• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دنیا کی تاریخ میں جن لوگوں نے کوئی نئی ایجاد کی، اس سے پہلے عام لوگوں کی نظر میں وہ پاگل قرار پائے ۔ دنیا میں جو عمل بار بار وقوع پذیر ہو رہا ہوتا ہے ،ذہن اس کا عادی ہو جاتا ہے ۔ اس پہ حیرت کا اظہار کرنے والا دیوانہ سمجھا جاتاہے ۔ شاخ سے زمین پہ گرنے والے سیب پر غور و فکر کر نے والوں کا نجانے کتنا مضحکہ اڑا ہوگا کہ بھائی سیب نیچے نہ آئے تو کیا اوپر اُڑ جائے؟

غور کرنے والے غور کرتے رہے ۔ کششِ ثقل سمجھ نہ آتی تو سورج ، چاند اورستاروں کی گردش سمجھ نہ آتی۔ اس کششِ ثقل کو اگرماپا نہ جاتا تو انسان خلا میں جاتا اور نہ چاند پہ اتر سکتا۔ جب آپ اس کششِ ثقل سے باہر نکل جاتے ہیں تو چیزیں بے وزن ہو کر خلا میں تیرنے لگتی ہیں۔ کششِ ثقل کرّہ ء ارض پہ زندگی کو گزارنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ کششِ ثقل نہ ہوتی تو کیتلی سے چائے کپ میں جاتی اور نہ ہی واٹر ٹینک سے پانی ٹونٹیوں تک اترتا۔ کششِ ثقل کی عدم موجودگی زندہ چیزوں پہ انتہائی برے اثرات مرتب کرتی ہے۔

زمین کی کششِ ثقل نے چاند کو اپنے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ سورج نے زمین سمیت تمام سیارے اپنے مدار میں باندھ رکھے ہیں۔ کوئی بھی اس سے فرار نہیں ہو سکتا۔ سورج بھی آزاد نہیں۔ وہ آٹھ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ زمین کئی قسم کی گردش کر رہی ہے ۔ اسے لٹو کی طرح اپنے محور کے گرد گھومنا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ اسے سورج کے گرد گھومنا ہے۔ سورج کے ساتھ ساتھ اسے کہکشاں کے مرکز کے گرد بھی گھومنا ہے۔ اس کے علاوہ کہکشاں بھی چوں کہ تیزی سے بھاگتی چلی جا رہی ہے لہٰذا اسے اس کے ساتھ بھی دوڑنا ہے ۔ اتنی قسم کی گردشوں کے باوجود ہم آرام سے زمین پر بیٹھ کر اپنے کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس گھومتی ہوئی دنیا میں اپنا سر گھومتا ہوا محسوس نہیں ہوتاحالاں کہ بلڈ پریشر یا شوگر ذرا سی اوپر ہوجائے تو سر گھومنے لگتا ہے۔

جس طرح سورج نے زمین کو پکڑ رکھا ہے ، اسی طرح کہکشاں کے مرکز نے سورج کو پکڑ رکھا ہے ۔ ایسا اگر نہ ہوتا تو سب اِدھر ُادھر ہو جاتے ۔ گاڑی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پہ آپ کو بہت تیز محسوس ہوتی ہے۔ دوسری طرف آپ سورج کے ساتھ ساتھ آٹھ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک حرکت کر رہے ہیں اور آپ کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔ پیالی سے چائے چھلکنے نہیں پاتی۔ آپ اگر دنیا کو کبھی غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تخلیق کرنے والا بہت زیادہ طاقتور ہے‘ جس کے پاس طاقت‘ وقت اور وسائل لامحدود تھے۔انسان کو اگر آزمانا ہی مقصود تھا تو ایک سورج اور ایک سیارہ کافی تھا۔ کھانے کے قابل ایک پودا اور ایک جانور کافی تھا ۔ دنیا کو دیکھتے ہوئے احساس ہوتاہے کہ کسی نے اپنی قوت (might)اور وسعت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس میں ایک اشارہ ہے۔ یہ دنیا ایک ٹریلر ہے‘ اگلی زندگی کا۔ جس دماغ پہ مہر لگ چکی ہو‘ اس کے لئے یہ سب اشارے بے معنی ہیں۔ وہ تو یہی کہے گا کہ بھلا جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو کیا ہمیں پھر زندہ کیا جائے گا؟ بھلا جس نے پہلا زندہ خلیہ پیدا کیا اور اسے سمندری حیات سے گزارتے ہوئے باہر خشکی پہ نکالا ، پھر اسے ریپٹائلز سے میملز اور پرائمیٹس سے گریٹ ایپس سے پھر انسان میں ڈھالا ،اس کے لئے موت کے بعد دوبارہ پیدا کرنا کیوں مشکل ہو گا۔ یہی قرآن میں لکھا ہے کہ تم ہڈیوں کے دوبارہ تخلیق ہونے پہ حیرت کا اظہار کر رہے ہو، ہم تو تمہاری انگلیوں کے نشان بھی دوبارہ بنائیں گے ۔

انسان جب اس دنیا کو نظر بھر کے دیکھتاہے تو اسے بے حد حیرت ہوتی ہے۔ ایک طرف آپ یہ دیکھیں کہ ایک ستارہ پھٹ کر فنا ہوتاہے اور اربوں ٹن سونا خلا میں بکھر جاتا ہے۔دوسری طرف اس زمین پہ لوگ سونے کی ایک انگوٹھی پہ لڑ پڑتے ہیں ۔ انسان کا جس نے امتحان لینا تھا، وہ سترہ کروڑ سال تک ڈائنو سار پالتا رہا۔ بلیو وہیل آج بھی زندہ ہے ، جو اس دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی جاندار مخلوق ہے ۔

زمین کی تمام مخلوقات کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اس کی اندرونی سخت تہوں کے اوپر نرم مٹی کی تہہ چڑھائی گئی ۔ اس مٹی کو اس قابل بنایا گیا کہ اس میں بیج پھوٹ سکتا اور ننھا سا پودا زمین کو پھاڑ کر باہر نکل آتا۔ اس مٹی کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا کہ اس کے اندر ایک خاص گہرائی میں پانی جمع ہوتا رہتاہے۔ سخت جان پودے ڈیزائن کئے گئے ہیں‘ جو ہر جگہ پھوٹ پڑتے ہیں۔

جیسے ہی ننھا سا پودا زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتاہے تو فوراً اسے سورج کی روشنی سے توانائی میسر آتی ہے۔ سورج کی روشنی اور پانی کو ملا کر پودا فوٹو سینتھیسز کا عمل کرتا ہے۔ اس دوران پودا خود توانائی حاصل کرتا ہے جس سے آکسیجن پیدا ہوتی ہے اور اس پودے پر وہ غلہ پیدا ہوتا ہے‘ جسے جانور کھاتے ہیں۔ جانوروں میں سے جو گوشت خور ہیں‘ وہ ایک دوسرے کو کھاتے ہیں۔ ان سب اسپیشیز کو زندہ رکھنے کے لئے مختلف مخلوقات میں بچوں کی پیدائش اور ان کا میٹابولزم مختلف رکھا گیا ہے۔ ریپٹائلز ایک ساتھ بہت سے انڈے دیتے ہیں۔ یہ انڈے کئی جانوروں کو پروٹین مہیا کرتے ہیں‘ جب کہ دو تین بچّے ہی زندہ رہنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ سبزی خور جانور تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ یہ ہزاروں کے گروہ میں زندگی گزارتے ہیں۔ گوشت خور تعداد میں بہت کم ہیں۔

یہ دنیا ایک عجائب گھر ہے۔اگر دیدۂ بینا آدمی کو عطا ہو ورنہ تو سیب گرنے پہ حیرت ظاہر کرنے والا پاگل ہی لگتا ہے۔

تازہ ترین