• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھا ہوتا کہ آڈیو لیکس کے معاملے کے سیاسی ہیجان کا ذریعہ بننے سے پہلے ہی اہم قومی عمارتوں میں ہونے والی گفتگو سمیت حساس امور کو خفیہ رکھنے کی زیادہ موثر و قابل اعتماد تدابیر بروئے کار لاکر قوم کی تشفی کرائی جا چکی ہوتی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کا موجودہ زمانہ متقاضی ہے کہ ہر قسم کی پیش رفتوں اور امکانات پر کڑی نظر رکھی جائے اور اپنے ملکی اثاثوں کے علاوہ اہم مقامات پر ہونے والی بات چیت سمیت قومی رازوں کی حفاظت کی تدابیر میں ہیکرز، جرائم پیشہ افراد اور غیر ملکی ایجنٹوں کو وار کا موقع ملنے سے پہلے ہمارے حساس ادارے ان کی صفوں میں گھس کر ان کے ارادے پامال کرتے رہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں کی گئی گفتگو کے حوالے سے وڈیوز کا سامنے آنا، کسی ہیکر کی جانب سے موجودہ و سابقہ بات چیت کا ریکارڈ اور بڑا ڈیٹا ڈارک ویب میں رکھنے کا دعویٰ اور فروخت کے لئے پیش کیا جانا قومی سلامتی کے تقاضوں سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی روز قبل آنے والی وڈیوز پر جے آئی ٹی کی تشکیل اور انٹلیجنس بیورو کو فوراً حرکت میں آنے کا حکم دینے کے علاوہ تمام وزارتوں کے لئے ہیکرز سے ہوشیار رہنے کی ہدایات بھی جاری کی جا چکی ہیں۔ یقیناً اب تک سائبر حربوں کی روک تھام کے بعض طریقے بروئے کار بھی لائے جا چکے ہوں گے لیکن معاملے کی حساسیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے قومی سلامتی کے اہم تقاضے کے طور پر دیکھا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کے روز پریس کانفرنس میں معاملے کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے درست نشان دہی کی کہ یہ وزیراعظم ہائوس کا نہیں ریاست پاکستان کے وقار کا معاملہ اور 22 کروڑ عوام کی عزت کا سوال ہے۔ آڈیو لیک کے بعد باہر سے آنے والے لوگ ایسی عمارت میں گفتگو کرنے میں کیونکرشامل ہو سکتے ہیں جس کی باتیں باہر سنی یا ریکارڈ کی جا سکتی ہوں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ حساس ادارے اس باب میں اب تک فول پروف تدابیر اختیار کر چکے ہوں گے۔ اس کے باوجود دو باتیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک یہ کہ مستقبل کے حوالے سے ہمارے اہم ایوانوں، عمارتوں اور محکموں میں ہونے والی گفتگو کے کسی باضابطہ فیصلے یا اعلان سے قبل باہر نکلنے یا لیک ہونے کے تمام راستے اور رخنے بند کر دیئے جائیں۔ دویم یہ کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے ذریعے ایسے عناصر و عوامل کی نشاندہی کی جائے جن کے کسی دانستہ یا نادانستہ عمل، کوتاہی یا غفلت سے مذکورہ بالا صورتحال رونما ہوئی۔ اس باب میں یہ بات بھی اہم ہے کہ فاصلے اور دیواروں کے پار سے ریکارڈنگ کرنے والے آلات کی ملک میں آمد و موجودگی کی صورتحال پر قابو پانے کی تدابیر زیادہ موثر بنائی جائیں۔ ڈرون ایسا آلہ ہے جس کا استعمال آج کے دور میں غیر معمولی نہیں سمجھا جاتا۔ خبر رسانی سے لیکر مصیبت میں گھرے لوگوں کا احوال جاننے یا امداد پہنچانے کے لئے اس کا استعمال درست سمجھا جاتا ہےلیکر حساس مقامات کے آس پاس ان کے منڈلانے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ کابینہ ڈویژن نے سائبر سیکورٹی کی خلاف ورزی کے ذریعے جاسوسی سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں تاہم حکومت اور متعلقہ ادارے اب بھی ڈارک ویب کے اس دعوے کے حوالے سے اندھیرے میں ہیں کہ ان کے پاس وزیراعظم آفس کا آڈیو ڈیٹا (جاسوسی آلات کے ذریعے یا ہیکنگ کے ذریعے حاصل کیا گیا) موجود ہے۔ مستقبل کے حوالے سے حفاظتی اقدامات کئے گئےہیں۔ مگر اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی کہ کس قدر نقصان ہو چکا ہے۔ ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدیدار کے دفتر میں کسی اندرونی یا بیرونی ذریعے سے جاسوسی کی گئی ہے اس لئے اس باب میں معمولی سے معمولی غفلت کی گنجائش نہیں جبکہ حفاظتی انتظامات میں برق رفتاری کے تمام پہلو آج کے روز ہی نہیں۔ مستقبل کے ہر پل میں ملحوظ رکھے جانے چاہئیں۔یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ سیلابی تباہی کی کیفیت میں بھی اندر اور باہر سے دہشت گردی کی ذمہ دار قوتوں سے جدید سائنسی ٹیکنالوجی سمیت کسی بھی قسم کے منفی اقدام کا امکان رد نہیں کیا جانا چاہئے۔ عوام اور ملک کے تحفظ کے لئے ہر طرح چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین