انسان اپنی ذاتی صورت میں اور اس جدید دور میں قوم کی شکل میں بھی اپنی مختلف النوع طاقت اور حیثیت کے جو مظاہرے کرتا ہے اس میں اسلحے کا استعمال ہی غالب رہا۔ تہذیب انسانی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا ہے جب اسلحے کی طاقت اور اس کے بل بوتے پر گردونواح پر کنٹرول کو خود انسان نے ہی چیلنج کردیا۔ ایسے کہ پہلے بادشاہوں کے سامنے پھر اپنے سوال کو اتنا عام کردیا کہ عوام نے اٹھے سوالوں سے طاقت حاصل کی، جب سوال قومی مؤقف میں ڈھل گئے تو یہ اسلحے کے مقابل طاقت بن گئے۔ تہذیب انسانی کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ ’’معاہدہ عمرانی‘‘ کے نتیجے میں ریاست کے وجود میں آنے کے بعد کی تاریخ میں سب سے پہلے حاکم (ریاست) کی طرف سے سوال کی حوصلہ افزائی ظہور اسلام پر ہوئی۔ احادیث نبوی ؐ کا ایک قابل ذکر حصہ صحابہ کرام ؓ کے سوالات کے جوابات کی شکل میں احادیث میں شامل ہے۔ آپؐ نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ صرف سوال کی حوصلہ افزائی ہی نہیں فرمائی بلکہ وہ شعوری طور پر دوسروں سے ابلاغ کا ایسا انداز اختیار کیا کہ سوال کرنے اور جواب دینے کا ماحول پیدا ہو۔ آنے والی اسلامی تاریخ میں سوال کی اہمیت بڑھتی گئی اور احتساب کی شکل اختیار کرتی گئی۔ قاضی کا سوال اور حاکم پر جواب کی پابندی (جوابدہی) نے احتساب و انصاف کی شکل توبعد میں ادارے (عدلیہ) کی شکل اختیار کی۔ پہلے ایک عام شہری کے خلیفہ سے سوال اٹھانے کا ماحول اسلامی معاشرے میں پیدا ہو چکا تھا۔ حضرت عمر ؓ سے منقسم مال غنیمت سے ملنے والے کپڑے کے ٹکڑے کے دوسروں سے کیسے دوگنا ہونے کا تاریخی سوال ایک عام شہری نے اٹھایا اور اس کا تسلی بخش جواب سلامتی کی طرف تیزی سے تبدیل ہوتے معاشرے میں سوال و احتساب کے آغاز کا ہی تو عکاس تھا۔ آنے والی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ سوال کی طاقت سے جرأت پیدا ہوئی خوف چھٹ گیا، ظالم حاکموں کا باطل چھپ نہ سکا اور ان کا کھوکھلا پن آشکارہوا تو وہ ڈھیر ہوگئے، حق غالب آگیا۔ جب سوال اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی اس میں کوتاہی کی گئی تو باطل اور نا اہلیت کا غلبہ ہوا اور مخلوق خدا تنگ ہوئی۔ مطالعہ و تحقیق واضح کرتا ہے کہ دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں برپا ہونے کی اصل طاقت اٹھتے سوال اور ان کے جواب کی عدم موجودگی یا ناقابل فہم جواب تھے۔ ظہور اسلام، تحریک احیائے علوم، انقلاب فرانس پارٹیشن آف انڈیا ،روس میں بالشویک انقلاب چین کا کمیونسٹ اور ایران کا اسلامی انقلاب، سوویت یونین کی تحلیل اور دیوار برلن کا انہدام، ان کے پس پردہ اصل طاقت سوال کی ہی رہی۔ ان میں سے کچھ تبدیلیوں کی وجہ قومی مؤقف اور دبائو بن جانے والے سوالات تھے اور کچھ تبدیلیوں کے پس پردہ قلب و ذہن میں پل کر طاقت بننے والے سوال، جو صورتحال کے سازگار ہونے پر اچانک تبدیلی کی شکل میں وارد ہوئے جیسے وسط ایشیاء کی مسلم ریاستوں کی ماسکو سے آزادی اور دیوار برلن کا انہدام۔
جاری اور بنتی عالمی تاریخ 9/11 کے تناظر میں تشکیل پا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ خود 9/11 کس تناظر میں بنا؟ یہ وہ سوال ہے جو 9/11 کے ساتھ ہی کروڑھا اذھان میں پیدا ہوا۔ لیکن امریکی قوم کے اشتعال اور اس کے حکومتی دبدبے میں دب کر رہ گیا۔ امریکہ کا بطور قوم اور حکومت بھی، اشتعال قابل جواز تھا جو وقتی طور پر ہر سوال، ہر رائے اور ہر رجحان پر حاوی ہوگیا۔ اس کی منطق بھی بہت واضح ہے۔ یہ امریکہ پر اچانک اور ایسا حملہ تھا کہ لگا کہ اس کے سیکورٹی کے اداروں کے پاس ہزاروں معصوم امریکیوں پر ایسے قابل مذمت حملے کو روکنے کا کوئی نظام تھا نہ مزید روکنے کا، یاد رہے کہ ٹوئین ٹاور اور پینٹاگون پر سول جہازوں سے حملے میں وقفہ تھا۔ کیا واقعی ایسے ہی تھا یہ ایک بڑا سوال ہے۔ خفیہ ذریعے سے ہونے والے اس ناقابل یقین حملے سے تو پورا امریکہ اشتعال اور جذبہ انتقام میں ڈوب گیا کہ یہ ایک قدرتی امر تھا۔ لیکن 9/11 کے حملے سے جو سوال امریکہ سے باہر کروڑھا اذھان میں ابھرے ان کی حقیقت بھی کم نہ تھی۔ یہ اس طرح آشکار ہوئی کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کئی سال کی جنگی کارروائیوں کے بعد امریکی قوم قدرتی اشتعال سے واپس اپنے اصل رویے کی طرف لوٹ آئی تو یکے بعد دیگر 9/11کے حملے پر طرح طرح کے سوالات اٹھنا شروع ہوگئے جو ایک بوچھاڑ کی شکل اختیار کرگئے۔ یہ سوال امریکہ کے اپنے اہل نظر، حملے کے فنی پہلوئوں کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں اور بنیادی حقوق کے علمبرداروں، جنگ وجدل کے مخالفین اور عالمی امن اور انصاف کے رشتے کو ناگزیر قرار دینے والے باہمت امریکیوں نے اٹھائے۔
پاکستان 9/11 سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ اب پورے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ سے بھی زیادہ۔ امریکہ تو اتنی طویل جنگ کے اخراجات کا متحمل بھی ہوسکتا ہے۔ (اگرچہ اس کی اقتصادیات کو بھی شدید دھچکا لگا) پاکستان جس کی داخلی سلامتی پر گذشتہ ایک عشرے سے حملے جاری ہیں اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سو ہماری جو آج اقتصادی حالت ہے اس کی تمام تر ذمے داری تو امریکی حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی کہ اس نے ہی فرنٹ لائن پارٹنر کے طور پر پاکستان کو دہشت گردوں کے ساتھ نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھا دیا، ہماری اپنی فوجی سول اور اس کے بعد منتخب سول حکومت کے کرتوت بھی پاکستان کی اقتصادی حالت زار کی بڑی وجہ ہیں، لیکن 9/11 نے پاکستان کی اقتصادیات، سیاست اور معاشرت سب کو بری طرح متاثر کیا۔ تقاضا یہ تھا کہ ہمارے اہل نظر 9/11 کی پس پردہ وجوہات میں جاتے اور اس کا عمیق مطالعہ کرتے۔ امریکہ میں اٹھنے والے سوال جو محب وطن لیکن انصاف اور امن پسند امریکیوں نے بڑے وزنی دلائل کی بنیاد پر اور مکمل سائینٹیفک انداز میں اٹھائے ہیں کو ہم سب سے زیادہ متاثر فریق کے طور پر اپنے سوال بنا کر پوری دنیا میں عام کرتے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوا کہ بددیانتی اور نااہلی کی کمزوری سے ایسے باہمت کاموں کے لئے ہماری سکت ختم ہوتی جارہی ہے۔ تاہم یہ کفر اب ٹوٹ گیا۔
پاکستان میں اس کارخیر کا آغاز وہیں سے ہوا جہاں سے ہونا چاہئے تھا۔ پنجاب یونیورسٹی نے’’ 9/11 اینڈ دی نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سےایک کتاب شائع کی ہے جو امریکہ میں 9/11پر وزنی دلائل اور انتہائی متعلقہ اٹھائے گئے سوالات کے عمیق مطالعے اور ان کے مزید تجزیے پر مبنی ہے۔ یہ کتاب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے تحریر کی ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے اساتذہ کے منتخب فورم ’’اکیڈیمک اسٹاف ایسوسی ایشن‘‘ کے تعاون سے کلاس سے باہر قومی نقطہ نظر سے اعلیٰ علمی سرگرمیوں کا جو سلسلہ شروع کیا اس میں ’’مسئلہ بلوچستان‘‘ کو بھی بہت سنجیدگی سے ایڈریس کیا گیا جس کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ وائس چانسلر اور اے ایس اے کی مشترکہ عملی کاوشوں کے نتیجے میں لاہور اور کوئٹہ کا ایک نتیجہ خیز تعلق قائم ہوا۔ بلوچ سیاست داں اور دانشور جامعہ پنجاب آنے لگے اور ڈاکٹر مجاہد کامران نے ہر تدریسی شعبے میں بلوچستان کے طلبہ کے لئے نشست مخصوص کر کے لاہور اور کوئٹہ کا ایک مستقل علمی اور قومی رابطہ استوار کیا۔ وائس چانسلر صاحب کا کہنا ہے کہ حکومتی حماقتوں کے علاوہ بلوچستان 9/11 کے پاکستان پر اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور ہورہا ہے اور ہم نے علم و دانش اور سوال کے اثاثے سے پاکستان کو 9/11 کے تباہ کن اثرات کو سمیٹتے ہوئے ایک نارمل، مستحکم، عالمی امن کا پیروکار ملک بنانا ہے۔ جس کے خدوخال میں امریکہ کے سیاسی اور تجارتی مافیاز کی بے نقابی اور پاکستان اور امریکی عوام خصوصاً دانشوروں کا باہمی علمی و تحقیقی رابطہ سرفہرست ہے۔ ان کا یہ گہرا مطالعہ ہے کہ امریکی عوام اور دانش آج بھی حقیقی معنوں میں ابراہم لنکن کے فلسفہ جمہوریت کے سچے پیروکار ہیں لیکن امریکہ کے ریاستی اداروں میں منفی عالمی مالیاتی قوتیں انتہائی منفی انداز میں سرایت کر کے امریکہ کے امیج کی تباہی اور عالمی امن و سکون اور استحکام کے لئے بے حد پرخطر بن چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی تصنیف ’’9/11 اینڈ نیو ورلڈ آرڈر‘‘ اے ایس اے کے ساتھ مل کر اپنے ایک خصوصی لیکچر کے نتیجے میں جو مقالہ رقم کیا وہ جو اثر انگیز ہونے کی وجہ سے فالو اپ میں کتاب کی شکل اختیار کر گیا۔ چونکہ تصنیف انگیریزی میں ہے اور اس کے چیپٹر پروفیسر مجاہد کامران کے آرٹیکلز کی شکل میں بین الاقوامی جراید کی ویب سائٹس پر بھی موجود ہیں ۔ ’’9/11 اینڈ نیو ورلڈ آرڈ‘‘ میں نائن الیون اور پرل ہاربر پر جاپانی حملے میں مماثلت کا جائزہ 9/11 کے امریکی محققین کی تحقیق اور اٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں لیا گیا ہے،جس میں اس تاریخی حقیقت کا پردہ چاک ہوتا ہےکہ امریکی نیول انٹیلی جنس نے امریکہ کے براہ راست جنگ میں کودنے کا جواز پیدا کرنے کے لئے جاپانیوں کو ’’قابل یقین‘‘ ذرائع سے یہ جعلی اطلاع پہنچائی کہ امریکہ جاپان پر بڑا حملہ کرنے والا ہے، جس پر امریکہ نے ’’دشمن کے حملے سے پہلے حملہ‘‘ کی جنگی حکمت اختیار کرتے ہوئے امریکی بندرگاہ پرل ہاربر پرحملہ کیا جس نے امریکہ کو جاپان پر ایٹم بم کی قیامت برپا کرنے کا جواز بھی پیدا کردیا۔ یہ انکشاف امریکہ کے سرکاری ریکارڈ کی بے نقابی سے ہوا۔ گویا امریکہ جاپان کو اس پوزیشن میں لے آیا کہ وہ امریکہ کو کہے ’’آبیل مجھے مار‘‘۔ اس عظیم علمی کاوش پر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران تحسین کے مستحق ہیں۔یہ کتاب پاکستان ہی نہیں عالمی ، صحافی، سفارتی اور علمی حلقوں میں سوال کی اہمیت اور طاقت کو اجاگر ہی نہیں کرتی، سوالات کی ہمت پیدا کرنے پربھی اکساتی ہے۔ اگر امریکہ میں صدر کنیڈی اور مارٹر لوتھرکنگ کے قتل کے بعد مطلوب حد تک ’’پاور آف کوئسچن‘‘ کا استعمال ہوتا تو شاید امریکہ وہ تجارتی اور مالیاتی مافیا غلبہ نہ پاتا جس نے امریکی عوام کو غریب امریکی امیج کو دنیا میں تباہ اور عالمی امن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
آخر میں فقیر کے چند سوال کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کیا ’’القاعدہ‘‘ اتنی ہی طاقتور تھی کہ اس کے لئے پوری دنیا میں ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا تھیسز بطور پالیسی اختیار کیا جاتا؟ جو اگرچہ سوالات کی طاقت سے یہ ترک کر دیا گیا، لیکن عملاً امریکی انتظامیہ پچھلے چار صدارتی ادوار میں اسے پوری شدت سے اختیار کئے ہوئے ہے۔ اب وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم امریکہ کا ہی رونا دھونا نہ کرتے رہیں، اپنے حکمرانوںکی بدنیتی، کالے کرتوتوں اور عوام دشمن اقدامات پر بروقت سوال اٹھانے کی طاقت پیدا کریں۔ ہم نے اعلیٰ اسلامی اقدار کی پیروی میں معاشرے میں سوال کی طاقت اختیار کی ہوتی تو آج ہم کبھی 9/11 کے اتنے بڑے متاثر نہ ہوتے۔ خدارا ! پاکستانی سوال کریں سوال کہ کہ ہم کب اپنے ملک میں مکمل آئین اور قانون کا یکساں نفاذ کریں گے جو ہماری قوم کو مستحکم بنائے گا اور سوالوں سے طوطا چشمی آنے والی کوئی طاقت ہمیں اسلحے کے بل بوتے پر بھی ذلیل و خوار نہ کرسکے گی۔