• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔گزشتہ 74 برسوں کے دوران کبھی یہ کردار کم رہا اور کبھی ایک حد سے تجاوز بھی کرگیا۔عمومی تاثرہے کہ ملک میں حکومت کی تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر بادکے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بھی اسٹیبلشمنٹ نے براہ راست فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر معاملا تِ حکومت کو ہینڈل کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج کچھ اچھے نہ نکلے۔ایسی صورت میں حکومت کیساتھ ساتھ اس کو بھی اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔عمران خان کے دور حکومت کے کارناموں کی فہرست طویل مگر سب سے زیادہ عمران خان نے اسی سپورٹ کی قیمت ادا کی ہے۔جس سیاسی جماعت یا جمہوری حکومت نے اپنے منشور اور کارکردگی کو چھوڑ کر صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کیا ،وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان جیسے سیکورٹی اسٹیٹ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو محدود نہیں کیا جاسکتا ،بلکہ ہماری جغرافیائی حیثیت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسی سیکورٹی اداروں کو اعتماد میں لے کر تیار کی جائے۔مشرقی و مغربی بارڈر پر کشیدگی ہمارے دفاعی بجٹ کی اہمیت کو مزید اجاگر کردیتی ہے ،اس لئے منتخب حکومتوں کو وزارت خزانہ کے معاملات میں بھی راولپنڈی کو آن بورڈ رکھنا پڑتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ منتخب حکومتیں گورننس اور سروس ڈیلیوری صفر کرکے سوچیں کہ کچھ نہیں ہوگا ،کیونکہ ہمیں ملک کے طاقتور ترین ادارے کی سپورٹ حاصل ہے۔جو کچھ اکتوبر 21کے بعد عمران خان کے ساتھ ہوا ،اس میں حساس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے معاملے پرپیدا ہونے والی تلخی ضرور ایک وجہ تھی لیکن اصل معاملہ عمران خان اور تحریک انصاف کی ساڑھے تین سال کی کارکردگی تھی۔عمران خان یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے ساڑھے تین سال ڈرائیونگ سیٹ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کئے رکھی تو شاید انہیں اب کوئی ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گا۔یہی جمہوری حکومتوں کی سب سے بڑی بھول ہوتی ہے۔ منظور نظر بننے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کارکردگی کے بارے سوال نہیں پوچھا جائے گا۔اچھی کارکردگی تو اتنا مضبوط ہتھیار ہے کہ بڑی سے بڑی تلخی بھی نظر انداز ہوجاتی ہے۔اگر عمران خان نے ساڑھے تین سال ڈیلیور کیا ہوتا تو شاید اکتوبر21والی تلخی بھی دور ہوجاتی۔

آج مسلم لیگ ن و اتحادی جماعتوں کی حکومت کو آئے تقریباً پانچ ماہ ہوچکے ہیں۔حکومت میں شامل ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کےرہنماپریشان ہیں کہ ایسا کیا ہوا کہ پانچ ماہ میں ان کی مقبولیت کا شیرازہ بری طرح بکھر گیا۔پنجاب کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر مسلم لیگ ن کو پنجاب میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔سندھ میں پیپلزپارٹی کے حوالے سے بھی اطلاعات کچھ اچھی نہیں ہیں۔دونوں جماعتیںدن رات ایک ہی بات سوچ رہی ہیں کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ مقبولیت کا گرا ف تیزی سے نیچے آگیا ہے۔اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے ’’مکافات عمل‘‘۔عمران خان کی حکومت جس بنیاد پر ختم ہوئی وہ مکافا ت عمل تھامگر وہ مکافات عمل کا آغاز تھا۔مارچ میں عد م اعتماد جمع کرانے کے بعد ایک ماہ کے دوران جو کچھ ہوا،سب مکافات عمل تھا۔جس کے بل بوتے پر عمران خان صاحب مخالفین کو جیلوں میں ڈلواتے تھے،انہی کی گاڑیاں پارلیمنٹ کے باہر رات گئے ان کے لئے کھڑی تھیں۔جن عدالتوں نے عمران خان کو سب سے زیادہ ریلیف دیا وہی آدھی رات کو کھل چکی تھیں۔عمران خان کے لئے اس مکافات عمل کا سامنا کرنا بہت پریشان کن تھا۔مگر ابھی مکافات عمل مکمل نہیں ہوا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اس کے درمیان میں آ گئے ۔ مکافات عمل کا شکار صرف عمران خان کو نہیں ہونا تھااور بھی بہت سے کردار تھے۔مگر مسلم لیگ ن اور پی پی پی نے مکافات عمل کے پہیہ کو آدھا سفر طے کرنے کے بعد روکنے کی کوشش کی۔اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ پانی کے تیز بہاؤ کے سامنے ریت کی رکاوٹ کھڑی کردیں۔نتیجہ میں پانی تو بہتا ہی ہے مگر ریت کا نام و نشان مٹا دیتا ہے۔مسلم لیگ ن اور پی پی پی اس مکافات عمل میں اسی ریت کی رکاوٹ ثابت ہوئی ہیں۔جب آپ قانونِ قدرت کے خلاف کوئی بھی عمل کریں گے تو نتیجہ وہی ہوگا ،جو مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے ساتھ ہوا ہے۔باقی مفتاح اسماعیل جیسے لوگ تو صرف بہانہ بنتے ہیں۔اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر مسلم لیگ ن یہ سمجھتی تھی کہ وہ عمران خان کو لانے والوں کا بوجھ بھی اٹھا سکتی ہے۔مگر کسی کا بوجھ توکیا اٹھانا تھا ،خود اپنے غلط فیصلوں کے بوجھ تلے دبتی چلی گئی۔وہ مسلم لیگ ن جس کے خلاف پنجاب میں امیدوار تلاش کرنا مشکل ترین کام ہوتا تھا۔آج اسے اپنا ٹکٹ دینے میں مشکل کا سامنا ہے۔وجہ صرف ایک ہے کہ آپ اپنی مقبولیت کے نشے میں مکافات عمل جیسے قدرتی عمل میں رکاوٹ بنے۔اہم بات یہ ہے کہ آپ کی رکاوٹ کے باوجود مکافات عمل کا پراسس مکمل ہوگا ،شاید اس کے اثرا ت بھی مزید سخت ہوجائیں مگر اس سارے معاملے میں آپ اور آپ کی جماعت مفت میں رگڑے گئے ہیں۔دوسروں کو مدد فراہم کرتے کرتے آج آپ خود مدد کے طلب گار ہیں۔ایسے کھیل میں خود کو پھنسایا ہے کہ کسی کو بچاتے بچاتے اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اب بھی وقت ہے اللہ سے معافی مانگیں اور آئندہ کبھی مکافات عمل میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ مکافات عمل کا سامنا کرنے والوں کے لئے بھی یہی عرض ہے کہ اس سے بچنے کا واحد حل توبہ ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ بہت غفور الرحیم ہے۔

تازہ ترین