• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکہ مکرمہ: ماضی و حال کے آئینے میں (قسط نمبر 3)

متبرّک و محترم جگہ

سیّدہ ہاجرہؑ کا زیادہ تر وقت عبادتِ الٰہی میں گزرتا۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی کبھی یہ بات نہ آئی تھی کہ آج جس مخدوش جھونپڑی میں بے سرو سامانی کے عالم میں بیٹھی ہیں، آنے والے دنوں میں یہ جگہ دُنیا کی سب سے متبرّک و محترم ہوگی اور یہاں ایسا عظیم الشّان مقدّس شہر آباد ہو گا، جس کی زیارت کی خواہش دُنیا کے ہر مسلمان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوگا اور جہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے رَبّ کے حضور عاجزی و انکساری کی تصویر بنا صدا لگا رہا ہوگا،’’ لبّیک اللّھم لبّیک،‘‘یعنی’’ حاضر ہوں، اے اللہ مَیں حاضر ہوں۔‘‘

قبیلہ جرہم کی آمد

حضرت ہاجرہؑ اپنے فرزندِ اَرجمند کی معیّت میں زندگی کے شب و روز عبادتِ الٰہی میں صَرف کر رہی تھیں۔ اُنہیں یقینِ کامل تھا کہ اللہ تعالیٰ جلد بہتری کے معاملات فرمائیں گے۔ ایک دن اچانک عرب کے بنو جرہم کا ایک قبیلہ، جو شام جانے کے لیے نکلا تھا، راستہ بھول کر اُس طرف آ نکلا۔ اُس نے دیکھا کہ ایک آبی پرندہ فضا میں گشت کررہا ہے۔ یہ بات اُن لوگوں کے لیے نہایت تعجب خیز تھی ،کیوں کہ یہ وہ سنگلاخ بیابان وادی تھی کہ جہاں کوسوں دُور تک پانی کا نام و نشان نہیں تھا، لیکن آبی پرندوں کی جوڑی اِس بات کا ثبوت تھی کہ قرب و جوار میں کہیں نہ کہیں پانی ضرور موجود ہے، لہٰذا قبیلے کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ تحقیق کی جانی چاہیے، چناں چہ نوجوانوں کے ایک گروہ کو یہ کام سونپا گیا۔ 

یہ لوگ پرندے کی پرواز کی جانب کھوج لگاتے ہوئے اُس مقام تک پہنچ گئے، جہاں اُنہوں نے حیرت و استعجاب کے ساتھ ایک جھونپڑی کے نزدیک پانی کا ایک چشمہ دیکھا۔ یہ منظر کسی خوش نُما خواب سے کم نہ تھا۔ یہ نوجوان فوری طور پر اپنے قبیلے کی جانب دوڑے اور اہلِ قبیلہ کو اس خوش خبری سے آگاہ کیا۔ قبیلے کے لیے اس لق ودق ویرانے میں پانی کا مل جانا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ چناں چہ قبیلے کے بزرگ فوری طور پر اس جھونپڑی کے پاس پہنچے اور حضرت ہاجرہؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر وہاں رہنے کی اجازت کی طلب کی۔ 

حضرت ہاجرہؑ نے قبیلے والوں کو اجازت دے دی، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ چشمے کے جملہ مالکانہ حقوق حضرت ہاجرہؑ کے نام محفوظ رہیں گے اور قبیلے والے کبھی اس پر قابض ہونے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اہلِ قبیلہ نے اس شرط کو نہایت خندہ پیشانی سے قبول کیا ۔اِس طرح پورا قبیلہ باہم شِیر و شکر ہو کر رہنے لگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام وقتاً فوقتاً اپنے بیوی بچّے کی خبرگری کے لیے برّاق پر سوار ہو کر تشریف لاتے رہتے تھے۔ (بخاری شریف، جِلد اوّل، کتاب الانبیاء، صفحہ 7)۔

حضرت ابراہیمؑ کا خواب

تیرہ سال کا طویل عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو خواب میں حکم دیا گیا کہ اپنی محبوب ترین چیز اللہ تعالیٰ کے نام پر قربان کر دو۔ یہ حکم مسلسل تین راتوں تک خواب میں دیا جاتا رہا۔ 8 ذی الحجہ کی رات پہلی بار جب یہ خواب نظر آیا، تو متفکّر ہوگئے کہ یہ مِن جانب اللہ ہے یا شیطانی وسوسہ۔ اسی نسبت سے اس دن کا نام یوم الترویہ پڑ گیا۔ دُوسری رات پھر وہی خواب نظر آیا، تو آپ کو یقین ہوگیا کہ یہ حکمِ الٰہی ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کو’’ یومِ عرفہ‘‘ کہا گیا۔ 

تیسری رات جب پھر ایسا ہی خواب نظر آیا، تو آپؑ کو یقینِ کامل ہوگیا کہ اپنے لختِ جگر کی قربانی کا حکم دیا جا رہا ہے، چناں چہ10 ذی الحجہ کے اس دن کو’’ یوم النحر‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا۔ صبح بیدار ہوتے ہی آپؑ برّاق پر سوار ہو کر مکّے کی جانب روانہ ہوگئے۔ جواں سالہ جگر گوشے، حضرت اسماعیلؑ کو خواب کی کیفیت سے آگاہ کیا۔ اللہ نے اِس واقعے کا ذکر قرآن میں یوں فرمایا ہے،’’اے بیٹا! مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) مَیں تم کو ذبح کر رہا ہوں، تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ (اطاعت شعار بیٹے نے اپنے سر کو تسلیمِ خم کرتے ہوئے مؤدّبانہ لہجے میں فرمایا) ابّا! جو آپؑ کو حکم ہوا ہے، وہی کیجیے، اللہ نے چاہا تو آپؑ مجھے صابروں میں پائیں گے ۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت، 102:37)۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا یہ سعادت مندانہ، خُوب صُورت جواب دُنیا بھر کے بیٹوں کے لیے آدابِ فرزندگی کی شان دار مثال ہے۔ اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو علّامہ اقبالؒ نے عشقِ اسماعیل علیہ السّلام میں ڈوب کر یوں بیان کیا۔’’یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی…سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔‘‘

منیٰ کی جانب سفر اور شیطان کا ورغلانا

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیٹے کا جواب سُنا، تو اُنہیں سینے سے لگایا اور حضرت ہاجرہؑ کے پاس لے آئے۔ فرمایا’’ اے ہاجرہؑ! آج ہمارے نورِ نظر کو آپ اپنے ہاتھوں سے تیار کر دیجیے۔‘‘ممتا کے پاکیزہ، شیریں اور اَن مول جذبوں میں ڈوبی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نئی پوشاک پہنائی۔ آنکھوں میں سُرمہ، سر میں تیل لگایا اور خوش بُو میں رَچا بسا کر باپ کے ساتھ باہر جانے کے لیے تیار کر دیا۔ اسی اثنا ، حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ایک تیز دھار چُھری کا بندوبست کر چُکے تھے۔ 

بیٹے کو ساتھ لے کر مکّہ سے باہر منیٰ کی جانب چل دیے۔ شیطان نے باپ بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن لی تھی۔ اُس نے جب صبر و استقامت اور اطاعتِ خداوندی کا یہ رُوح پرور منظر دیکھا، تو مضطرب ہوگیا اور باپ بیٹے کو اس قربانی سے باز رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ چناں چہ جمرہ عقبیٰ کے مقام پر راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ موجود فرشتے نے کہا کہ’’ یہ شیطان ہے، اسے کنکریاں ماریں۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اُسے سات کنکریاں ماریں، جس سے وہ زمین میں دھنس گیا۔ ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ زمین نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ جمرہ وسطیٰ کے مقام پر پھر ورغلانے کے لیے آ موجود ہوا۔ 

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے پھر اسی طرح کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین میں دھنسا، لیکن ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ جمرہ اُولیٰ کے مقام پر پھر اپنے شیطانی وسوسوں کے ساتھ موجود تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے پھر’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین میں دھنس گیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ کو ابراہیم خلیل اللہؑ کا شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل اِس قدر پسند آیا کہ اسے رہتی دُنیا تک کے لیے حاجیوں کے واجبات میں شامل فرما دیا۔

حضرت ہاجرہؑ کی وفات

سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام کی عُمر مبارکہ 15؍سال ہوچکی تھی۔ آپؑ ایک خُوب رُو نوجوان کا رُوپ دھار چُکے تھے۔ والدہ کو اب اُن کی شادی کی فکر تھی۔ وہ اِس سلسلے میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے بات چیت کی منتظر تھیں، لیکن ذبحِ عظیم کے واقعے کے بعد وہ مکّہ مکرّمہ تشریف نہیں لائے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی پیرانہ سالی کے باوجود حضرت سارہؑ کے بطن سے ایک اور صاحب زادے، حضرت اسحاق علیہ السّلام عطا فرمائے تھے۔ 

حضرت اسحاق علیہ السّلام کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عُمر 100سال اور حضرت سارہؑ کی عُمر 90سال تھی۔ (قصص الانبیاء، مفتی محمّد شفیعؒ، ص232)۔ حضرت ہاجرہؑ اپنے چاند سے سعادت مند صاحب زادے کے لیے ایک خُوب صُورت و خُوب سیرت دلہن کی تلاش میں تھیں کہ ایک صبح اچانک داعیٔ اجل نے موت کا پروانہ جاری کردیا۔ شفیق و رفیق، غم گسار و غم خوار ماں کی جدائی ناقابلِ برداشت تھی۔ شفقتِ پدری سے پہلے ہی دُور تھے۔ 

ایک ماں ہی تو تھی، جس کی آغوش میں سَر رکھ کے باپ کی محبّت اور ماں کی ممتا کا لُطف لیا کرتے تھے۔ ماں کی اچانک جدائی نے دل کی دنیا ویران کردی تھی۔ بنو جرہم کا پورا قبیلہ سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ خالی گھر کے در و دیوار سے آنے والی ممتا کی مہک نے بے قرار کردیا تھا، لہٰذا نہایت دل برداشتہ ہو کر والدِ بزرگوار کے پاس مُلکِ شام جانے کا ارادہ فرمایا۔ (تاریخ مکّہ مکرّمہ، محمّد عبدالمعبود، ص105)۔

سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام کا عقد

بنو جرہم کے لوگوں کو حضرت ہاجرہؑ کے بعد سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام کی جدائی گوارا نہ تھی۔لہٰذا اُنھوں نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام سے عاجزانہ درخواست کی کہ وہ اُنہیں چھوڑ کر نہ جائیں۔ اس کے ساتھ ہی اُن کے ویران گھر کو آباد کرنے کے لیے قبیلے کی ایک حَسین ترین دوشیزہ، عمارہ بنتِ سعید سے اُن کا نکاح کردیا۔ اُدھر دو سال کا طویل عرصہ گزر چُکا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اہلیہ اور لختِ جگر کی یاد نے ستایا، چناں چہ ایک دن مُلکِ شام سے طویل سفر کرکے مکّہ مکرّمہ پہنچے۔ گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، عمارہ دروازے پر آئیں،تو آپؑ نے حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں دریافت کیا۔ جواب ملا کہ گھر پر نہیں ہیں۔ 

آپؑ نے پھر دریافت کیا ’’گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟‘‘ بہو نے تنگی و تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے شکوے، شکایت کا دفتر کھول دیا۔ آپؑ نے فرمایا’’ جب تمہارے خاوند آئیں، تو میرا سلام دینا اور کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دیں۔‘‘ آپؑ کو اپنے سعادت مند صاحب زادے کی اہلیہ کی بدمزاجی سے دُکھ ہوا، چناں چہ فوری طور پر مُلکِ شام واپس چلے گئے۔ شام کو حضرت اسماعیل علیہ السّلام گھر تشریف لائے،تو دروازے پر والدِ محترم کی مخصوص خُوش بُو محسوس کرکے جلدی سے اندر گئے اور اہلیہ سے دریافت کیا کہ’’ کیا کوئی مہمان آیا تھا؟‘‘ بیوی نے جواب دیا’’ ہاں! ایک اجنبی بوڑھا شخص آیا تھا، جس نے تمہارا پوچھا، پھر گھر کے حالات پوچھے، تو مَیں نے بتا دیا کہ اچھے نہیں ہیں، نہایت پریشانی اور تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔‘‘ حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے استفسار کیا’’ کیا وہ کوئی پیغام دے گئے ہیں؟‘‘ بیوی نے کہا’’ جاتے ہوئے کہہ کر گئے ہیں کہ اسماعیلؑ آئے، تو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل لو۔‘‘ حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے دُکھ بَھرے لہجے میں فرمایا’’ اللہ کی بندی! وہ میرے والدِ محترم تھے، وہ مجھے پیغام دے گئے ہیں کہ تم کو طلاق دے دوں، لہٰذا مَیں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، حدیث 3364)۔

عقدِ ثانی

حضرت ابراہیم علیہ السّلام بہو کے ناشُکرے پَن،بدمزاجی کی وجہ سے واپس تو چلے گئے تھے، لیکن اُنہیں بیٹے کے ساتھ اپنی اہلیہ کی بھی فکر تھی، چناں چہ کچھ عرصے بعد پھر مکّہ تشریف لائے۔ گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیٹے کی اہلیہ نے دروازہ کھولا۔ یہ قبیلہ بنو جرہم کے سردار مضاض بن عمرو الجرہمی کی صاحب زادی تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام سے متعلق دریافت کیا،تو اُنھوں نے نہایت خوش دلی سے جواب دیا کہ’’ وہ شکار کو گئے ہیں، آپؑ گھر میں تشریف لائیں، کچھ دیر آرام کرلیجیے، اِتنی دیر میں اسماعیلؑ بھی آجائیں گے۔‘‘ 

اُنھوں نے نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ خوش آمدید کہا، پانی گرم کرکے اُن کا سر دھلوایا، وضو کروایا اور جو گھر میں موجود تھا، مہمان کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپؑ کی نظریں گھر میں چاروں جانب کسی چیز کی تلاش میں سرگرداں تھیں، آخرکار دل کی بات زبان پر آگئی۔ فرمایا’’ اسماعیل کے ساتھ اُن کی والدہ ہوتی ہیں، وہ نظر نہیں آرہیں؟‘‘خاتون نے افسردہ لہجے میں جواب دیا’’ بزرگ محترم! اُن کا تو کچھ عرصے پہلے انتقال ہوچُکا ہے۔‘‘ اہلیہ کی وفات کی خبر نے دل اداس کردیا۔ اس گھر کے ایک ایک کونے میں صابر و شاکر، جاں نثار رفیقۂ حیات کی خُوش بُو رچی بسی تھی۔ 

فوری طور پر جانے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔بہو نے لاکھ کہا کہ کچھ دیر آرام کرلیتے، لیکن مرحومہ اہلیہ کی یاد نے دل مضطرب و بے چین کردیا تھا۔ جاتے جاتے سوال کیا’’ تمہاری گزر اوقات کیسی ہے؟‘‘ بہو نے خوش کُن لہجے میں جواب دیا’’ محترم بزرگ! اس باری تعالیٰ کا بڑا احسان و شُکر ہے، جس نے ہمارے رزق میں بڑی برکت اور فراوانی رکھی ہے۔ 

ہم بڑے سکون و اطمینان اور راحت کے ساتھ اللہ کی یاد میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے افسردہ چہرے پر مُسکراہٹ کی ایک لہر آئی۔ براق پر سوار ہونے سے پہلے فرمایا’’ تمہارے شوہر آئیں، تو میرا سلام کہنا اور کہنا’’ تمہاری یہ چوکھٹ بہت عُمدہ ہے، اسے قائم و آباد رکھیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، حدیث3364)۔ (جاری ہے)