• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجٹ میں بڑے اور بنیادی مسائل پر کوئی بات نہیں کی گئی ، اسد عمر

 کراچی (ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کوشش کی ہے کہ جتنا بہتر بجٹ پیش کرسکتے ہیں پیش کریں، معاشی استحکام کیلئے معیشت کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا، تمام سیاسی جماعتوں اور قوم کو معاشی روڈ میپ کا محافظ ہونا چاہئے، پاناما لیکس یا کرپشن کی انکوائری پر کوئی استثنیٰ نہیں مانگ رہے ہیں، پاناما لیکس کا اثر پاکستان کی معیشت پر نہیں پڑنا چاہئے، افواج پاکستان دہشتگردی کے خلاف کامیاب جنگ پر مبارکباد کی مستحق ہیں۔ وہ جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو ہارون اختر،پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر اور تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر سے بھی گفتگو کی گئی۔اسد عمر نے کہا کہ بجٹ میں بڑے اور بنیادی مسائل پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے، حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر انتہائی زیادہ ٹیکس لگا کر بجٹ خسارہ پورا کرنے کی کوشش کی ہے، ٹیکس کا سارا بوجھ متوسط اور غریب طبقہ پر ڈالا جارہا ہے۔ہارون اختر نے کہا کہ بجٹ میں حکومتی ویژن حقیقت میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے، روزگار بڑھانے کیلئے ہر شعبہ میں سازگار ماحول دے رہے ہیں، موجودہ صورتحال میں منی بجٹ لانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔نوید قمر نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں پرانا فارمولا ہی اپنایا ہے، حکومت نے نئی فلاسفی ایجاد کی ہے کہ معاشی ترقی کے ہدف کا حصول اس لئے نہیں ہوپاتا کہ حکومت پہلے ہی بہت زیادہ ہدف مقرر کرتی ہے، حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں زرعی شعبہ ختم ہوچکا ہے، زرعی شعبہ کو جو مراعات آج دی گئیں وہ دو سال پہلے دی جانی چاہئے تھیں۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نےکہا کہ کوشش کی ہے کہ جتنا بہتر بجٹ پیش کرسکتے ہیں پیش کریں، 2014ء میں خراب ماحول کو بردباری سے ہینڈل کیا تھا، معاشی استحکام کیلئے معیشت کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا، تمام سیاسی جماعتوں اور قوم کو معاشی روڈ میپ کا محافظ ہونا چاہئے، اپوزیشن کو بار بار کہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس یا کرپشن کی انکوائری پر کوئی استثنیٰ نہیں مانگ رہے ہیں، پاناما لیکس کا اثر پاکستان کی معیشت پر نہیں پڑنا چاہئے، ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ جمہوری جماعتیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہیں، سب کو مل کر معاشی کامیابیوں کو آگے لے کر چلنا ہوگا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا کوئی چانس نہیں ہے، حکومت پاناما لیکس کی شفاف انکوائری پر اصولی اتفاق کرچکی ہے، اپوزیشن کے ساتھ مل کر ٹی او آرز پر اعتراضات دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پاناما لیکس کو معاشی عدم استحکام کا باعث نہیں بننا چاہئے، دونوں چیزوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے، پاکستان 2050ء میں دنیا کی اٹھارہویں بڑی معیشت بن سکتا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ایسا معاشی روڈ میپ بنانا چاہئے کہ 2035ء میں ہی اٹھارہویں بڑی معیشت بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان دہشتگردی کے خلاف کامیاب جنگ پر مبارکباد کی مستحق ہیں، آپریشن ضرب عضب کی بہت زیادہ قیمت دی لیکن کسی کے سامنے کشکول لے کر نہیں گئے، حکومت آپریشن ضرب عضب پر 250ارب روپے کے اخراجات پورے کرے گی، نائن الیون کے بعد سے پاکستانی معیشت کو 118ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، پاکستان میں سیکیورٹی ماحول روز بروز بہتر ہوتا جارہا ہے۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ بجٹ تقریر کے بعد میری ابھی تک وزیراعظم پاکستان سے بات نہیں ہوئی ہے، وزیراعظم نواز شریف اس وقت صرف فیملی ممبرز سے مل رہے ہیں، وزیراعظم سے دو تین دن میں ٹیلیفون پر رابطہ شروع ہوجائے گا۔ ہارون اختر نے کہا کہ بجٹ میں حکومتی ویژن حقیقت میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے، روزگار بڑھانے کیلئے ہر شعبہ میں سازگار ماحول دے رہے ہیں، اس وقت ملک میں مہنگائی اور مالی خسارہ تاریخ میں سب سے کم سطح پر ہے، ریونیو میں ساڑھے تیرہ فیصد اضافی شرح نمو آئی ہے، ٹیکس نیٹ میں دس لاکھ سے زیادہ افراد رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، سیلز ٹیکس دنیا بھر میں لگایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بہت زیادہ سرمایہ کاری ہونے کی وجہ سے انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی ریشو تھوڑا سا کم ہوا ہے، زرعی اجناس کی قیمتیں دنیا بھر میں کریش ہوئی ہے اس کا صرف پاکستان سے تعلق نہیں ہے، بجٹ میں زراعت اور انڈسٹری کو فائدے دیئے گئے ہیں، حکومتی اقد امات سے سرمایہ کاری کیلئے سازگار مہیا ہوگیا ہے۔ہارون اختر کا کہنا تھا کہ بجٹ نہیں ہماری سیاست پاناما لیکس کے گرد گھوم رہی ہے، اپوزیشن عوام کو غلط راہ پر ڈال رہی ہے، موجودہ صورتحال میں منی بجٹ لانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اسد عمر نے کہا کہ بجٹ میں بڑے اور بنیادی مسائل پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے، جو ٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے اس کا سارا بوجھ متوسط طبقہ اور غریب پر پڑتا ہے، بلاواسطہ ٹیکس ریونیو آمدنی کے 87فیصد تک پہنچ چکا ہے، کپاس کی فصل کم ہونے کا تعلق عالمی مارکیٹ سے نہیں ہے، دنیا بھر میں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ روکنے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن پاکستان اس کا حصہ نہیں ہے، حکومت نے ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کر کے بیرون ملک اثاثے بنانے والوں کیخلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر انتہائی زیادہ ٹیکس لگا کر بجٹ خسارہ پورا کرنے کی کوشش کی ہے، حکومت اگر ٹیکس ریٹ نہ بدلتی تو 100 بلین کا شارٹ فال ہوتا، مٹی کا تیل خریدنے والے غریب پر 62فیصد ٹیکس لگایا گیا مگر ملکی دولت لوٹنے والے طاقتور امیروں سے ٹیکس وصول نہیں کیا جارہا ہے۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ حکومت نے فائنانس کی قائمہ کمیٹی میں بجٹ پر ایک منٹ بات نہیں ہونے دی، دبئی میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری پر حکومت خاموش بیٹھی رہی، ٹیکس اصلاحات کرنے کے بجائے تمام بوجھ بلاواسطہ ٹیکسوں کے ذریعہ عوام پر ڈالا جارہا ہے۔ 
تازہ ترین