• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ پر سیلاب سے جو قیامت گزری ہے، اسے تحریر کرتے ہوئے قلم لڑکھڑا رہا ہے، دل کانپ رہا ہے، آنکھوں سے بہتے آنسو خشک ہوگئے ہیں، بچے بھوک افلاس سے نڈھال ہوکر حکمرانوں کی بے بسی کو دہائی دے رہے ہیں، بیمار باپ بیٹے کی لاش کو کندھا دینے پر مجبور ہے، ہر طرف پانی ہے لوگ خشکی کو ڈھونڈ رہے ہیں کہ اپنے پیارے کو دفن کریں یا پھر لاش سیلاب کے سپرد کر دیں ۔ لوگوں کے پاس صرف جسم ڈھانپنے کے لئے کپڑے ہیں،سر چھپانے کےلئے وہ در بدر گھوم رہے ہیں، کسی کو درخت نظر آتا ہے تو اس کے سائےمیں بیٹھ کر دن تو گزار لیتا ہے مگر رات کاٹنا ’’جوئے شیرلانے ‘‘کے مترادف ہوجاتا ہے۔ مغرب ہوتے ہی مچھر انسانوں کا جینا حرام کررہے ہیں جبکہ جانور بھی ان مچھروں سے تنگ آکر چیختے ہیں ، رات کے اندھیرےمیں سانپ اور بچھوؤں کے کاٹنے کے واقعات کا تسلسل ہے کہ ختم ہی نہیں ہورہا، ہم نے سندھ میں انسانوں کو روتے دیکھا ہے سندھ نے تو کیا اس خطے نے کبھی ایسی تباہی نہیں دیکھی تھی، مائیں اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگتی نظر آرہی ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک پہنچانا کسی تنہا حکومت کے بس کی بات نہیں رہی، کیونکہ سندھ سے خوارک کا ایک بڑا ذخیرہ سیلاب بہا کر لے گیا ہے۔ لوگوں کے پاس اگر کھانے کے لئے کچھ ہے تو صرف مٹی ، میں نے بچوں کو زمین پر بھوکے پیاسے دھوپ میں مٹی کھاتے دیکھا ہے، سندھ حکومت اور فلاحی ادارے اپنے وسائل کے حساب سے کام کررہے ہیں لیکن یہ اب نہ سندھ حکومت کے بس کی بات رہی ہے نہ کسی فلاحی ادارے اور نہ وفاقی حکومت کی۔ مہیڑ کا علاقہ ہو یا لاڑکانہ کا یا پھر خیرپور میرس ہو یا ناتھن شاہ، سندھ کا 40فیصد علاقہ دریا بن چکا ہے، کھانا دو وقت تو دور کی بات دن میں ایک وقت ملنا محال ہوچکا ہے؟ سیہون ہو یا جھنگارا یا بجارا، یا پھر جوہی ہو یا قمبر، لوگ بھوک اور پیاس کی شدت سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔

دریں اثنا، ٹی وی اسکرینوں اور سوشل میڈیا پر دل دہلا دینے والی تصاویر نظر آرہی ہیں کہ سیلابی پانی راستے میں موجود ہر چیز کو تباہ کر رہا ہے، گھروں کو بہا لے گیا ہے، کھڑی فصلیں ،لاکھوں مویشی اور دیگرجانور ڈوب رہے ہیں جبکہ زندہ بچ جانے والے خاندان اونچے ٹیلوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ کھلے آسمان تلے جب میں پہنچا تو مجھے ہرایک فرد صدیوں سے بھوکااور پیاسا نظر آرہا تھا، بچے خالی برتن چاٹ چاٹ کر اپنی بھوک مٹانے کو کوشش کررہے تھے، ایسا منظر ہے کہ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہا ہے، مگر سندھ کتنا بدقسمت ہے کہ جہاں کے بچوں اور مائوں کی پکار بعض الیکٹرانک میڈیا تک نہیں پہنچ پارہی اور وہ عمران خان کے جلسوں اور خبروں سے فارغ ہی نہیں ہو پارہے، کچھ صحافی میدان میں سندھ حکومت پر تنقید کے لئے پہنچتے ضرور ہیں مگر وہ صرف تنقید کے نشتر چلا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دنیا کو بتایا جائے کہ لاکھوں لوگ موت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں۔

میڈیا کا کام تنقید کرنے سے زیادہ مسائل کو اجاگر کرنا ہے، 3کروڑ افراد کو حکومت کی چند لاکھ کی مشینری سنبھال بھی لے تو خوارک کہاں سے آئی گی ؟ ادویات کہاں سے آئیں گی ؟ کیونکہ سندھ کے 40 سے 50فیصد خوراک اور ادویات کے ذخائر تو سیلاب کی نذر ہوگئے اور سندھ حکومت 3کروڑ لوگوں کو تنہا خوراک کیسے پہنچا سکتی ہے ؟ یہ جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان سیلاب اور بارشوں کا شکار ہوا ہے،اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں کیا،پاکستان تو ایک فیصد بھی کاربن فوٹ پرنٹ کا باعث نہیں، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی پالیسی کی وجہ سے دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہےمگر سب سے زیادہ اس کا شکار پاکستان ہورہا ہے۔ کیا ہمارے میڈیا کا یہ کام نہیں بنتا کہ دنیا کو خبردار کرے کہ آپ کی وجہ سے ہم کس بحران کا شکار ہیں اور اگرہمیں عالمی قوتوں نے مدد فراہم نہ کی تو آنے والے دنوں میں مزید تباہی نظر آئے گی، لوگ بھوک سے مرتے نظر آئیں گے کیوں کہ سندھ تو کیا پورا پاکستان بھی 3 کروڑ سے زائد سیلاب زدگان کی تنہا بحالی اور 30ارب ڈالر کا نقصان چند ماہ میں پورا نہیں کرسکتا، میڈیا سے گزارش ہےکہ اپنا کردار ادا کرے، سیلاب زدگان آپ کی طرف اور دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں، اگر اس موقع پر انھیں تنہا چھوڑ دیا گیا تو آنے والے دنوں میں یہ 3 کروڑ سیلاب متاثرین اور ان کی بھوکی اور پیاسی آنکھیں ہم سےبہت سے سوال کریںگی ، خدارا لوگوں کو کھانا پہنچائیں، ادویات پہنچائیں، سندھ کو اس وقت بھی 10لاکھ خیموں کی ضرورت ہے، گیس سے اربوں روپے کمانے والے تاجر کہاں گم ہیں ؟

تازہ ترین