خانۂ کعبہ کی تعمیرِ نو
کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام ایک صبح پھر مکّہ مکرّمہ تشریف لائے۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام آب زم زم کے چشمے کے نزدیک ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھے شکار کے لیے تیر چھیل کر تیار کررہے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا’’ اے میرے بیٹے! مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک کام کرنے کا حکم دیا ہے، کیا تم اس مقدّس کام میں میرا ساتھ دو گے؟‘‘ حضرت اسماعیل علیہ السّلام، والدِ محترم کی تعظیم میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا’’ ابّا جان! آپؑ کو جو حکم ملا ہے، اس کی تعمیل کیجیے۔
اِن شاء اللہ آپؑ مجھے اپنے شانہ بشانہ پائیں گے۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے ایک ٹیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ اللہ نے مجھے وہاں اپنا گھر، خانۂ کعبہ تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ چناں چہ دونوں بزرگوار اس کام میں لگے، تو کعبے کی پرانی بنیادیں نکل آئیں کہ اللہ تعالیٰ نے طوفانِ نوح میں اپنے مقدّس و محترم گھر کو آسمانوں پر اُٹھا لیا تھا اور کرۂ ارض پر صرف ایک ٹیلہ باقی رہ گیا تھا۔ (معارف القرآن، جلد اوّل، صفحہ320)۔
پانچ پہاڑوں کے پتھروں کا استعمال
حضرت جبرائیل امینؑ ان دونوں بزرگ ہستیوں کی رہ نمائی کے لیے موجود تھے۔ اللہ کے حکم کے مطابق پرانی بنیادوں پر خانۂ کعبہ کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔ امام الہیثمی کی روایت کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تعمیرِ کعبہ میں پانچ پہاڑوں کے پتھر استعمال کیے، جن کے نام یہ ہیں۔ جبلِ حرا، جبلِ ثبیر، جبلِ لبنان، جبل طور اور جبل الخیر۔ (رجالہ رجال الصیح مجمع الزوائد، جلد نمبر3 ، صفحہ نمبر288)۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا پانچ پہاڑوں سے کعبے کی تعمیر ایک معجزہ ہے اور نبی کے ہاتھوں ناممکن اور خلافِ عادت چیز کا ہوجانا ہی معجزہ کہلاتا ہے۔ (تاریخِ مکّہ مکرّمہ، ڈاکٹر محمّد الیاس عبدالغنی، صفحہ نمبر35)۔جبل ثبیر مکّہ سے منیٰ کی جانب جاتے ہوئے جبلِ حرا کے مقابل ہے، جو منیٰ کے آخر تک پھیلا ہوا ہے۔ (التاریخ القدیم، جلد نمبر2، صفحہ نمبر399) جبلِ لبنان بھی مکّہ کے قریب ہی واقع ہے۔ (معالم مکہ، صفحہ نمبر235) جب کہ جبلِ سیتاء مِصر کے مشرقی ریگستان میں واقع ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دُعا
قرآنِ کریم میں اللہ بزرگ و برتر ارشاد فرماتے ہیں’’ اور جب ابراہیم علیہ السّلام اور اسماعیل علیہ السّلام کعبے کی بنیادیں اور دیواریں اُٹھاتے جاتے تھے، تو کہتے جارہے تھے کہ ’’اے ہمارے پروردگار! ہماری یہ خدمت قبول فرما۔ بے شک تُو سُننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر127)۔دورانِ تعمیر حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السّلام نے ایک دُعا یہ بھی فرمائی تھی’’اے ہمارے ربّ! ان ہی لوگوں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیے، جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سُنایا کرے اور کتاب اور دانائی سِکھایا کرے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر129)۔اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے خلیل کی ان دعائوں کو قبول فرمایا اور سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام کی اولاد میں سے حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کو مبعوث فرمایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت باسعادت کی خصوصیات
مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ’’ مَیں اللہ کے نزدیک ’’خاتم النبیّن ‘‘اُس وقت تھا، جب کہ آدم علیہ السّلام پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ اُن کا خمیر ہی تیار ہورہا تھا اور مَیں آپ لوگوں کو اپنے معاملے کی ابتدا بتلاتا ہوں کہ مَیں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دُعا، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کے خواب کا مظہر ہوں۔‘‘
آپؐ کی والدہ نے حالتِ حمل میں خواب دیکھا تھا کہ اُن کے بطن سے ایک نور نکلا، جس سے مُلکِ شام کے محلّات جگ مگا اُٹھے۔ قرآنِ کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا تذکرہ کرتے ہوئے دو جگہ، سورۂ آلِ عمران اور سورۂ جمعہ میں ان ہی الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دُعا میں مذکور ہیں، جس میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے جس رسول کے بھیجنے کی دُعا فرمائی تھی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ (معارف القرآن، جلد اوّل، صفحہ نمبر331)
مقامِ ابراہیم علیہ السّلام
خانۂ کعبہ کی دیواریں کچھ بلند ہوئیں، تو سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے صاحب زادے سے فرمایا’’ بیٹا! اب دیواریں مزید اونچی کرنے کے لیے کسی چیز پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘ ابھی حضرت اسماعیل علیہ السّلام کسی اونچے پتھر کی تلاش میں تھے کہ اچانک حضرت جبرائیلؑ اللہ کے حکم سے جنّت کا ایک پتھر لے کر حاضر ہوئے اور فرمایا’’ اے ابراہیم علیہ السّلام! اس پر کھڑے ہوکر تعمیر کیجیے۔‘‘ اللہ کے نبی جب اُس پر کھڑے ہوکر تعمیر کرتے، تو وہ روئی کے گالوں کی طرح نرم و نازک ہوجاتا اور دورانِ تعمیر ضرورت کے مطابق اوپر، نیچے اور دائیں، بائیں حرکت کرتا۔
عقلِ انسانی حیران ہے کہ ساڑھے چار ہزار سال پہلے اللہ جل شانہ نے اپنے برگزیدہ بندے کے لیے ایک چھوٹے سے پتھر میں جدید ترین خود کار سیڑھی کی خصوصیات پیدا فرما دیں۔ آج بھی جنّت کا یہ متبرّک یاقوت کعبہ کے صحن مطاف میں حجرِ اسود سے 14.5میٹر پر اور رُکنِ عراقی سے 14میٹر کے فاصلے پر کرسٹل کے ایک خُوب صُورت خول میں سنگِ مرمر کے بڑے پتھر پر نصب ہے۔ اس کے گرد حَسین جالیاں ہیں، جن پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔ مقامِ ابراہیمؑ کی موجودہ بلندی 20سینٹی میٹر ،جب کہ زمین سے بلندی ایک میٹر ہے۔
پتھر پر قدموں کے نشان کا طول 22سینٹی میٹر اور عرض 11سینٹی میٹر ہے۔ ایک قدم مبارک کی گہرائی 10سینٹی میٹر اور دوسرے قدم مبارک کی 9سینٹی میٹر ہے۔ مقامِ ابراہیمؑ سے زم زم کنویں کا فاصلہ ساڑھے بارہ میٹر ہے۔ زمین سے مکمل خول کی بلندی 3میٹر ہے۔ (تاریخ مکّہ مکرّمہ، محمود محمّد حمو، صفحہ نمبر64)۔مقامِ ابراہیمؑ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ربّ ِ کعبہ نے قرآنِ کریم میں فرمایا، ترجمہ’’اور مقامِ ابراہیمؑ کو نماز کی جگہ بنا لو۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر125)۔ ایک اور جگہ فرمایا، ترجمہ’’اس (مکّہ) میں کُھلی نشانیاں ہیں (جن میں سے) ایک مقامِ ابراہیمؑ ہے۔‘‘ (سورۂ آلِ عمران، آیت نمبر97)
حجرِ اسود کی تنصیب
خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہونے کو تھی کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام کی نشان دہی پر حضرت اسماعیل علیہ السّلام جبل ابو قبیس سے حجرِ اسود لے کر آئے، جسے حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اس کی مخصوص جگہ پر نصب کیا۔ جنّت کا یہ پتھر کعبہ شریف کے دروازے کے قریب، جنوبی دیوار کے مشرقی گوشے میں باہر کی جانب مطاف (صحن) سے 1.10میٹر کی بلندی پر نصب ہے۔ اس کی لمبائی 25سینٹی میٹر ،جب کہ عرض 17سینٹی میٹر کے قریب ہے۔ کعبے کی جنوبی دیوار کے کونے میں چاندی کے بیضوی شکل کے ایک حلقے میں اِس پتھر کے مختلف جسامت کے 8ٹکڑے جڑے ہوئے ہیں۔
سب سے بڑا ٹکڑا کھجور کے برابر ہے۔ شروع میں یہ ایک ہی ٹکڑا تھا، لیکن حوادثِ زمانہ نے اس کے 8ٹکڑے کردیے۔ طواف کی ابتدا اور اختتام اسی پتھر پر ہوتا ہے۔ طواف کے ہر چکر میں اسے چومنا یا دُور سے استلام کرنا سنّت ہے۔ اِس وقت حجرِ اسود کا رنگ سرخی و سیاہی مائل زرد ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا’’ حجرِ اسود جنّت سے آیا ہوا پتھر ہے۔ یہ دودھ سے زیادہ سفید تھا۔ بنی آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا۔‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر877)۔ طوفانِ نوح میں اِس مقدّس پتھر کو جبلِ ابو قبیس نے اپنی آغوش میں چُھپا لیا تھا۔
حج کی منادی
خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچُکی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اس کی بلندی تقریباً 4میٹر رکھی تھی اور اس پر چھت نہیں ڈالی تھی۔ خانۂ کعبہ کے آمنے سامنے مشرق اور مغرب میں دو دروازے رکھے تھے۔ دونوں دروازے زمین سے ملے ہوئے تھے اور بغیر چوکھٹ اور کواڑ کے تھے۔ موجودہ حظیم کا کعبے سے منسلک 3میٹر کا حصّہ کعبے میں شامل تھا، بقیہ حطیم کا حصّہ کعبے سے باہر تھا۔
اب ربّ ِ کعبہ نے اپنے دونوں برگزیدہ بندوں کو حکم جاری فرمایا’’یاد کرو وہ وقت کہ جب ہم نے ابراہیمؑ کے لیے خانۂ کعبہ مقرّر کردیا، اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف، قیام، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھنا۔‘‘ (سورۃ الحج، آیت نمبر26)۔ اس کے فوری بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو حکم دیا’’اور لوگوں کو حج کی منادی کرا دو کہ وہ تمہارے پاس دُور دراز مقامات سے پیدل اور دُبلے پتلے اونٹوں پر سوار ہوکر آئیں۔‘‘ (سورۃ الحج: 27)۔
حج کا تلبیہ، ندائے ابراہیمیؑ کا جواب ہے
ابنِ ابی حاتم نے حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو فرضیتِ حج کے اعلان کا حکم ہوا، تو اُنہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ’’ جہاں آبادی ہے، وہاں میری آواز کیسے پہنچے گی؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ آپ کی ذمّے داری صرف اعلان کرنے کی ہے۔ اسے ساری دنیا میں پہنچانے اور پھیلانے کی ذمّے داری مجھ پر ہے۔‘‘
اِس روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے جب اعلان کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی آواز ساری دنیا میں پہنچا دی اور صرف اس وقت کے زندہ انسانوں تک ہی نہیں بلکہ جو انسان آئندہ تاقیامت پیدا ہونے والے تھے، بطور معجزہ اُن سب تک یہ آواز پہنچا دی گئی اور جس جس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے حج کرنا لکھ دیا ہے، اُن میں سے ہر ایک نے اس آواز کے جواب میں ’’لبّیک، اللھم لبّیک‘‘ کہا۔ یعنی حاضر ہونے کا اقرار کیا۔ حضرت ابنِ عبّاسؓ نے فرمایا کہ’’ حج کے تلبیہ کی اصل بنیاد یہی ندائے ابراہیمیؑ کا جواب ہے۔‘‘(معارف القرآن، جلد نمبر6، صفحہ نمبر256)۔
حطیم ( حجرِ اسماعیل علیہ السّلام)
کعبہ شریف سے منسلک شمال کی جانب نصف دائرے کی شکل میں موجود کُھلی جگہ حطیم یا حجرِ اسماعیلؑ کہلاتی ہے۔ اِس وقت کعبہ شریف کی دیوار سے اس کا طول 8.5میٹر ہے۔ اس میں سے 3میٹر بیتُ اللہ شریف کا حصّہ ہے۔ قریش نے تعمیرِ کعبہ کے وقت مالِ حلال کم پڑنے پر 3میٹر کے اِس حصّے کو کعبے سے الگ کردیا تھا۔
روایت کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیتُ اللہ سے باہر 5.5میٹر حصّے پر حضرت اسماعیل علیہ السّلام اور اُن کی والدہ کے لیے اراک کی لکڑیوں سے ایک جھونپڑی (عریش) بنا دی تھی۔ (مصنّف عبدالرّزاق)۔ حطیم کی حدود میں 1.30میٹر بلند دیوار بنا دی گئی ہے، جس کا عرض 1.5میٹر ہے۔ طواف اس دیوار کے باہر سے ہوتا ہے۔ (تاریخ مکّہ مکرمہ، ڈاکٹر الیاس عبدالغنی، صفحہ نمبر51)۔
خانۂ کعبہ کے پہلے متولّی
بیتُ اللہ شریف کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو خانۂ کعبہ کا متولّی مقرّر فرمایا اور خود واپس مُلکِ شام چلے گئے۔ جب تک حضرت ابراہیم علیہ السّلام حیات رہے، ہر سال مناسکِ حج کی ادائی کے لیے مکّہ مکرّمہ تشریف لاتے رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا انتقال 175؍سال کی عمر میں ہوا۔
اللہ جل شانہ نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو حجازِ مقدّس اور اس کے آس پاس کی تمام آبادیوں، نیز قومِ جرہم، قومِ عمالیق اور اہلِ یمن کی جانب نبی بنا کر بھیجا۔ آپؑ نبی آخرالزماں حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کے جدِ اعلیٰ ہیں۔ (قصص الانبیاء، صفحہ نمبر84)۔
حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے 12صاحب زادے
حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو اللہ تبارک تعالیٰ نے 12صاحب زادوں سے نوازا۔ یہ سب اپنی قوم کے سردار بنے اور ہر ایک نے الگ الگ بستیاں آباد کیں۔آلِ اسماعیلؑ اِس کثیر تعداد میں بڑھی کہ حجاز سے نکل کر شام، عراق، یمن، فلسطین اور مِصر تک پھیل گئی۔ حجازِ مقدّس یعنی مکّہ و مدینہ اور گردونواح کے تمام عرب حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے دو صاحب زادوں، نابت اور قیدار کی اولاد سے ہیں۔(ابنِ کثیر)مؤرخین نے لکھا کہ دنیا میں جس شخص نے سب سے پہلے گھوڑا سدھایا، اُسے مانوس کیا اور پھر اُس پر سواری کی، وہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام تھے۔
اس سے پہلے گھوڑا ایک وحشی جانور تھا۔ حضرت عبداللہ بن عُمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا’’گھوڑوں کو اپنائو اور ان پر سواری کرو، یہ تمہارے باپ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی میراث ہیں۔‘‘(البدایہ و النہایہ180/1)۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے بنو جرہم سے عربی زبان سیکھی۔ 14 سال کی عُمر میں آپؑ نہایت فصیح و بلیغ عربی بولتے تھے۔(ابنِ کثیر) عربی کے علاوہ آپؑ کو قبطی اور عبرانی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔
حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے اپنی پوری زندگی مکّہ مکرّمہ ہی میں گزاری۔ 137سال کی عُمر میں آپؑ کا وصال ہوا۔ آپ کو اپنی والدہ کے ساتھ کعبے کے برابر حجر کے اندر (حطیم میں) سُپردِ خاک کیا گیا۔ (طبقات ابنِ سعد 68/1)۔ (جاری ہے)