر بی سری کمار کی گرفتاری کا بھی ذکر کیا۔
اخبار نے آخر میں تحریر کیا کہ 'خاص طور پر وزیر اعظم کو انصاف میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ان سے 2002ء کے گجرات قتل عام کو روکنے میں ناکامی کیلئے کبھی سوال ہی نہیں کیا گیا۔