• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکسی ڈرائیور بڑا مَن موجی قسم کا تھا۔ شہر دِکھانے کی ہامی ہی نہیں بَھری، بلکہ ہماری معلومات میں بھی اضافہ کرنے لگا۔’’جزیرۂ شمائن پر برطانیہ اورفرانس مسلّط تھے۔ اس کی تاریخ بہت پرانی، سونگ،لیانگ بادشاہوں کے زمانے کی ہے۔‘‘وہ جوشِ خطابت میں بتارہا تھا اور ہماری نظریں باہر کے مناظر میں اُلجھی تھیں ۔شام کی سنہری کرنوں میں چمکتا ہرا کچور سبزہ ، سہ، چہار منزلہ کلاسیکل طرزِ تعمیر کی حامل عمارتوں کے ماتھوں پر برطانوی طرزِ تعمیر کے مخصوص رنگ کی گہری چھاپ تھی۔

شفّاف سڑکوں پر گھومتے پِھرتے بچّے،جوان اور بوڑھے جیسے اِن مناظر میں مزید رعنائیاں بھر رہے تھے۔گلی کے موڑ پر رکھے مجسّمے اس کا حُسن مزید بڑھا رہے تھے ، تو پُرسکون ماحول میں رَچی میٹھی سی خنکی خُوب بَھلی لگ رہی تھی۔’’توبہ! کیسی لُٹیری قومیں تھیں، جو یہاں آئیں اور قابض ہوگئیں۔ تاہم، ایک بات ہے کہ اس شہر میں بہت کچھ بَنا بھی گئیں۔‘‘ ہم دل ہی دل میں بڑبڑائے۔

میٹرو اسٹیشن کی وسعتیں دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی۔گو، اس میں آرٹ اور کلچر کے وہ رنگ نہیں تھے، جیسے ماسکو کے میٹرو اسٹیشنز میں نظر آتےہیں، مگر اس کا پھیلائو اور جدّتیں دونوں ہی بےمثال تھیں۔ سیڑھیاں زینہ دَر زینہ چڑھتی چلی جارہی تھیں، اب ہانپنے والی بات ہی تھی۔یہاں تو جیسے مناظر کے نت نئےرنگ دیکھنے کو مل رہے تھے، اوپر والے کی اعلیٰ و ارفع تخلیق نظر آرہی تھی۔ ہیڈ برج اور فلائی اووَر سڑکوں کا جال سا دائیں بائیں، آگے پیچھے سے ایک دوسرے کو یوں کاٹ رہا تھا کہ دیکھ کر دماغ ہی چکرا گیا۔ عمران نے ٹیکسی کے لیے اِدھر اُدھر دیکھا، پھر موبائل پر رابطہ کیا۔ 

تھوڑی دیر بعد ہم ٹیکسی میں ایک نئے جہانِ رنگ و بُو کی طرف رواں دواں تھے۔ شُکر ہے عمران نے میرے دل کی بات جان لی تھی کہ ’’دریائے پرل کے جزیزے ،شمائن پر شام کا حُسن ٹوٹ کر برس رہا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور بھی اچھا ہے اور انگریزی زبان بھی جانتا ہے، تو کیوں نہ ہم سیدھے ہوٹل جانے کی بجائے جزیرے سے ہوتے ہوئے چلیں۔ ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے ہی سہی، کم از کم جزیرہ تو گھوم لیں۔‘‘ 

ہماری تجویز سعدیہ اور عمران دونوں ہی کو پسند آئی تھی۔ جزیرہ بھی کیا تھا، جنّت کا ایک نمونہ تھا۔ اگر ہم اُس کے حُسن کے قصیدے پڑھنے بیٹھے، استعاروں کی زبان بولنے لگے،تو یقین ہے کہ حُسن و جمال کی وضاحت میں جملوں کی قطاریں لگ جائیں گی، مگر اصل حق پھر بھی ادا نہ ہو گا۔ حُسنِ تعمیر میں اتنی انفرادیت تھی کہ اگر ابھی نظروں سے گوتھک طرز کا چرچ گزرا، تو چند ہی لمحوں بعد کسی برٹش کلاسیکل عمارت نے جکڑ لیا۔ان عمارتوں کا ایک سلسلہ چمکتے ہرے کچور درختوں کے پس منظر میں لشکارے مارتا نظر آرہا تھا۔کہیں باروق اسٹائل اور کہیں وکٹوریا طرز کی کھڑکیاں بتا رہی تھیں کہ یہاں کے مکین کیسے صاحبِ ذوق ہیں۔سڑکوں کے دائیں بائیں پھولوں کے لمبے لمبے قطعے تھے۔

گو، خُوش رنگ پھولوں نے ابھی انہیں خوش نظر نہیں بنایا تھا، مگر بہار کے جوبن پر ان کا جوبن بھی تو قابلِ دید ہی ہوتا ہوگا۔اب ایسے میں جنوب کی زرخیز زمینوں کے زرخیز شاعر کیوں نہ یاد آتے اور اسی کے ساتھ تھانگ سلطنت بھی یاد آگئی۔چِین کے سب سے بڑے شاہی گھرانوں میں سے ایک، تھانگ خاندان کے دَور کو چینی شاعری کے سنہری دَور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کوئی ہو(Cui Hu) اپنے عہد کا ایک ایسا بےمثال شاعر تھا، جس نے شاعری میں بہت سے نئے اضافے کیے، کئی خُوب صُورتیاں پیدا کیں۔اُس کی ایک پیاری سی نظم ملاحظہ کیجیے؎ گزشتہ سال اسی دن، اسی گھر میں…ایک خُوب صُورت چہرے نے وفور شوق سے کچھ پوچھا تھا…کچھ ایسا لگا تھا… جیسے آڑو کے گلابی گلابی شگوفے…اس کے چہرے کے سنگ سنگ کِھلے ہوں،بے خبر ہوں…آج وہ گلابی چہرہ جانے کہاں چلا گیا…صبح کی عطر بیز ہوائوں میں…ابھی تک وہ گلابی شگوفے توانائیوں سے مُسکراتے ہیں۔

یہ چھوٹا سا جزیرہ، برٹش اور فرینچ حصّوں میں بٹا ہوا ہے۔ایک پُل کا نام ’’برٹش برج‘‘ اور دوسرے کونے والے کا نام ’’فرینچ برج‘‘۔ اُف حُسن و جمالِ فطرت کے جیسے دریا سے بہہ رہے تھے۔ ’’جزیرے پر تو جیسے جنّتِ ارضی کا گمان ہوتا ہے۔‘‘ ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا، تو ٹیکسی ڈرائیور شیو چھوان نے ہنس کر کہا ’’واقعی، پر اِسے بنانے والے دوزخی تھے۔ چِین کوئی کل کی سُپر پاوَر بننے والی طاقت تھوڑی ہے۔یہ ماضی کی بھی سُپر پاوَر تھی۔ چِین 1200 سے 1700تک دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوّت رہا ہے۔ اس کے پرسلین کے برتن،چائے،گن پاؤڑد، ریشم اور دیگر بے شمار اشیاء کی دنیا بھر میں دھوم تھی۔‘‘اب تک ہمیں یہ تو اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ ڈرائیور کو چینی تاریخ کی خاصی معلومات ہے۔

راستے میں اس جگہ کے حُسن و جمال کے نئے نئے رنگ سامنے آرہے تھے، جب کہ جابجا دَھرے مختلف کرداروں کے عکّاس ڈھیروں ڈھیر مجسّمے بھی اس کی شان بڑھا رہے تھے۔ ہمارا ہوٹل یہیں وسط میں تھا، ٹیکسی میں گھومنے پِھرنے کے بعد اُترے، تو قریب ہی کافی بار اور ریسٹورنٹ بھی نظر آگیا۔گاڑی سے اُترتے ہی ہم نے ڈرائیور سے کہا’’ہم تمہارےممنون ہوں گے، اگر تم ہمارے ساتھ کافی پیو اور تھوڑی باتیں کرو۔ہمیں محسوس ہوا ہے کہ تم کافی پڑھے لکھے ہو اور تاریخی شعور بھی رکھتے ہو۔‘‘ ہماری بات سُن کر سعدیہ ہنسی اور عمران کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کھینچتے ہوئے بولی۔’’آئو چلیں، میری ماں کا تو وہی حال ہے کہ ’’جتھے ویکھاں تواپرات، اوتھے گاواں ساری رات۔‘‘ ہم کچھ دیر آرام کرتے ہیں،پھر نکلیں گے۔‘‘ سعدیہ کی بات سُن کر ہم نے بھی شُکر کا بڑا لمبا سانس لیا اور ڈرائیور کو ساتھ لے کر کافی بار چل دیئے۔کافی مگ ہاتھوں میں تھام کر ہم نے کہا، ’’ہاں تو اب بتائو کہ یہ چِین کیسے ان یورپی طاقتوں کے چنگل میں پھنسا؟‘‘’’آپ کا ہندوستان بھی تو اِن کے قبضے میں تھا، وہ کب آزاد ہوا؟‘‘اُس نے اُلٹا ہم سے سوال کردیا۔ 

پھر فوراً ہی گویا ہوا۔’’ہندوستان پر برطانیہ قابض تھا۔ 1947ء میں اسے آزادی ملی۔دراصل جب ہندوستان دوسری بڑی معاشی قوت بن کر اُبھر رہا تھا، اُس وقت چِین بھی دنیا میں بہت نمایاں حیثیت کا حامل تھا۔ مگر دونوں نئے عالمی رحجانات کو نہ سمجھ سکے۔1839ء میں چِین اور برطانیہ کے درمیان جنگ ہوئی، تو علم، سائنس اور ٹیکنالوجی جیت گئی اور چِین غلام بن گیا۔ہانگ کانگ ان کے حوالے ہی نہیں کیا، بلکہ ساتھ بھاری جرمانہ بھی ادا کیا۔ 

تاجروں کو چِین میں بغیر کسی روک ٹوک کے داخلے کی اجازت مل گئی۔یہاں بدقسمتی یہ بھی رہی کہ مغربی طاقتیں تو ایک طرف، جاپان نے بھی چڑھائی کردی۔ فرانسیسی بھی قبضہ کرنے آگئے، تو ایسے میں جرمنی کیوں پیچھے رہتا۔ بے شمار جزائر ان عیار قوموں نے ہتھیا لیے۔ یہ ’’گونگ چو‘‘ بھی یورپی طاقتوں کا کینٹن تھا۔یہ جزیرہ اُن کے امیر ترین لوگوں کی رہائش گاہ بنا، جسے آپ ابھی جنّت کا نمونہ کہہ رہی تھیں۔‘‘ اُس کی بات سُن کر ہم مُسکرائے کہ کیسا ذہین آدمی ہے، منہ سے نکلی بات کو، پلٹا کر منہ پر دے مارا۔’’چِین پر اُس وقت ملکہ شی حکم ران تھی۔

مغربی طاقتیں بھی مقابلے پ آکھڑی ہوئیں۔نو ممالک(برطانیہ، امریکا، روس، فرانس، جرمنی،اٹلی، آسٹریا،ہنگری اور جاپان) کا اتّحاد ہوا اور جو چند باقی رہ گئے تھے،وہ بھی چھوٹے موٹے فوجی دستے بھیج کر مالِ غنیمت کے حصّے دار بن گئے۔ اُس وقت چینی عوام میں اتفاق تھا، نہ ان کے پاس جدید اسلحہ، تو شکست تو طے تھی، سو ہوئی۔ مغربی فوجیوں کے لیےبھی لُوٹ مار کے رستے کُھل گئے۔ شکست نے انہیں ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے کا پروانہ جو دے دیا تھا۔ تب پیکنگ ، چین کا دارالحکومت تھا۔ کہتے ہیں، امریکی سفارت خانے کا پہلا سیکرٹری، جب 1901ء میں واپس امریکا جانے لگا، تو اس کا سامان ریل کے کئی ڈبّوں میں بُک کیا گیا تھا۔یہ چینی آرٹ کا وہ سامان تھا، جو اس نے امریکی فوجیوں سے اونے پونے داموں خریدا تھا۔ عظیم مُلک کی، عظیم فوج نے شاہی محلّات اور امرا کے گھروں میں بہتیرا اُودھم مچایا تھا۔

یہ سب بیجنگ کے شاہی محلّات اور اُمرا کے گھروں سے لُوٹا گیا تھا۔یہ وہ دن تھے، جب چِین کے مختلف علاقوں مع پایۂ تخت پر’’جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس‘‘ کا راج تھا۔ یہاں امریکی اور برطانوی فوجی مفتوحہ علاقوں سے لُوٹ مار کا جو سامان اکٹھا کرتے، اُسی دن شام کو اُس کی نیلامی کردی جاتی۔برطانوی سفارت خانے کے باہر ہر ہفتے کُھلے عام نیلامی ہوتی اور سفارت کاروں کی بیویاں بہت چائو سے خریداری کرتیں۔ ان خریداروں میں امریکی سفیر، کلائوڈ میکوئل اور ’’لندن دی ٹائمز‘‘ کے نامہ نگار، جارج ارنسٹ مورسین وغیرہ جیسے بڑے نام نمایاں ہیں۔ 

یہ سامان آج بھی برطانیہ اور امریکی لارڈ زکے گھروں اور عجائب خانوں میں موجود ہے۔ مشنریوں کی لُوٹ مارا اور کرتوتوں سے متعلق شہرۂ آفاق مصنّف ،مارک ٹوئن نے’’To The Person Sitting In Darkness ‘‘میں بڑے صاف الفاظ میں لکھا ہے۔ ملکہ شی نے عوام کا نہیں، اپنے اقتدار کا سوچا اور معاہد ہ کرلیا، پھر تاوانِ جنگ بَھرنا پڑا اور 1940ء تک بَھرا جاتا رہا۔‘‘ ڈرائیور نے تفصیلاً بتایا۔’’واہ بھئی، ان اتحادیوں کی تو موجیں تھیں کہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سَرکڑاہی میں ۔‘‘ ہمارے منہ سے بےاختیار نکلا۔ ’’دراصل چِین مغربی طاقتوں کی نوآبادی بن گیا تھا۔

مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ ’’لالچ، ہوس اورمال سمیٹنے کی بنیاد پر جو اکٹھ ہوتے ہیں، اُن میں پائیداری نہیں ہوتی۔‘‘ تو اتّحادی آپس ہی میں لڑپڑے۔یہ بھی اوپر والے کی عنایت تھی کہ ان میں پُھوٹ پڑ گئی۔ اگر کہیں وہ اتّحاد قائم رہ جاتا، تو پھر چِین کے اُسی طرح ٹکڑے ہوتے، جیسے مشرقِ وسطیٰ کے ہوئے۔یہ لڑ پڑےاور پھر پہلی جنگِ عظیم نے اسی کی کوکھ سے جنم لیا۔ پھر جنگِ عظیم دوم دوم نے برطانیہ کی چوہدراہٹ کا سورج غروب کردیا۔ یوں امریکا کا سورج طلوع ہوا اور ساتھ سویت یونین بھی آکھڑی ہوئی۔ ایک تو چینی عوام ملکہ شی سے ناکوں ناک نالاں تھے، اُس پر طرّہ یہ کہ نئی نسل کو پختہ یقین تھا کہ ڈاکٹر سن سین جیسے انقلابی رہنما کی تنظیم کومنتانگ کے ہاتھ مضبوط کرنے ہی میں چِین کی نجات ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔

بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور عوامی جمہوریہ چین نے نیا جنم لیا۔لیکن اس کے بعد جنرل یوان کی ہوسِ اقتدار نے قومی اسمبلی اور آئین کے پرخچے اُڑا دیئے۔ اُس نے اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ مگر دیگر جرنیلوں نے یوان کے اِس اقدام کو پسند نہ کیا اور بےچارے چینی عوام کو ایک بار پھر بغاوتوں،مزاحمتوں،انتشار اور بدامنی کا سامنا کرنا پڑا۔ وار لارڈز مختلف حصّوں پر قابض ہوگئے، مُلک دو مکتبۂ فکر کے نرغے میں آگیا۔سفید اور سُرخ ،قوم پرست اور کمیونسٹ۔ ڈاکٹر سن سین کی بیماری اور وفات نے موقع فراہم کردیا۔ 

چیانگ کائی شیک اپنی طاقت وَر فوج کے ساتھ شمالی چِین پر قابض ہوگیا۔مائو اور چواین لائی جیسے لیڈرز بھی میدان میں اُترے ہوئے تھے۔ لانگ مارچ جیسی تاریخی سرگرمی اُسی دَور کی پیداوار ہے۔پڑوسیوں کی افراتفری اور بدامنی نے جاپانیوں کو بھی شہہ دی اور وہ بھی چِین پر قابض ہونے آدوڑے، لیکن 1945ء میں امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر اُن کے حوصلے پسپا کردئیے، یوں چِین کی بھی جان چُھوٹ گئی۔

پر چِین میں خانہ جنگی جاری رہی۔1949ء میں کمیونسٹ فوج نے جنرل کائی شیک کو شکست دی اور مائوزے تنگ کی زیرِ قیادت عوامی جمہوریہ چین کی حکومت بنی۔خیال تھا کہ اب لوگ سُکھ کا سانس لیں گے، لیکن نئی کمیونسٹ حکومت نے بھی سوویت یونین کے طورطریقوں اور پالیسیوں کو اپنا کر بہت سے نئے تجربات کیے، جن میں کچھ کام یاب، تو بیش تر ناکام ہوئے۔ مُلک میں بھوک، ننگ اور افلاس کا دَور دورہ رہا، حتٰی کہ مائو کے مرنے کے بعدڈنگ شیائو ینگ نے مُلک کو صحیح راستے پر گام زَن کیا۔چِین نے اپنے دروازے دوسرے ممالک کے لیے کھولے، سائنس اور ٹیکنالوجی، ہنر اور تحقیق میں نام بنا کر اپنی معیشت مضبوط کی اور آج چِین آپ کے سامنے ہے۔‘‘ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید