• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرطان ایک ایسی بیماری ہے، جو کئی اعتبار سے خطرناک اور تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے کہ جہاں مریض سرطان سے متعلقہ طبّی، جسمانی تکالیف برداشت کرتا ہے، وہیں اہلِ خانہ جذباتی ہی نہیں، مالی طور پر بھی کئی پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں ،کیوں کہ اس بیماری کی تشخیص اور علاج کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ تاہم، یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اس خطرناک بیماری سے محفوظ رہا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے سرطان سے متعلق بنیادی معلومات سے آگاہی ازحدضروری ہے۔ ہمارا جسم مختلف خلیات سے مل کر بنتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے ان خلیات کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک جامع نظام تشکیل دیا ہے اور اگر خدانخواستہ اس فطری نظام میں کسی بھی وجہ سے کوئی بگاڑ پیدا ہوجائے، تو پھر نہ صرف خلیات کی افزایش غیر ضروری طور پر بڑھ جاتی ہے، بلکہ پُرانے اور ناکارہ خلیات بھی اپنی جگہ موجود رہتے ہیں، نتیجتاً جسم کے جس حصّے میں خلیات کا نظام بے قابو ہوجاتاہے، وہاں غیر ضروری خلیات گلٹی کی صُورت جمع ہونے لگتے ہیں۔ طبّی اصطلاح میں یہی اضافی خلیات درحقیقت سرطان کا عارضہ کہلاتے ہیں۔ 

واضح رہے، خلیات کی اس غیر معمولی افزایش کا عمل کسی ایک عضو تک محدود نہیں رہتا، بلکہ دیگر اعضاء کو بھی متاثر کردیتا ہے۔جیسا کہ اگر کسی فرد کو زبان کا سرطان لاحق ہو توساتھ ہی گلا بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ اِسی طرح پھیپھڑوں کے سرطان میں جگر اور دماغ متاثر ہوجاتے ہیں۔ یوں پورا جسم اس بیماری کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ دُنیا بَھر میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق سرطان لاحق ہونے کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں، تاہم ان میں موروثی عوامل کا حصّہ صرف پانچ فی صد ہے، باقی پچانوے فی صدکیسز میں 33فی صد کی وجہ تمباکو نوشی، پان، چھالیا اور گٹکے کا استعمال،18فی صد میں انفیکشن اور 12فی صد میں الکوحل کا استعمال وجہ بنتا ہے۔

اس کے علاوہ دیگر اسباب میں وزن میں اضافہ، ورزش نہ کرنا، جنک فوڈز، کولڈ ڈرنکس، باربی کیو، ماحولیاتی آلودگی، کیمیکلز اور آلودہ پانی وغیرہ شامل ہیں۔ واضح رہے، سرطان کا مرض اس وقت دُنیا بَھر میں اموات کا سبب بننے والے عوارض میں سرِفہرست ہے۔ یہ مرض ہر عُمر کے فرد کو متاثر کرسکتا ہے، جس میں بچّے بھی شامل ہیں۔ البتہ بچّوں میں سرطان کی شرح بڑوں کے مقابلے میں بہت کم پائی جاتی ہے، لیکن اب کم سن مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی کے ایک معروف اسپتال، انڈس اسپتال نے مختلف اداروں کے کوائف پر مشتمل جو اعدادوشمار جاری کیے ہیں، اُن کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 8 سے9 ہزار بچّے سرطان کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یوں توبچّوں کے سرطان کی کئی اقسام ہیں، تاہم، زیادہ تر بچّے خون کے سرطان سے متاثر ہوتے ہیں، جسے طبّی اصطلاح میں "Leukemia" کہا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سرطان کے شکار ہر ایک سو بچّوں میں سے 35خون کے سرطان کا شکار ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر lymphoma یعنی غدودکا سرطان ہے، جس سے15فی صد بچّے متاثر ہوتے ہیں، جب کہ تیسرے نمبر پر برین ٹیومر ہے۔ علاوہ ازیں، بچّوں میں ایک اور مُہلک سرطان بھی بچّوں میں پایا جاتا ہے، جسے "Retinoblastoma" کہا جاتا ہے۔ سرطان جسم کے جس عضو کو اپنا نشانہ بناتا ہے، علامات بھی اُس ہی مناسبت سے ظاہر ہوتی ہیں۔ جیسا کہ بلڈ کینسر میں مبتلا افراد کو خون کی کمی، جِلد کی پیلی رنگت اور سفید خلیات کے غیر متوازن ہونے کے باعث کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مثلاً بخار، انفیکشن اور ہڈیوں میں درد وغیرہ۔ اگر علاج کے باوجود علامات 2ہفتے تک برقرار رہیں، تو پھر سی بی سی ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے۔ غدود کے سرطان کی علامات میں بنیادی علامت گردن میں گلٹی بننا ہے،جب کہ برین ٹیومر میں سَر درد، متلی اور اکثر بچّوں کو چلنے میں لڑکھڑاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ Retinoblastoma اور آنکھوں کے دیگر مسائل کی بنیادی علامات میں بھینگا پَن یا اندھیرے میں بلّی کی طرح آنکھوں کا چمکنا شامل ہیں۔ تاہم، کسی بھی علامت کو حتمی طور پر سرطان قرار نہیں دیا جاسکتا۔اگر سرطان کے علاج کی بات کریں، تو یہ ایک قابلِ علاج مرض ہے بشرطیکہ بروقت تشخیص کے ساتھ مکمل علاج کروایا جائے۔ 

ترقّی یافتہ مُمالک میں بچّوں میں سرطان کے کام یاب علاج کی شرح 80 فی صد پائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ترقّی پذیر مُمالک میں یہ شرح 30فی صد تک ہے،جس کی وجہ بالعموم مناسب علاج دستیاب نہ ہونا ،تشخیص یا پھر علاج میں تاخیر ہے۔ ہمارے یہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق سرطان تشخیص ہونے کے باوجود 40 سے 45 فی صد بچّے علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہر سطح تک بلا تفریق تشخیص وعلاج کی سہولتوں تک رسائی سہل اور معیار بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ اکثر بچّے کم عُمری ہی میں کچھ خراب عادات کا شکار ہوجاتے ہیں، جو آگے چل کر کینسر کا سبب بن جاتی ہیں۔ 

ان عادات میں سرِفہرست پان، چھالیا اور گٹکے کا استعمال ہے۔ اس کے علاوہ اکثر بچّے ورکشاپس میں بھی کام کرتے ہیں، تو وہاں موجود کیمیکلز سے بچاؤ کے ساتھ کلرز والی ٹافیوں یا بسکٹس سے بھی احتیاط برتنی چاہیے۔ واضح رہے، بچّوں میں جہاں سرطان کے علاج کی کام یابی کا انحصار بروقت تشخیص اور مکمل علاج پر ہے، وہیں یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ زیادہ تر بچّوں میں دِل، جگر اور پھیپھڑوں کے وہ عوارض نہیں پائے جاتے، جن میں بڑی عُمر کے افراد مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کم عُمر بچّے تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا نہیں ہوتے۔ وہ غیر متوازن غذا کا استعمال نہیں کرتے، غذائی ملاوٹ اور ذہنی پریشانیوں سے محفوظ ہوتے ہیں۔ 

پھر بچّوں میں کیموتھراپی بھی بے حد مؤثر ثابت ہوتی ہے،توان ہی تمام تر وجوہ کی بنا پر بچّوں میں سرطان کے علاج کی کام یابی کی شرح بُلند ہے۔ انڈس چلڈرن کینسر اسپتال کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں50سے60 فی صد بچّے مکمل طور پر صحت یاب ہو کر نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ خون کے سرطان سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ورزش کو معمول کا حصّہ بنالیا جائے، ورزن کنٹرول میں رہے، تمباکو نوشی، پان، چھالیا، گٹکے اور الکحل سے اجتناب برتا جائے، تازہ موسمی پھل اپنے غذائی شیڈول میں لازماً شامل کیے جائیں۔ اس کے علاوہ دھوپ ،حولیاتی آلودگی، تاب کاری اور کیمیکلز وغیرہ سے بچیں اور پروسیسڈ فوڈز کے استعمال سے پرہیز کریں۔ اگر فیملی ہسٹری میں بلڈ کینسر شامل ہو، تو معالج کے مشورے پر سالانہ معائنہ اور ضروری ٹیسٹ لازماً کروائیں۔ (مضمون نگار،معروف انکولوجسٹ، انسٹی ٹیوٹ آف نیو کلیئر میڈیسن اینڈ انکولوجی (انمول)کے بانی ڈائریکٹر اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے بانی صدر ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید