مون سون کے بادلوں نے اب کے یوں گریہ زاری کی ہے کہ سارے پاکستان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ہیں،لاتعداد لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، قیمتی مویشی گنوا چکے، گھر بار سے محروم ہو گئے، لہلہاتے کھیت اجڑ گئے، کھلیانوں کو تندوتیز پانی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ سارا پاکستان غم کی فضا میں جی رہا ہے اگرچہ زندگی چلتی رہتی ہے کبھی رُکتی نہیں لیکن اس بار تو یوں لگتا ہے کہ زندگی بھی رُک سی گئی ہے ۔
ہر حساس آدمی سیلاب زدگان سے کسی نہ کسی طرح اظہارِ یکجہتی کر رہا ہے لوگوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر امدادی کیمپ لگائے ہیں۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے والے سیاست دان بھی مروت میں امدادی کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں کیوںکہ انہیں سیلاب سے بچ جانے والوں سے ووٹ لینا ہیں۔ ہمارے ادیب اور شاعر بھی میدانِ عمل میں نکلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سیلاب زدگان کےلئے جھولیاں پھیلا دی ہیں۔ میں بھی ایسے کاموں میں کہاں پیچھے رہنے والا ہوں لیکن اس وقت خود میری اپنی صورتحال بھی سیلاب زدگان سے کچھ کم ابتر نہیں، اچھا بھلا پانچ کمروں کے کرایے کے بہترین مکان میں زندگی کے اچھے دن گزار رہا تھا کہ مالک مکان نے مکان چھوڑنے کا نوٹس دے دیا، فوری طور پر دو مرلے کا دو کمروں کا ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے لیا۔سارا سامان ادھر ادھر بکھرا پڑا ہے بہت مشکل سے سونے کی جگہ بنائی ہے بچے گلہ کرتے ہیں کہ میں نے اتنا چھوٹا مکان کیوں لیا؟ میں انہیں کہتا ہوں کہ ذرا سیلاب زدگان کی طرف دیکھو لاکھوں لوگ کیچڑ پر سونے پر مجبور ہیں وہ بے چارے باتھ روم میں جا سکتے ہیں نہ نہا سکتے ہیں ۔پانی ان کےسامنے بکھرا ہوا ہے لیکن انہیں پینے کا پانی میسر نہیں، پہننے کے لئے صاف لباس سے بھی محروم ہیں۔ میرے مکان میں گیس کی بھی پرابلم ہے، کبھی آتی ہے کبھی نہیں آتی۔ کھانے پینے کی زیادہ چیزیں بازار سے خریدنا پڑ رہی ہیں۔ میرے بچے جب میری توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرواتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ہم سب اس صورتحال میں دن رات گزار کر دراصل سیلاب زدگان سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں ۔ہمیں اللہ تعالیٰ نے باعزت روزگار دے رکھا ہے، ہم الحمدللہ بازار سے ہر چیز خرید کر کھا پی سکتے ہیں، سیلاب زدگان کو دیکھو، ان کے جسموں پر وہ لباس ہی نہیں رہے جن میں جیب ہوتی ہے اورلباس اگرہے بھی تو ان کی ساری جیبیں خالی ہیں وہ تو کچھ خرید کر کھا پی بھی نہیں سکتے ۔پھر میرے بچے کہتے ہیں کہ ہمارا سارا سامان بکھرا ہوا ہے بھلا یوں بھی کوئی رہتا ہے؟ میں کہتا ہوں ذرا سیلاب زدگان کی طرف دیکھو ان کے پاس ان کا سامان رہا ہی نہیں سب بہہ گیا ۔تم خوش قسمت ہو کہ تمہارے پاس یہ سامان ہے تو سہی کل ترتیب میں بھی آ جائے گا۔ میرے بچے یہ بھی کہتے ہیں کہ پچھلے مکان میں ایئر کنڈیشنز لگا ہوا تھا ، آپ نے اس مکان میں ابھی تک اے سی لگوایا ہی نہیں، یہ ظلم آخر کیوں ؟میں انہیں کہتا ہوں کہ یہ بھی ہمارا سیلاب زدگان سے یکجہتی کا اظہار ہے، لاکھوں لوگ اگر ٹیوب لائٹس، پنکھوں اور اے سی کے بغیر کھلے آسمان تلے سو سکتے ہیں تو ہم پنکھے کی ہوا میں کیوں نہیں سو سکتے ؟وہ بھی تو آخر انسان ہی ہیں، ان کا غم ہم سے زیادہ ہے ان کا غم زیادہ دنوں تک ان کے ساتھ رہنے والا ہے ہمارا اےسی تو کبھی نہ کبھی لگ ہی جائے گا اور ہم ایک بار پھر معمول کی زندگی گزارنے لگیں گے۔ بچے چونکہ بچے ہی ہوتے ہیں وہ ہم بڑوں کی طرح نہیں سوچتے وہ زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں ہم اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں جس طرح ہمیں بھی زندگی کو سمجھنے میں چالیس پچاس سال لگے ہیں اس طرح وہ بھی وقت گزرنے کےبعد دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کے قابل ہوں گے لیکن یہ میری غلط فہمی تھی۔ اگلے دن میں اپنے بچوں کے ساتھ اپنی گاڑی میں کرائے کا نیا مکان دیکھنے جا رہا تھا ایک جگہ انہوں نے سیلاب زدگان کےلئے امدادی سامان اور چندہ جمع کرنے کے لئے لگایا ہوا ایک کیمپ دیکھا تو سب نے گاڑی رُکوالی۔ میں نے دروازے کھولے تو چاروں بچے تیزی سے باہر گئے سب نے اپنی اپنی جیب سے کچھ رقم نکالی اور شیشے کے اس صندوق میں ڈال دی جس میں پہلے سے بہت سے روپے پڑے ہوئے تھے، میرے بچوں کی سمجھ میں میری بات آ گئی تھی درد کی جو دولت مجھے بہت وقت گزرنے کے بعد ملی تھی میرے بچوں کو سیلاب نے وقت سے پہلے ہی عطا کر دی ۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ آج اگرآپ کی زندگی میں کچھ مسائل ہیں تو انہی مسائل کے ساتھ جینا سیکھئے اگر آپ کی زندگی مشکل ہے تو ان کی طرف دیکھ لیجئے جن کی زندگی بہت ہی مشکل ہے اگر آپ کی زندگی میں دکھ ہےتو ایک دفعہ ان کی طرف بھی دیکھ لیجئے جنہوں نے خوشی کا صرف نام ہی سنا ہے ، کبھی محسوس نہیں کی۔ آپ اگرایسے لوگوں کی طرف دیکھتے رہیں گے تو آپ کو اپنی زندگی اچھی لگنے لگے گی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش ہی نہ کریں کوشش ہی زندگی کا دوسرا نام ہے اس لئے میں نے بھی ابھی سے دو کمروں کا کرائے کا مکان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور چار کمروں کا مکان تلاش کرنا شروع کر دیا ہے ۔
اٹھائے پھرتے ہیں ہر لمحہ گھر کو کاندھے پر
ہم اپنے شہر میں رہ کر بھی ہجرتوں میں رہے