تحریر: نرجس ملک
مہمان: نمرہ
عبایا، اسکارفس: قواریر فیشن، مومنات، میرمن
آرایش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
اگر ایک طرف مغرب کی اندھی تقلید و تائید، تہذیبی یلغار کی رَو میں مسلمان خواتین میں بھی بےپردگی و بےحیائی رواج پا رہی ہے، تو دوسری جانب مقامِ صد خوشی و اطمینان ہے کہ نسلِ نو کی ایک بڑی تعداد خُود اپنی سمجھ بوجھ، عقل و دانش کا استعمال کرکے سو فی صد اپنی مرضی و منشا، خوشی و خُوش نودی سے حیا و حجاب کو اپنا حق، اختیار مانتے ہوئے ’’عورت کا حُسن حیا میں، تحفّظ حجاب میں‘‘ کی عملی تصویر بھی بنی ہوئی ہے۔ آج بےشمار نوعُمر، نوجوان اسکول، کالج، یونی ورسٹی کی طالبات کسی زور زبردستی، جبر و استبداد کے تحت نہیں، بخوشی، بہ رضا و رغبت ساتر لباس کا انتخاب کر رہی ہیں۔
پورے اعتماد و یقین کے ساتھ پردے کی کوئی بھی شکل (عبایا، برقع، حجاب، چادر، اوڑھنی، دوپٹا، جلباب، اسکارف)اختیار کرکے پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دے رہی ہیں کہ ’’میرا لباس، میرا انتخاب، میری مرضی ہے۔‘‘ اور بلاشبہ اس تحریک میں بہت بڑا کردار مصری نژاد، جرمن مسلمان خاتون، شہیدۃ الحجاب ’’مروہ الشربینی‘‘ کا ہے کہ جن کی شہادت ہی بعدازاں ہر سال 4 ستمبر کو ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے اہتمام کا محرّک بنی۔
گرچہ قرآن و سنّت میں پردے سے متعلق واضح احکامات موجود ہیں۔ صرف قرآن ہی میں سات مرتبہ حجاب کا لفظ استعمال ہوا اور جس وقت پردے کی فرضیت کا باقاعدہ حُکم آیا تو دنیا کی سب سے نیک، پارسا، پاک دامن بیبیوں نے دنیا کے سب سے طیّب و مطّہر مَردوں سے پردہ کیا، تو ہماری اور آپ کی تو بساط و اوقات ہی کیا۔ اور یہ حُکم صرف عورتوں کے لیے نہیں آیا، مَردوں کو بھی سترپوشی کے ساتھ نگاہیں تک نیچی رکھنے کا حُکم دیا گیا۔ یعنی حیا دار ہونا مرد پر بھی اُتنا ہی واجب ہے، جتنا کہ عورتوں پر۔ بلکہ سورئہ نور میں مَردوں کو پہلے مخاطب کیا گیا، عورتوں کو بعد میں۔
ہاں البتہ سورئہ نور اور سورۃ الاحزاب میں عورتوں کے لیےخاص تاکید کی گئی کہ ’’اے نبی ؐ!مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اپنی عِصمتوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت دکھاتی نہ پھریں، بجز اُس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔‘‘ (سورئہ نور) اور ’’اے محمد ؐ ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) پھر پردے ہی سے متعلق حضرت امام حسینؓ کا ایک معروف قول ہے کہ ’’عورت کا پردہ کرنا، شہید کے خون سے بھی افضل ہے۔‘‘
اس کے باوجود پردے، خصوصاً عورت کے چہرے کے پردے سے متعلق ہر دَور میں سوالات اُٹھتے رہتے ہیں (حالاں کہ اللہ ربّ العزت نے جب اِک انتہائی مہین، خردبینی وائرس ’’کورونا‘‘ کے ہاتھوں کُل بنی نوع کو مکمل طور پر عاجز و بےبس کرکے ایک پَل میں باور کروادیا کہ وہ جب اور جس طرح چاہے، اپنے اِس حُکم کی تعمیل کرواسکتا ہے، نہ صرف اُن سے، جن سے اُس نے پردہ فرض کیا اور وہ دانستہ یا نادانستہ منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اُن سے بھی، جو اِس فرض کی راہ میں حائل یا مزاحم ہونے کی حماقت کرتے ہیں، بلکہ اُن سے بھی، جن پر چہرے کا پردہ فرض نہیں کیا گیا، تو پھر کوئی سوال بنتاہی نہیں ہے) اور ہر دَور ہی میں اللہ کے برگزیدہ بندےمدلّل جوابات دے کر کم عِلموں کی تسلّی و تشفّی بھی کرتے ہیں۔
جیسا کہ ابھی کچھ عرصہ قبل معروف کویتی اسکالر، ڈاکٹر جاسم المطوع سے، جو گھریلو معاملات اور اُن کے سدھار پر پی ایچ ڈی ہونے کے ساتھ بہترین موٹی ویشنل اسپیکر بھی ہیں، ایک طالبہ نے سوال کیا کہ ’’کیا قرآن میں ایک بھی ایسی آیت ہے، جو عورت پر حجاب کی پابندی یا فرضیت ثابت کرتی ہو؟‘‘ تو ڈاکٹر جاسم نے اُلٹا اُس سے سوال کر لیا کہ ’’اگر مَیں تم سے کہوں کہ مجھے اپنی یونی ورسٹی گریجویشن کی سند دکھائو، یاکہوں کہ تم مجھے اپنی فائنل گریجویشن رپورٹ دکھائو یا اپنا گریجویشن کا رزلٹ کارڈ دکھائو، تو تم ان تینوں مطالبات سے کیا سمجھو گی؟‘‘ طالبہ بولی ’’ظاہر ہے، آپ میرا گریجویشن کا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘’’تو بیٹا! اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں تین ایسے استعارے استعمال کیے ہیں، جو عورت کے حجاب پر دلالت کرتے ہیں۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے پردہ دار عورت کی صفات تین تشبیہات (الحجاب، الجلباب اور الخمار) کی صُورت بیان فرمائی ہیں۔ جیسے تم ڈگری، رزلٹ کارڈ، فائنل رپورٹ سے ایک ہی مطلب سمجھی ہو، اِسی طرح ان استعاروں کا بھی ایک ہی مطلب ہے۔ پردہ دار عورتوں کے لیے پہلا حُکم یا اُن کی پہلی صفت ہے’’اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘ دوسرا حُکم ’’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں‘‘ اور پھر تیسرا اشارہ ہے،’’اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو، تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو‘‘ تو کیا اِن احکامات کے بعد بھی حجاب کی پابندی یا فرضیت سے متعلق کوئی سوال باقی رہ جاتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر جاسم نے طالبہ کی تفصیلاً رہنمائی کےبعد پوچھا۔
پھر مزید وضاحت کے لیےکہا کہ ’’اگر ابھی بھی تمہاری تسلّی نہیں ہوئی تو مَیں عربی گرامر کی رُو سے سمجھاتا ہوں کہ عربی زبان میں’’الخمار‘‘ اُس اوڑھنی کو کہتے ہیں، جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے۔ تاہم، وہ اتنی بڑی ہونی چاہیے کہ سینے کو ڈھانپتی ہوئی گھٹنوں تک جائے۔ ’’الجلباب‘‘ ایسی کُھلی قمیص کو کہتے ہیں، جس پر سر ڈھانپنے والا حصّہ مُڑا ہوا ہو اور اُس کےبازو بھی پورے ہوں۔ فی زمانہ، اِس کی بہترین مثال مراکشی خواتین کا لباس ہے، جب کہ ’’حجاب‘‘ کا مطلب تو پردہ ہی ہے۔‘‘ جواباً طالبہ نے قائل ہو کربھرّائی ہوئی آواز میں کہا،’’یعنی بحیثیت مومنہ، مجھے ہر صُورت پردہ کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
قصّہ مختصر، ’’پردہ نظر کا ہوتا ہے‘‘ ، ’’آج کل کا پردہ تو صرف فیشن کے لیے ہے‘‘ ، ’’آنکھ میں شرم ہونی چاہیے، لباس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ جیسی ہزار تاویلات بھی گھڑ لی جائیں، تو حُکمِ ربّی سے سرتابی اور اس حُکم کے فضائل و مناقب سے انکار کسی صُورت ممکن نہیں اور خصوصاً اگر کوئی مسلمان عورت، خواہ وہ دنیا کے کسی کونےیاگوشےمیں بستی ہے، اگر اپنی خواہش، مرضی و منشا سےساتر لباس و حجاب پہننا، اوڑھنا چاہتی ہے، تو دنیا کے کسی فرد کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اُسے بالجبر روکے یا اُس پر تنقیدی نگاہ ہی ڈالے۔
پردے، شرم و حجاب ہی سے متعلق ارشاد عرشی ملک کی ایک بہت ہی خُوب صُورت سی نظم ہے ؎ بےپردگی سے بہنو، ہے اجتناب لازم.....عورت کے واسطے ہے شرم و حجاب لازم.....فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم.....اَن مول ہے وہ موتی، جو سیپ میں چُھپا ہو.....ہوتی ہے اُس کے رُخ پر اِک آب و تاب لازم.....فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم.....حُکمِ خدا کے آگے، بےکار حیل و حجّت.....اندر سنگھار لازم، باہر نقاب لازم.....فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم.....ربّ کی رضا کو، جو بھی اپنی رضا بنا لے.....مُکھ پر کِھلے گا اُس کے اِک ماہتاب لازم.....فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم..... غضِ بصر کی عادت زیبا ہے مَرد و زَن کو.....اچھی، بُری نظرکا ہوگا حساب لازم.....فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم.....پہلے ہم اپنے اندر اِک انقلاب لائیں.....آکر رہے گا جگ میں پھر انقلاب لازم..... فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم.....اپنے گھروں کو ہم نے جنّت بنالیا گر.....دنیا کو کرسکیں گے ہم لاجواب لازم.....فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم۔
ربّ کریم کُل امّتِ مسلمہ کو باحیا و باکردار ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور خاص طور پر نبی کریمؐ کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ ’’بہترین اولاد باپردہ بیٹیاں ہیں۔‘‘ امّت کی ہر بیٹی کو باحجاب و باشرع ہونے کی ہمّت و استطاعت دے۔ ہماری طرف سے ’’عالمی یومِ حجاب اسپیشل‘‘ بزم کی صُورت یہ چھوٹا سانذرانہ، اِس تنبیہ اور اِس دُعا کے ساتھ کہ ؎ ’’دوچار آنکھیں تمہارے چہرے پہ وار کرتی دکھائی دی ہیں.....گلاب زادی! گلاب چہرے کو ڈھانپ رکھنا، حجاب کرنا‘‘ اور، اللہ کرے کہ شرم و غیرت حجاب و حیا کا یہ سفر رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے، قبول فرمائیں۔