• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت کہ جب اپریل کے درمیانی دِنوں کی معتدل ہوائوں کے صدقے ٹنڈ منڈ درختوں پر سفید ،گلابی شگوفے کِھل اُٹھے ہیں، ہم گھر کی عقبی بالکونی میں کھڑے تاریخ میں پور پور ڈوبے، اس شہر سے کہتے ہیں۔’’ارے، آج کے بیجنگ، گزرے کل کے پیکنگ، مجھے تو شام کے پہلے پہر تم سے رخصت ہوجانا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ اب بس تھوڑے ہی دنوں میں بیجنگ، پھولوں کی چادروں سے سجا دل رُبا سا شہر نظر آنے والا ہے۔میرے پیارے، تمہارا یہ دُلہن سا رُوپ میں نہیں دیکھ سکوں گی، تو کیا ہوا، باقی لوگ تو دیکھیں گے، میری دُعا ہے کہ تم ہمیشہ ایسے ہی سجے سنورےرہو۔ 

ہمارے برّصغیر کے ایک بڑے گلوکار کایہ گیت تم نے کہاں سنا ہوگا؎ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے…افسوس ہم نہ ہوں گے۔اب بھلا تم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ رازِ زندگی بس اسی آنے اور چلے جانے میں مضمر ہے۔‘‘بالکونی کی اِس جگہ سے رِنگ روڈ نمبر 2پر گاڑیوں کی بھاگ دوڑ معمول کی طرح جاری تھی۔ سامنے گہری سُرمئی رنگت کی عظیم الشّان عمارت ہے، جس کی چھت پر لگا سُرخ جھنڈا، تیز ہوائوں کے زور سے پھڑ پھڑاتا، لہراتا رہتا ہے۔یہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا سیاسی دفتر ہے۔ہرروز صبح یہاں کچھ وقت گزارنا ہمارا معمول رہا ہے۔ 

چھدرے درختوں میں سے جھانکتے دروازے سے ہماری تصوّراتی آنکھ چین کے عظیم رہنمائوں کو کبھی اندر داخل ہوتے، تو کبھی باہر نکلتے دیکھتی رہتی کہ میچی میچی ،کچھ پچکی آنکھوں، پُھولے گالوں والے مائوزے تنگ، چواین لائی، ڈینگ یائوپینگ، ہوچن تائو اور شی چن پنگ آگے پیچھے فلسفے، اپنے سیاسی اور معاشی نظام اور چینی قوم کو نشاۃِ ثانیہ کے خوابوں اور ان کی تعبیروں کے منصوبوں کے ساتھ نظر آتے رہتے تھے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ مناظر، جو ہم آج دیکھ رہے ہیں، جس چِین میں ہم آج موجود ہیں، وہ مائو، چواین لائی اور ڈینگ کے زمانے کا نہیں ہے ۔ یہ تو نصف صدی کی عملی تصویر ہے، مگر نہیں، خواب تو یہ اِن بڑوں ہی کے تھے اور ان ہی کی جدّوجہد کے ثمرات بھی۔ ہاں، چِین کو خواب دِکھانے، تعبیریں دینے میں شی جن پنگ کا جواب نہیں، جس نے کس قدر خُوب صُورت بات کی تھی کہ ’’ہزار میل کے سفر کا آغاز، پہلے قدم ہی سے ہوتا ہے۔ بس اِس قدم کو لگن ، جذبے اور نیک نیّتی سے اٹھالو، تو اگلے قدوم خود بخود آسان ہوتے چلے جائیں گے۔‘‘

ہر روز کی طرح نمی آنکھوں کو گیلا کرنے لگی، شکوے زبان پر پھیلنے لگے،’’اللہ! آخر کیوں،تُو نے ایسے حکمران ہمیں عطا نہ کیے، جو ہماری تقدیر بدل دیتے۔‘‘ یہ سوچتے سوچتے ہی ٹپ ٹپ آنسو گالوں پر بہنے لگے، پاکستان کی آبادی جتنا بیجنگ چار، پانچ سال پہلے اسموگ کا بُری طرح شکار ہوا، تو انتظامیہ نے بڑی فیکٹریاں فوراً ہی شہر سے باہر منتقل کردیں، درخت جڑوں سے اُکھاڑ کر لائے گئے اور یہاں اُن کی پلانٹیشن ہوئی۔ اور اب اس شہر کو دیکھو ذرا، کہاں کی اسموگ اور کہاں کی گرد آلود فضا۔ اور ہم ہیں کہ پچاس، ساٹھ سال سے سیلابوں، قدرتی آفات کے عذاب سہہ رہے ہیں۔ہر سال اُجڑنے، مرنے اور بسنے کا عمل جاری رہتا ہے اور اُس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں۔

اس وقت ہمارے سامنے بیجنگ کا آسمان شفّاف، اواخرِ مارچ کی خنکی سے بھرا، تاحدِّ نظر فلک بوس عمارتوں کے بے انتہا خُوب صُورت جنگل میں گِھرا حیران کر رہا تھا۔ دائیں، بائیں جاتی،ایک دوسرے کو کاٹتی، کہیں جپّھیاں ڈالتی،پُر پیچ شاہ راہیں اور گاڑیوں کا طوفان پریشان کُن تھا۔’’اُف خدایا…!!مجھ سے تو یہ سب برداشت نہیں ہورہا۔‘‘ ہم رشک و حسد میں جلتے بُھنتے بالکونی سے اندر آگئے۔ 1960ء میں یہی چینی ہمارے کراچی شہر کی بلند و بالا عمارتیں دیکھ کر کہتے تھے، ’’اے کاش! ہمارے پاس بھی کراچی جیسا ایک شہر ہوتا‘‘ اور اب دیکھو، تیس میل مشرق، تیس، چالیس میل مغرب پر پھیلا، جنوب اور شمال کی طرف آسمان کو چُھوتا بیجنگ شہر کسی عجوبے سے کم نہیں لگتا۔

آنسوئوں کو ہاتھوں کی پوروں میں جذب کرتے ہوئے ہم نے کہا’’کل تو مَیں یہاں نہیں ہوں گی، سارے گلے شکوے ساتھ لے جائوں گی۔اے اہلِ چِین! مجھےپشیمانی سے لب ریز ایک احساس نے ضرور کچوکے سے لگائے ہیں۔ذرا ان کی بابت بھی جان لو، تم ہر دُکھ سُکھ میں میرے مُلک کے ساتھ کھڑے ہونے والے وہ دوست ہو، جس کے لیے ’’یارِ غار‘‘ کی تشبیہہ استعمال کرنامجھے اچھا لگتا ہے۔ گو مَیں یہ بھی جانتی اور سمجھتی ہوں کہ انسانوں کی طرح قوموں کی سیاسی اور عملی زندگی میں جذبات کی اہمیت نہیں ہوتی۔یہاں دوستیاں قومی مفادات کے تابع ہوتی ہیں، مگر تم نے ہر مشکل گھڑی میں اِس لاپروا قوم کا ہاتھ پکڑا ہے۔

بیجنگ! مَیں، ایک پاکستانی، تمہاری شکرگزار ہوں کہ یہاں مَیں چینی تاریخ کی پہلی عظیم جیالی، انقلابی فیمنسٹ شاعرہ سے بھی متعارف ہوئی،فارن لینگویجز یونی ورسٹی کی اُردو ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ، چائو یوآن سے( جن کا دوسرا نام نسرین ہے) ملی، اُردو زبان سے محبّت کرنے والے چینی نوجوانوں سے متعلق جانا اور نسرین کی دی گئی کتابوں نے میری ویسے تو بہت سی شخصیات سے شناسائی کروائی، جن میں سے ایک چھوئے چِن(QIU JIN) بھی ہیں، جن کے اہداف خواتین کی تعلیم، انہیں برابری کی سطح پر لانا ، معاشی آزادی اور شادی میں اُن کی اپنی پسند شامل ہونا تھے، مگر وہ اس وقت کی سوسائٹی اور حکمرانوں کو ہر گزقبول نہ تھے۔چھوئے چن نےاُس وقت ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی، جب وہ محض چھے برس کی تھیں۔‘‘

چین کی انقلابی فیمنسٹ شاعرہ ،چھوئے چِن
چین کی انقلابی فیمنسٹ شاعرہ ،چھوئے چِن  

رواج کے مطابق بچپن ہی سے چھوئے چِن کی ماں نے اُس کے پیر کپڑے کی پٹیوں میں جکڑنے شروع کردئیے تھے،جو اسے بالکل پسند نہیں تھا۔ تو ایک روزوہ چلّا اُٹھی اور قینچی سے انہیں کاٹنے لگی ۔ ’’ ارے میری بچّی! ایسا مت کرو،مجھے تمہارے پائوں لوٹس جیسے بنانے ہیں، گنواروں جیسے نہیں۔‘‘ ماں نے پیار سے چھوئے چن کو سمجھایا۔ ’’نہیں ماں، جھوٹ مت بولو، مجھے معلوم ہے کہ ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ پائوں کی ہڈیا ں ٹیڑھی میڑھی ہو جائیں اور لڑکی بھاگ نہ سکے ‘‘ وہ غصّے میں بولی۔ چھے سالہ معصوم بچّی کی بات سُن کر ماں تودنگ ہی رہ گئی۔ 

چھوئے چن ہمیشہ ہی اس تکلیف دہ عمل پرواویلا کرتی، سراپا احتجاج رہتی۔ پھراس کایہ احتجاج اس کی تحریروں ، تقریروں اور کلام میں بھی نظر آنے لگا۔ ملاحظہ کیجیے ؎ ’’اپنے پَیروں کو آزاد کرتے ہوئے…مَیں ہزاروں سالوں کا زہر صاف کرتی ہوں…جوش و جذبے سے بھرے دل سے…عورتوں کی روح بیدار کرتی ہوں۔‘‘ چھوئے کی یہ نظم، صرف شاعری نہیں، پابندیوںمیں جکڑی ایک عورت کی نفسیات کی بھی عکّاس ہے۔ ہم نےاسے جتنی بار پڑھا ، اتنی بار ہماری آنکھیں نم ہوئیں۔ چھوئے چِن نے ایک نظم اپنے شوہر کے لیے لکھی ، جس میں اس نے یہ بتایا کہ وہ صرف انقلابی لیڈر نہیں، جذبات و احساسات سے لب ریز ایک انسان بھی ہے کہ جس نے محبت کی تلخیوں اور شیرینیوں کو بھی محسوس کیاہے۔ نظم ملاحظہ کریں۔ ؎ خزاں کس لیے اداس ہے…کوئی تحریک نہیں دے رہی ہے…میرے دل میں مچلتے جذبات کا ہجوم… غائب نہیں ہوسکتا…اس مخصوص صورتِ حال سے بچنا کتنا محال تھا…ہماری محبت ایک مستقل عذاب میں بدل گئی تھی…جس میں واپسی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا…مَیں تمہاری شکر گزار ہوں…پلٹ کر اُس دن کو دیکھنا بڑا دُکھ بَھرا ہے…جب ہم جدا ہوئے تھے…میرے اس گونگے دل سے ابھی تک… ازدواجی زندگی کی تلخیاں اور شیرینیاں نہیں نکل سکیں…اگر زندگی میں کہیں حقیقتاً افسوس ہے…اُسے ہوا اور بارش کی افسردہ آوازوں سے بچنا چاہیے۔ جب نسرین یہ نظم ہمیں سناچکی ، تو ہم دونوں بہت دیر تک یاس میں ڈوبے رہے۔ویسے سوچیں تو کیسی عجیب سی بات ہے کہ دو مختلف خطّوں کی عورتیں ،جو زبان،مذہب،ثقافت اور تمدّنی حوالوں سے یک سرمختلف ہیں، ایک جیسے جذبات کی یلغار میں تھیں۔واہ ، چھوئے چِن کیا جی دار عورت تھی ، جس نے عورتوں کے حقوق کے لیے اپنی گردن کٹوا دی۔ چین کی یہ ’’جون آف آرک ‘‘اندھیرے راستوں میں بہت سے دیے جلا گئی۔ نسرین کے لیے پیار ا ور دُعائیں ہیں ہمارے پاس۔

چِین میں اپنے قیام کے دوران ہم نےچین کےکئی صوفی شعرا اور ان کی انقلابی شاعری کو پڑھا،ان سے پیار ہوا،گولوشنگ کو پڑھا۔چین کی کلاسیکی شاعری کے رنگوں نے بہت متاثر کیا،بی ٹائو سے مانوس ہوئی،گوپنگ بہت پسند آیا۔چین کی قومی زندگی میں ستارہ بن کر روشن ہونے والا یان بھی ہمارے لیے ایک رول ماڈل بن کر اُبھرا ہے۔ اے کاش! ہمارے وطن کاکوئی لیڈر اس کی داستانِ حیات ہی پڑھ لےاور اس کی کوئی بات ان کے دل میں اُتر جائے کہ جب وہ کہتاہے’’میری نسل نے بھوک کو کم کرنے میں بہت مشقت جھیلی۔انہوں نے ہل چلائے، ہمارے بچّوں نے زراعت کو جدّت کے ساتھ جوڑتے ہوئے اِسے ترقّی دی۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے پوتے مختلف النوع علوم میں طاق ہوکر اِس مُلک کی اور بہتر انداز میں خدمات سرانجام دیں گےکہ نئے اُفق اور نئی چراگاہیں اُن کی منتظر ہیں۔‘‘کچھ لوگ یادوں میں سدا فانوس کی طرح جگمگاتے رہتے ہیں، تو گونگ چو میں کچھ ایسے ہی پیار کرنے والوں سے ملاقات ہوئی۔ 

موتھیان میں لی گئی ایک ہنستی مسکراتی تصویر
موتھیان میں لی گئی ایک ہنستی مسکراتی تصویر 

جب سعدیہ اور عمران جوتے لینے بازار گئے ہوئے تھے، تو ہم آرام اور پیٹ پوجا کی غرض سے ایک ریسٹورنٹ میں جا پہنچے، تو ایک نوجوان جوڑا، تین سالہ گُل گوتھنی بچّی کے ساتھ وہاں آیا اور قریب ہی ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ ہم اُس وقت دن بھر کی کارگزاری کے نوٹس لکھنے میں مشغول تھے، اس دوران وہ بچّی ہمارے پاس آکھڑی ہوئی، جب ہم نے بےخیالی میں سراُٹھایا، تو اُسے خود پر اور اپنی نوٹ بُک پر حیران حیران نگاہیں ڈالتے پایا۔ اُسے دیکھ کر ہمیں تو اس پر بڑا پیار آیا، پھر ہمارے پیار بَھرے انداز نے اُسے بےتکلّف ہونے میں ایک لمحہ نہیں لگنے دیا، کیا کریں کہ بیچ میں زبان آکھڑی ہوئی۔

دونوں میاں، بیوی ہنستے ہوئے قریب آگئے۔ مرد انگریزی جانتا تھا، اُس کا بچپن اسلام آباد میں گزرا تھا کہ باپ سفارت خانے میں تھا۔اب تواضع تو رہی ایک طرف، لڑکے نے اسلام آباد کے حوالے سے بہت سی میٹھی یادیں شیئر کیں اور ساتھ ہی خواہش بھی ظاہر کی کہ ہم اس کے والدین سے ضرور ملیں،وہ بہت خوش ہوں گے۔ میاں، بیوی کی آنکھوں سے پھوٹتی محبّت پر ہمیں اتنا پیار آیا کہ ہم نے اپنائیت سے لڑکے کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور اس کی بیوی، بچّی کو خُوب خُوب پیار کرتے ہوئے ملنے سے معذرت کرلی کہ ہمیں تھوڑی ہی دیر میں ہوائی اڈّے کے لیے نکلنا تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ چِین کی پرانی نسل پاکستان سے بہت مانوس ہے، بے حد محبّت کرتی ہے۔ ہم نے تو یہاں رہتے ہوئے یہ تجربہ کیا کہ’’مَیں پاکستان سے ہوں‘‘ جیسا جملہ محض اشاروں کی زبان سے یا ’’پاکستان‘‘ کہہ دینا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ یہ جان کر اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ پھر اُن کے چہروں کی دمک، آنکھوں کی چمک اور ہونٹوں کی مُسکان دیکھ کر بے اختیار ہی اُن پرپیار آنے لگتاہے۔پارکس،شاپنگ پلازوں، ریلوے اسٹیشنز اور ہوائی اڈّوں پر ہم نے اس خلوص و محبّت کے کئی تجربات کیے۔ اسی طرح خنکی میں ڈوبی ایک مسحور کُن شام، ایک عُمر رسیدہ خاتون سے، جو بیٹی،نواسے اور شوہر کے ساتھ سمر پیلس میںآئی تھی، ملاقات ہی نہیں بھول پاتی۔ ہر سُو ہریالی،پانی اور تعمیراتی حُسن بکھرا، حیران کیے دے رہا تھا۔ 

آنکھیں چہار سُو بھٹکتی پھر رہی تھیں۔ اسی دوران پانچ سال کا ایک بچّہ سائیکل چلاتا ہماری سمت آرہا تھا، دفعتاً بچّہ ہم سے کچھ فاصلے پر سائیکل سے لڑھکا اور فرش پر آگرا، تو ہم نے بھاگ کر اُسے اُٹھایا۔خاندان بھی اضطراب میں بھاگتے ہوئے بچّے کے پاس آگیا، بچّہ بالکل ٹھیک تھا۔ پھر ہماری علیک سلیک ہوگئی، تو جب اُس خاندان کی بوڑھی عورت کو پتا چلا کہ ہم پاکستان سے ہیں، تو اُس نے خوشی اور محبّت سے گلے لگاکر ہمیشہ کے لیے ہمیں اپنا کرلیا۔پھر وہ خاتون بھی ہمیشہ یاد رہے گی ،جو شی آن مسلم کوارٹر کے بیل ٹاور کے سامنے والے میدان میں اپنے بیٹے، بہو اور پوتے کے ساتھ بیٹھی کھانے پینے میں مصروف تھی۔جس نے ہم غیر ملکی، اجنبی لوگوں کو محبّت بَھری نظروں سے دیکھااور اُبلے انڈوں کی پلیٹ اُٹھائے ہماری جانب چلی آئی۔

اس کی پیش کَش میں جو پیار تھا، اس نے انسانیت پر ہمارے یقین کو تازگی بخشی۔ پھر وہ واقعہ کیسے بُھلایا جا سکتا ہے کہ جب ہم چینی ثقافت کی نمایندہ، اُس کا لینڈ مارک، اُس کا تاریخی اثاثہ، دیوارِ چین دیکھنے گئے تھے، تو اس کے بادہ لنگ حصّے کے ایک رنگ رنگیلے پگوڈا نما کمرے میں آرٹ کے شاہ کار دیکھنے کے بعد چھوٹے سے ایک صحن میں سستانے کے لیے آبیٹھے تھے۔جہاں ایک چینی خاندان بھی بیٹھا تھا اور خاک روب صفائی کررہا تھا۔ہم نے اُسے تھوڑے سے ڈرائی فروٹس دینے کی کوشش کی، لیکن اُس نے انتہائی شائستگی اور ممنونیت سے انکار کردیا۔

اتنے میں عمران موٹے موٹے دانوں والی اُبلی ہوئی چھلّی(مکئی) لے آیا، خاک روب نے وہ بھی لینے سے انکار کردیا۔ ’’یہ کیسی رجی پُجّی قوم ہے،بَھری نیّتوں والے لوگ، انہوں نے تو اس مثال کی بھی دھجیاں اڑا دیں کہ ’’غریب کتنا بھی امیر کیوں نہ ہوجائے، اس کے اندر سے غریبی نہیں نکلتی۔‘‘ واقعی چینی قوم سے زیادہ غریبی کس قوم نے دیکھی ہوگی، ان سے زیادہ فاقے کن لوگوں نے کیے ہوں گے، مگر ان کےانداز، عزّتِ نفس کا عالم تو دیکھیں۔‘‘ ہم نے دل میں سوچا۔ پھر صحن کو دیکھنے لگے، جہاں کئی سیّاح ہونے کے باوجود کہیں کوئی کاغذ کا ٹکڑا، کوئی ریپر، کوئی کچرا، ایک تنکا تک نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے باوجود ہر پندرہ منٹ بعد خاک روب، کُوچی فرش پرپھیرنے لگتا۔ ہم چھلّی کھاتے ہوئے پھر مائو کی نظم پڑھنے لگے ؎ اُٹھو، اٹھو، غلام نہیں بنے رہنا…وہ لوگ جو غلام نہیں بنے رہنا چاہتے…ہمارے خون اور گوشت سے فائدہ اُٹھائیں…ہمیں نئی عظیم دیوار بنانی ہے۔

موتھیان جانا بھی یاد آ رہا ہے کہ جسے دیکھنا ہماری زندگی کا انتہائی حسین تجربہ تھا۔ وہاں جانے سے قبل ہم نے اُس پر لکھا لٹریچر پڑھ کے اور کچھ بذریعہ انٹرنیٹ اُس سے شناسائی کر لی تھی۔ اُف واچ ٹاور کی انوکھی تعمیری ساخت، سبزے سے بَھرے جنگل، بہار میں کِھلتے پھول، موسمِ خزاں میں درختوں سے لٹکتے پھل اور سُرخ،پیلے درختوں سے ڈھکا سارا ماحول۔ سردیوں میں برف کی چادریں اوڑھے چوٹیاں اور ڈھلانیں۔ ایک طرف اگر فطرت اور حُسن کے یہ نظارے تھے، تو دوسری طرف اس کی تاریخ اور کہانیاں ۔سچّی بات ہے، موتھیان سے خاصی آشنائی ہوگئی تھی۔

یہ بیجنگ کے شمال مشرق میں کوئی 70، 75 کلو میٹر کی دُوری پر واقع ہے۔ ویسے تو ہم کیبل کار میں بیٹھنے،جھولے لینے کا مزا پتریاٹہ میں بھی چکھ چُکے تھے، لیکن یہاں ماڈرن اِزم کا فرق نمایاں تھا۔ کار اسٹیشن کی خُوب صُورتیاں اور طریقے سلیقے والے انداز حد درجہ شان دار تھے کہ ’’واہ واہ‘‘ کہنے کو جی چاہتا تھا۔ آپ اطمینان سے کیبل کار میں بیٹھ کر نیچے دیکھیں تو نیلگوں دھویں کے غبار میں لپٹے، سرسبز ڈھلانوں والے تہہ دَر تہہ پہاڑی سلسلوں کا حُسن سانسیں روکتا، آنکھیں خیرہ کردیتا تھا۔ یہ مناظر دیکھ کر ہماری زبان سے تو بےاختیار ہی ’’سبحان اللہ، الحمداللہ‘‘ کی تسبیح جاری ہوگئی۔سر سبز سلسلوں کی انواع کا سلسلہ ہلکے اور تیز رنگوں کے شیڈز کے ساتھ بہتے پانیوں کی طرح نظروں میں کُھبا جاتا تھا۔

اُن پر تیرتی، رقص کرتی ہوائیں، یقیناً یہ جنگلی خوش بوئوں سے بوجھل ہوں گی۔درختوں اور بُوٹوں کے جوشیلے ہلار، ہوائوں کی تندی اور تیزی کا پتا دیتے تھے۔ ایسے میں ہمیں سلطنتِ تھانگ کا عظیم شاعر Du Fu کیوں نہ یاد آتا کہ جس نے ایسی ہی کسی اونچائی سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔؎ ’’ہوائوں میں کاٹ ہے،بادل بلند ہوتے ہیں…بندر اپنے دکھوں پر بین کرتے ہیں…ہوا تازہ، ریت سفید…اور پرندے دائروں میں اڑتے ہیں…مدھم سی آواز میں…ہر طرف گرتے ہوئے پتّے…جب کہ ایک تواتر سے دریا کی لہریں…ہلکوروں کی صُورت بہتی ہیں…خزاں کی دھندلاہٹ میں طے کی ہوئی ہر میل کی مسافت…مجھے تو اپنا ہی سفر لگتا ہے… تنہا،نڈھال اور بیمار سا…اس بالکونی پر چڑھتے ہوئے… زندگی کی ناکامیاں اور پچھتاوے… میری کنپٹیوں کو جذبات سے منجمد کررہی ہیں… اور یہ مَیں شکستہ دل، بدقسمت…کہ جو پینا چھوڑ چُکا ہے۔ان دل فریب مناظر اور شاعری سے محظوظ ہوتے ہم ہوائوں میں اُڑتے اِس اڑن کھٹولے میں بہتے چلے جارہے تھے۔ 

ہمارے قدموں کے نیچے برجیاں، کشادہ دَروں میں بھاگتے دوڑتے لوگ تھے۔ چوٹی پر پہنچ کر ہم نے ذرا رُک کر ماحول کا سارا حُسن سرشاری سے دیکھا، انگ انگ میں مسرّت رقصاں تھی۔ لمبی سانس لے کراپنے اردگرد بھنگڑے ڈالتی ہوائیں سونگھیں، انہیں اپنے سینے میں اُتارا،آنکھیں بند کیں اور پھر چل دئیے۔ پھر یہاں آنے، اس خُوب صورت جگہ پہنچانے اور دِکھانے پر اپنے مالک کا شُکر ادا کیا، مُسکراتے ہوئے اوپر والے کو محبوبانہ انداز میں دیکھا اور دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے۔نظریں بار بار رُکتی، رُک رُک کر،پلٹ پلٹ کر اپنے گردوپیش کو دیکھتی تھیں۔ سامنے دیکھا تو لگ رہا تھا، جیسے سبزے کا ایک جہان ہے، جو دھیرے دھیرے کسی آب شار کی طرح پہاڑوں کے دامن میں گِر رہا ہے۔ ’’سبحان اللہ! واہ! کیا منظر ہے‘‘ ہمارے دل سے بےاختیار نکلا ۔

تو، میرے پیارے بیجنگ! دیکھو، سعدیہ نے آواز دے دی ہے’’امّاں! چار بج رہے ہیں۔ فلائٹ کا وقت ہو رہا ہے۔‘‘ ہم نے بھیگی آنکھوں سے ایک بار سعدیہ کے گھر اور اُس بالکونی کو ایک آخری بار دیکھا، جہاں ہماری شامیں گزرتی تھیں پھر اس دُعا کے ساتھ اس مُلک سے وداعی لی کہ’’الوداع میرے مُلک کے یارِ غار! آنے والا وقت تمہیں سُپر پاوَر کی صُورت دیکھے اور ہماری، تمہاری دوستی ایسے ہی پَھلتی پُھولتی رہے۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید