• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ربیع الاوّل‘‘ تقویمِ اسلامی کا تیسرا مہینہ، ہجری سال کا ایک اہم سنگِ میل، اسلامی تاریخ میں نمایاں مقام اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ماہِ مبارک سرکارِ دو جہاںﷺ کی ولادت باسعادت اور آپﷺ کی تشریف آوری کے حوالے سے ماہ و سال کی پوری تاریخ میں ایک منفرد حوالہ رکھتا ہے۔ ’’ربیع الاوّل‘‘ کے لغوی معنیٰ پہلی بہار کے ہیں۔

اسلامی تاریخ میں ماہِ ربیع الاوّل کو جو عظمت وتقدّس، بزرگی و برتری حاصل ہے، وہ صرف اور صرف سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، صاحبِ لوح و قلم، سیّدِ عرب و عجم، ساقیٔ کوثر، شافعِ محشر، محبوبِ ربّ العالمین، سیّد المرسلین، خاتم النبیّین،رحمۃ لّلعالمین، سرورِ کونین، بشیر و نذیر، سراجِ منیر، امام الانبیاء، آفتابِ دو عالم، حضرت محمّد مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ ﷺ کی بدولت ہے۔

یہ وہ بابرکت اور بہار آفرین مہینہ ہے، جس کی آمد سے چمنستانِ دہر کی مرجھائی کلیاں کِھل اٹھیں، خزاں رسیدہ گلستان سرسبز و شاداب ہوگئے۔ کسی عرب شاعر نے کیا خُوب کہا ہے،’’لھٰذا الشّھر فی الاسلام فضل…و منقبۃ تفوّق علیٰ الشّھور…ربیع فی ربیع فی ربیعٍ…ونور فوق نورٍ فوق نورٍ‘‘یعنی ’’اسلام میں اِس ماہِ مبارک کوخاص فضیلت و اہمیت حا صل ہے، جو بعض اعتبار سے دیگر مہینوں سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ خاص فضیلت ظہورِ قدسی، یعنی حضور اکرم ﷺ کی ولادت اور آپﷺ کی تشریف آوری ہے، آپﷺ کی آمد دنیا کی بہار کا سبب ہے، پھر جس مہینے میں آپﷺ تشریف لائے، وہ ربیع در ربیع، یعنی بہار ہی بہار اور نُور ہی نُور ہے۔‘‘

ربیع الاوّل ،1 عام الفیل،52 قبل ہجرت، اپریل 571ء میں محسنِ انسانیت، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کا صرف ظہورِ قدسی ہی نہیں ہوا، بلکہ عالمِ نو طلوع ہوا اور تاریخِ عالم نے نئے ایک سفر کا آغاز کیا۔ اِس ماہِ مبارک میں حضرت آمنہ نے ایک سعادت مند بیٹے ہی کو نہیں، ایک تاریخ ساز اور بے مثال انقلاب کو جنم دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپؐ کی تشریف آوری سے دنیا کو شرفِ انسانی کا حقیقی اندازہ ہوا اور انسانی زندگی کا ہر گوشہ سراجِ منیرﷺکی تشریف آوری سے جگمگانے لگا۔ خزاں رسیدہ زندگی میں پُرکیف بہار آئی، انسانیت کفر و شرک اور ظلم و جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر علم کی روشنی اور توحید کے نور سے منوّر ہوئی۔

یہ ربیع الاوّل کا مہینہ، دو شنبہ کا دن اور صبحِ صادق کی ضیا بار گھڑی تھی۔ رات کی تاریکی چَھٹ رہی تھی اور دن کا اُجالا پھیلنے لگا تھا، جب آفتابِ عالم تاب سرکارِ دو جہاں، سرورِ کائنات، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی ولادتِ باسعادت سے کائنات میں ازلی سعادت اور ابدی مسرّتوں کا نُور چمکا۔

رُشد و ہدایت اور ایمان کی ایسی بہار آئی کہ جس کے بعد خزاں نہیں۔ ربیع الاوّل پہلی اور ابدی بہار بن کر انسانیت کو حیاتِ جاودانی عطا کر گئی۔ جسٹس (ر) میاں محبوب احمد کے الفاظ میں، جو اُنہوں نے ممتاز مصنّف، محمّد متین خالد کی کتاب ’’جب حضورﷺ آئے‘‘ کے دیباچے میں ’’حیاتِ نُور‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے ہیں،’’اِس کائناتِ رنگ و بُو میں بہت سی بہاریں مہکیں اور خزاں کا شکار ہوگئیں، بہت سے سورج اُبھرے اور فنا کے گھاٹ اُتر گئے۔ 

بہت سے چاند چمکے اور پھر گہنا گئے، بہت سے پھول کِھلے، پھر مُرجھا گئے۔ہاں، ایک بہار ایسی کہ جسے جانِ بہاراں کہیے، خزاں اُس کے قریب نہ آسکی، ایک سراجِ منیرﷺ ایسا کہ غروب کی سیاہیاں اُس سے آنکھیں نہ ملاسکیں۔ہاں، ہاں، طلعت و زیبائی کا ایسا پیکر کہ کوئی دھندلکا سایہ اُس کے جلووں کو گہنا نہ سکا، ایسا رشکِ گلستاں کہ جس کے تلوے چُومنے کا شرف رکھنے والی پتیاں بھی مُرجھانے سے محفوظ رہیں۔ وہ جانِ بہاراں، سراجِ منیر، بدرِ فلکِ رسالت، فخرِ گُل زارِ نبوّت، ہمارے آقا، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، ہمارے رہبر، حضرت محمّد ﷺ ہیں، جو ہر مومن کی نظر کا نُور، روح کا قرار اور دل کا سرور ہیں۔‘‘

محبوبِ ربّ العالمین، سیّد المرسلین، خاتم النبیّین، رحمۃ لّلعالمین، اِمام الاوّلین و الآخرین، صاحبِ قاب قوسین، مولائے کُل، ختم الرُّسل، محسنِ انسانیت، رہبرِ آدمیت، یتیمِ عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، سیّدِ عرب و عجم، ہادیٔ عالم، حضرت محمّد ﷺ کا ظہورِ قدسی، آپﷺ کی ولادتِ باسعادت اور دنیا میں تشریف آوری ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ اور عظیم انقلاب ہے، جس نے کائنات کو ایک نئی جہت، نیا موڑ اور فلاح و کام رانی کا ایک نیا دستور عطا کیا۔ انسانیت کو جینے کا حوصلہ اور زندہ رہنے کا سلیقہ عطا کیا۔ اس نورِ مبینﷺ کی آمد سے عالمِ شش جہات کا ذرّہ ذرّہ اور حیاتِ انسانی کا گوشہ گوشہ جگمگانے لگا۔

ظلم، جہالت، ناانصافی، کفروشرک اور بُت پرستی میں مبتلا انسانیت مثالی ضابطۂ حیات، احترامِ انسانیت کے شعور سے با خبر، عدل کی بالادستی کے تصوّر سے آگاہ اور ایمان کے نُور سے منوّر ہوئی۔ عالمِ انسانیت کی خزاں رسیدہ زندگی میں پُرکیف بہار آئی۔ ایمان کی دولت نصیب ہونے سے بندگانِ خدا کو وہ منزل ملی، جس سے توحید کا نُور عام ہو اور کفروشرک کی تاریکی چَھٹ گئی۔دعائے خلیلؑ، تمنّائے کلیمؑ اور نویدِ مسیحاؑ، حضرت محمّدﷺ کے ظہورِ قدسی سے انسانیت کی صبحِ سعادت کا آغاز ہوا، ایسا تاریخ ساز انقلاب رُونما ہوا، جس نے توحید و رسالت کا نُور عام کر کے انسانی عزّت و وقار اور اعلیٰ انسانی اقدار بحال کیں۔

رسالت مآبﷺ باعثِ تخلیقِ کائنات، سیّدِ عرب و عجم اور تاج دارِ دو عالم ہیں۔ شاعرِ مشرق، علّامہ اقبال کے بقول، آپﷺ سے عقیدت و محبّت اور عشق کی ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ’’نسخۂ کونین را دیباجہ اوست…جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست‘‘یعنی’’کتابِ ہر دو عالم کا دیباچہ رسولِ اکرمﷺ ہیں، تمام دنیا کے لوگ غلام اور وہ سب کے آقا ہیں۔‘‘نیز، یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ جہاں بھی مخلوق پائی جاتی ہے، جہاں بھی دنیائے رنگ و بُو آباد ہے، وہ ہمیشہ ہمیشہ نورِ مصطفویؐ سے فیض حاصل کرتی رہے گی، ایسا نہیں تو وہ ابھی مصطفیٰ ؐ کی تلاش اور جستجو میں ہے تاکہ اس مقدّس اور برگزیدہ ذاتِ گرامیٔ قدر سے اکتسابِ فیض کرسکے۔ 

اِس حوالے سے اقبال کیا خُوب فرماتے ہیں’’ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بُو…آن کہ از خاکش بروید آرزو…یا زنورِ مصطفیؐ اُو را بہا است…یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیؐ است۔‘‘سیّدِ عرب و عجم، حضرت محمد ﷺ کی عظمت و رفعت اور محبوبیت کے حوالے سے جب ہم آپؐ کے نامِ نامی ’’محمّد‘‘ کی لفظی و معنوی حقیقت دیکھتے ہیں، تو اِس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ ’’محمّد‘‘ کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ وہ ذاتِ ستودہ صفات، جس کی بہ تکرار، مسلسل اور بار بار ہر جہت اور ہر زاویے سے تعریف و توصیف بیان کی گئی ہو، جس کی تعریف کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔

تعریف کے بعد تعریف اور توصیف کے بعد توصیف ہوتی رہے، چناں چہ خود خالقِ کائنات سے لے کر مخلوق تک، انبیائے کرامؑ سے جنّ و مَلک تک، حیوانات سے جمادات تک، غرض ہر ذی رُوح اور غیر ذی رُوح سب نے آپؐ کی تعریف بیان کی اور آج بھی دنیا کے ہر کونے میں، فرشِ زمیں کے ہر گوشے میں، اربوں اہلِ ایمان کی زبانیں لیل و نہار کی مختلف گھڑیوں میں، نہ جانے کتنی بار آپؐ کی تعریف و توصیف کے لیے رطب اللّسان نظر آتی ہیں۔ آپؐ کے شمائل و محاسن اور محامد کا ذکرِ جمیل تا ابد جاری رہے گا۔

جس طرح فخرِ دو عالم، حضرت محمّد ﷺ کی عظمت و رفعت کائنات کی ایک روشن ترین حقیقت اور دائمی عمل ہے، اسی طرح آپﷺ کی تعظیم و توقیر، ادب و احترام اور آپﷺ سے غایت درجہ عقیدت و محبّت اور وارفتگی کا جذبہ بھی اہلِ دل کی متاعِ حیات اور اہلِ ایمان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’لا یُؤمنُ احدُ کُم حتیٰ اکون احبّ الیہ من وّا لدہ وولدہ والنّاس اجمعین‘‘(بخاری و مسلم)۔ یعنی’’تم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک صاحبِ ایمان نہیں ہو سکتا، جب تک کہ مَیں اُس کے نزدیک، اُس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جائوں۔‘‘رسولِ اکرم ﷺ سے عقیدت و محبّت کے اظہار میں اسلامی تاریخ کے ہر دَور میں اہلِ ایمان نے بے مثال تاریخ رقم کی۔ 

تاہم، عہدِ نبویؐ میں صحابۂ کرامؓ نے آپؐ کی ذاتِ گرامی سے جس وارفتگی، عقیدت و محبّت اور جاں نثاری و فداکاری کے مظاہر پیش کیے، پوری انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔6 ہجری میں صلحِ حدیبیہ کے موقعے پر مکّے کے نام وَر اور جہاں دیدہ سردار، عروہ بن مسعود ثقفی، جو اُس وقت تک دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، اہلِ مکّہ کی جانب سے سفیر اور اُن کے نمائندے بن کر بارگاہِ نبویؐ میں حدیبیہ کے مقام پر حاضر ہوئے۔ 

اُنہوں نے سرکارِ دوجہاں، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ سے صحابۂ کرامؓ کی عقیدت و محبّت، حد درجہ تعظیم و توقیر اور وارفتگی و جاں نثاری کا جو منظر دیکھا، اہلِ مکہ کے سامنے اُس کی یوں منظر کشی کی’’اے میری قوم! بخدا، مَیں کئی بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہوا ہوں، مگر بخدا، مَیں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا، جس کی تعظیم و تکریم اُس کے رفقاء اور درباری اس حد تک کرتے ہوں، جس حد تک محمّدﷺ کے صحابہؓ اُن کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں۔ 

اُن کے ساتھی محمّدﷺ کا لعابِ دہن نیچے نہیں گرنے دیتے بلکہ وہ کسی نہ کسی کی ہتھیلی پر گرتا ہے اور وہ حصولِ برکت کے لیے اُسے اپنے چہرے اور جِلد پر مل لیتا ہے اور جب وہ اُنہیں کسی بات کا حکم دیتے ہیں، تو وہ اُس کی تعمیل میں جلدی کرتے ہیں اور جب محمّدؐ وضو کرتے ہیں، تو وضو کا مستعمل پانی حاصل کرنے کے لیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ باہم لڑ پڑیں گے اور جب آپﷺ گفتگو کرتے ہیں، تو سب کی آوازیں پَست ہوجاتی ہیں اور حد درجہ تعظیم کے باعث وہ آپؐ کی جانب نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔‘‘(بخاری/الجامع صحیح)۔روایت کے مطابق انصارؓ کی ایک خاتون نے، جس کا باپ، بھائی، شوہر اور جگر گوشہ غزوۂ اُحد میں شہید ہوگئے تھے، صحابہ کرامؓ سے دریافت کیا کہ’’ رسول اللہ ﷺ کس حال میں ہیں؟‘‘ صحابہؓ نے کہا کہ’’ رسولِ اکرم ﷺ بخیروعافیت ہیں۔ 

حضورِ اکرمﷺ اُسی طرح ہیں، جس طرح تم آپﷺ کو دیکھنے کی خواہش مند ہو۔‘‘ یہ سُن کر اضطراب اور بے چینی کے عالم میں اُنہوں نے کہا کہ ’’مجھے دِکھائو، حضور اکرم ﷺ کہاں ہیں؟‘‘ جب اُس خاتون نے رسول اللہ ﷺ کا دیدار کر لیا اور حضورِ اکرمﷺ کو بخیریت پایا، تو اچانک اُس کے منہ سے یہ جملے نکلے کہ’’یارسول اللہﷺ! اگر آپﷺ سلامت ہیں، تو آپﷺ کی سلامتی کے بعد بڑی سے بڑی مصیبت اور آزمائش میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔‘‘(علی بن برہان الدین الحلبی/السیرۃ الحلبیہ۔ الصالحی الشامی/سُبل الہُدیٰ و الرشاد)۔ اہلِ ایمان کے دل سرورِ کائناتﷺ کی محبّت کے چراغ سے روشن رہتے اور آپﷺ کے گلستانِ عقیدت و محبّت کی خوش بُو سے مہکتے اور لہلہاتے ہیں۔ 

ان کے دِلوں کی دھڑکن اور ہر سانس کی آمد رسولِ اکرمﷺ کی عقیدت و محبّت، آپﷺ کی عظمت و رفعت کے اظہار اور آپﷺ کے ذکر سے مشروط ہے۔ رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہمارے دِلوں کا کعبہ اور ہماری رُوحوں کا قبلہ ہے۔کعبۃ اللہ عبادت و بندگی کا قبلہ ہے، تو آپﷺ کی ذاتِ گرامی عقیدت و محبّت کا قبلہ ہے۔ 

آپﷺ کی ذاتِ گرامی قبلہ نُما ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے ہماری اطاعت و محبّت اور غلامی کا رشتہ جتنا مضبوط ہو گا، اُتنا ہی ہمارا قبلہ محفوظ ہو گا، یہی فلاح و کام یابی کا راستہ اور یہی نجات کی ضمانت ہے۔اقبال کیا خُوب کہتے ہیں’’در دلِ مسلم مقام مصطفیٰ ؐ است…آبروئے ما زنامِ مصطفیٰ ؐ است۔‘‘ اقبال ملّتِ اسلامیہ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ سرورِ کائنات، حضرت محمّد مصطفی ﷺ کے عشق اور آپﷺ کی اطاعت ومحبّت میں مخمور ہوکر پورے عالم اور پوری کائنات میں اسمِ محمّدﷺ سے اجالا کردیں، آپ ﷺکا پیغام دنیا میں عام کریں۔ 

چناں چہ وہ کہتے ہیں’’قوّتِ عشق سے ہر پَست کو بالا کردے…دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کردے۔‘‘(بانگِ درا، ص 207)۔حقیقت یہ ہے کہ ہم دنیا میں باوقار قوم اُسی وقت بن سکتے ہیں اور اقوامِ عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام اُسی وقت حاصل کرسکتے ہیں، جب رسالت مآب ﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں، آپﷺ کی اطاعت و محبّت ہمارا شعار اور آپؐ کی تعلیمات کی پیروی ہمارا ضابطۂ حیات ہو۔ 

آج ہم بحیثیت قوم و ملّت تعلیماتِ نبویؐ سے انحراف اور شریعتِ محمدیؐ سے رُوگردانی کے سبب اس مقام پر ہیں کہ امن ہے، نہ خوش حالی۔ عزّت حاصل ہے، نہ وقار۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عزّت و عظمت دامنِ مصطفیٰ ﷺ سے وابستگی میں ہے، آپﷺ کی تعلیمات کی پیروی اور آپﷺ کے اسوۂ حسنہ کا اتباع ہی دین و دنیا میں فلاح و کام یابی کی کلید، آخرت میں نجات اور ابدی کام رانی کی ضمانت ہے۔ ہماری موجودہ پریشانی اور زبوں حالی کی بنیادی وجہ شریعتِ محمّدیﷺ سے انحراف اور تعلیماتِ نبویؐ کی پیروی نہ کرنا ہے،جب کہ ہماری عظمت و بقا کا راز صرف اور صرف تعلیماتِ نبویﷺ کی پیروی میں مضمر ہے۔