میاں محمد شہباز شریف شاعروں اور عاشقوں کی طرح دل سے سوچتے ہیں اور جذباتیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بڑے بڑے فیصلے اور اعلان کر گزرتے ہیں، بعد میں وہ اپنے فیصلوں اور اعلانات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ وزارت عظمی کے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی انھوں نے جہاں اور بہت سے فیصلے اور اعلانات کیے تھے وہاں انھوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں فوری اضافے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ایک ایک پیسے کا حساب رکھنے والے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ان کی جذباتیت پر بند باندھنے میں یوں کامیاب ہوئے کہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کو بجٹ تک کھینچ کر لے گئے۔ اب یہ اضافہ حاضرسروس اور ریٹائرڈ ملازمین کو مل رہا ہے لیکن تین مہینے وہ انتظار کی سولی پر لٹکتے رہے۔ جب وزیرخزانہ نے بار بار کہا کہ ملک کے مالی حالات ٹھیک نہیں تو ملازمین میں کھلبلی مچ گئی۔وہ بجا طور پر سمجھتے رہے کہ شاید اب میاں شہباز شریف بھی اپنے پیش رو عمران خان کی طرح یوٹرن لے لیں گے لیکن ہر جذباتی آدمی کی طرح میاں صاحب بھی ہٹ کے پکے نکلے اور اپنے اعلان پر عمل کرا کے رہے۔
میاں شہباز شریف بنیادی طور پر ایک صنعت کار ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے وہ آجر اور اجیر کے رشتے سے آگاہ ہیں۔مزدوروں اور غریبوں کے دکھ کو جانتے ہیں۔ان کے آنسو پونچھنے کی بات کرتے ہیں لیکن شاید ای او آئی بی پنشن لینے والے بزرگوں کی طرف ابھی تک ان کا دھیان نہیں گیا۔ساری عمر فیکٹریوں کے دھویں اور شور شرابے میں گزار دینے والے معمر افراد انھیں نظر ہی نہیں آئے۔یہ لوگ آج ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہانہ پنشن لے رہے ہیں۔اس "بھاری" رقم سے یہ بوڑھے لوگ آٹا خریدیں یا دوائیں؟ مکان کا کرایہ ادا کریں یا بجلی کا بل جمع کرائیں؟بچوں کی شادیاں کریں یا اپنے کفن دفن کا پیشگی بندوبست کریں؟ان بزرگوں کے لیے اپنی شادی شدہ بیٹیوں کے گھروں میں جانا بھی ناممکن ہو چکا ہے۔اگر کسی کی بیٹی دو چار سو کلومیٹر دور رہتی ہو تو ساری پنشن صرف کرائے کی مد ہی میں خرچ ہو جاتی ہے۔ہماری روایت ہے کہ باپ بیٹی کے گھر کبھی خالی ہاتھ نہیں جاتا لیکن یہ بزرگ اپنی دور بیاہی بیٹیوں کو ایک موبائل کال کر کے ہی خوش کرنے پر مجبور ہیں۔فون پر ہی عید مبارک کہہ دیتے ہیں اور فون ہی پر اپنی آواز سنا کر اپنی خیریت سے آگاہ کرتے ہیں۔
ای او بی آئی ایک ایسا ادارہ ہے جس کے پاس مزدوروں کے اربوں روپے جمع ہیں۔جن اداروں میں یہ مزدور کام کرتے ہیں ان کے مالک پنشن کی مد میں ہر ماہ ایک خطیر رقم جمع کرتے ہیں۔ای او بی آئی کی پنشن دراصل کنٹری بیوشنری پنشن ہے۔اس ادارے کے پاس مزدوروں کے اربوں روپے ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کا حکومت پر بوجھ ہوتا ہے لیکن ای او بی آئی پنشن کا حکومت پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔حکومت کے خزانے سے اس مد میں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔اس کے باوجود پتا نہیں کیوں حکومت ہر بار ان بوڑھے پنشنرز کو بھول جاتی ہے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی طرح ان کی پنشن میں بھی ہر سال ایک معقول اضافہ ہونا چاہیے۔
ان بوڑھے ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی وجہ بظاہر یہی دکھائی دیتی ہے کہ صنعتی اداروں کے بیش تر مالکان کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے۔یہی لوگ ایم این اے اور ایم پی اے بن کر سارا نظام حکومت چلاتے ہیں یا اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز پر سرمایہ کاری کرتے ہیں تاکہ وہ ایوان اقتدار میں بیٹھ کر ان کے مفادات کا تحفظ کریں۔یہی وجہ کہ حکومت جب بھی بجٹ میں مزدوروں کی کم از کم تنخواہ میں اضافہ کرتی ہے تو سرمایہ دار اور صنعت کار اس فیصلے پر عمل درآمد ہی نہیں کرتے اور حکومت کے پاس کوئی ایسا نظام نہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر عمل کرا سکے۔یوں مزدور اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں اور مجبورا" اسی تنخواہ پر کام کرتے رہتے ہیں جو ان کے آجر نے مقرر کی ہوتی ہے۔جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان اس وقت سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں کا شکار ہیں۔پورے پاکستان کی طرح لاکھوں بزرگ مزدور پنشنرز ان سیلاب زدہ علاقوں میں بھی کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ساڑھے آٹھ ہزار روپے میں تو ایک خیمہ بھی نہیں آتا۔ای او بی آئی پنشن پانے والے بزرگ مزدور جب ای او بی آئی کے افسروں کے اللے تللے دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو روتے ہیں۔اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور بااثر سیاست دان جب چاہیں ای او بی آئی سے بھاری رقم بطور قرض لیتے ہیں اور نئی فیکٹریاں لگا لیتے ہیں لیکن جن مزدوروں کی خون پسینے کی کمائی سے یہ ادارہ چلتا ہے، انھیں سسک سسک کر جیتے اور مرتے دیکھتے ہیں۔
اگر وزیراعظم واقعی غریب مزدوروں کے طرف دار اورحامی ہیں تو اپنی جذباتیت کی آنکھ سے ذرا ان بوڑھے مزدوروں کی طرف بھی دیکھیں۔ان کی پنشن کم از کم پچیس ہزار تو کریں۔اگرچہ یہ رقم بھی کچھ زیادہ نہیں۔اس سے بجلی کا بل ہی ادا کیا جا سکتا ہے لیکن بزرگ پنشنرز کی اشک شوئی تو ہو سکتی ہے۔آخر میں امریکا میں مقیم شاعرہ الماس شبی کی یہ سیلابی غزل ملاحظہ کیجیے:
وہ جی اٹھنے کے میرے پھر ، سہانے خواب سارے ہی
بہا کر لے گیا پانی مرے اسباب سارے ہی
ذرا سا ابر مانگا تھا خزانے سے ترے مالک
تری دریا دلی سے آئے زیرِ آب سارے ہی
نظر جب پڑ گئی ہو گی اچانک عکس پر اپنے
الٹ کر رکھ دیئے ہونگے تو پھر تالاب سارے ہی
تعاقب میں مرے کیوں آج کل ہیں سب بتا اے دوست
یہ سب طوفان ،ساری آندھیاں ، سیلاب سارے ہی
دکھائی کچھ نہیں دیتا سجھائی کچھ نہیں دیتا
کہ اب تو ہوگئے ہیں شل مرے اعصاب سارے ہی
الٰہی حوصلہ دے دے مری اِس بے بسی پر تْو
بھلا ڈالے اک آفت نے ادب آداب سارے ہی