• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت کی طرف سے ایکسپورٹ انڈسٹری کو دیا گیا خصوصی انرجی ٹیرف یکم اکتوبر سے ختم کرنے کے فیصلے نے ترقی کی جانب گامزن ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایک مرتبہ پھر بریک لگا دی ہے۔ یہ فیصلہ اس وجہ سے بھی افسوسناک ہے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے بجلی کی قیمت پہلے ہی گزشتہ سال ساڑھے سات سینٹ سے بڑھا کر نو سینٹ فی کلو واٹ کر دی گئی تھی۔ تاہم اب یکدم ہی ایکسپورٹرز کیلئے بجلی کی قیمت میں کم از کم ڈیڑھ سے دو گنا اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے برآمدات میں اضافے کے ذریعے معاشی استحکام کے حصول کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا۔ اس طرح پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری خطے کے دو دیگر بڑے ٹیکسٹائل برآمد کنندگان بنگلہ دیش اور بھارت سے مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گی۔ اس وقت بھارت میں انرجی ٹیرف سات سے آٹھ سینٹ اور بنگلہ دیش میں نو سینٹ فی کلوواٹ ہے جبکہ پاکستان میں اب ممکنہ انرجی ٹیرف 11 سے 12 سینٹ تک بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ ملک پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجود ہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد ایکسپورٹرز کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ کم از کم اگلے ایک سال تک انرجی ٹیرف میں اضافہ نہیں کیا جائے گا لیکن اب یہ اقدام کر کے حکومت نے خود ہی اپنی ساکھ خطرے میں ڈال لی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف پاکستان میں زرمبادلہ کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہے بلکہ روزگار کی فراہمی میں بھی اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ محکمہ شماریات کی طرف سے جاری کر دہ اعداد وشمار کے مطابق مالی سال 22-2021ء کے دوران پاکستان کی مجموعی برآمدات تقریبا 32 ارب ڈالر رہیں ۔ ان میں ٹیکسٹائل برآمدات کا شیئر 19.4ارب ڈالر ہے ۔ اس طرح مالی سال 22-2021ء میں پاکستان کی مجموعی برآمدات میں گزشتہ مالی سال کی نسبت 27 فیصد جبکہ ٹیکسٹائل برآمدات میں 26 فیصد کا تاریخی اضافہ ہوا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو سال میں ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے سالانہ 25 ارب ڈالر کی برآمدات کی استعداد حاصل کی ۔ تاہم انڈسٹری کی یہ بھاری سرمایہ کاری حکومت کے اس ایک فیصلے سے برباد ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ اگر پاکستان کے ایکسپورٹرز خطے کے دیگر ٹیکسٹائل برآمد کنندگان سے مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے تو پھر انہیں برآمدی آرڈرز بھی کم ہی ملیں گے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کوماضی میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ایک عشرے پر محیط انرجی بحران اور دیگر وجوہات کی وجہ سے کئی بڑے ٹیکسٹائل گروپس کے صنعتی یونٹ بند ہونے سے جہاں بیروزگاری میں اضافہ ہوا تھا وہیں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں بھی نمایاں کمی آئی تھی ۔موجودہ حالات میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ بیرون ملک سے ملنے والے برآمدی آرڈرز کو کس طرح بروقت پورا کیا جا ئے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کی طرح عالمی معیشت پر چھائے بے یقینی کے بادلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں بھی صارفین کی قوت خرید میں کمی آئی ہےاور وہ اپنی آمدن کا زیادہ حصہ روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ یاد رہے کہ جب 'نائن الیون ' حملوں کے بعد امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے ملنے والی مراعات کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بڑے پیمانے پر توسیع کی جا رہی تھی ۔اس وقت حکومت نے انڈسٹری کی انرجی کے حوالے سے ضروریات کو ہنگامی بنیادوں پر پورا کرنے کیلئے گیس سے بجلی پیدا کرنے کی اجازت دیدی تھی جس کی وجہ سے انڈسٹری کے بڑےحصے نے اپنے جنریٹرز لگا کر گیس سے بجلی کی پیداوار شروع کر دی تھی لیکن بعد میں جب ملک میں گیس کا بحران پیدا ہوا تو انڈسٹری کو یکدم گیس کی فراہمی رو ک دی گئی جس سے تقریبا 20 سے 30 دن تک انڈسٹری بند رہی اور اس فیصلے سے بڑے بڑے صنعتی یونٹس یکدم خسارے میں چلے گئے تھے۔ اس وقت بھی اگر حکومت نے ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے انرجی ٹیرف ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہ لیا تو ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جس نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے ازالےکیلئے پھر کئی سال لگ جائیں گے اور گزشتہ چند سال کے دوران ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی جانب سے برآمدات بڑھا کر ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے کی جانے والی کوششیں بھی رائیگاں چلی جائیں گی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو یاد ہو گا کہ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ ن کی حکومت برسراقتدار آئی تھی تو اصولی طور پر یہ پالیسی طے کر دی گئی تھی کہ بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی کیلئے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو قرضے ری شیڈول کرنے کا کہا جائے گا ۔ بعدازاں جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم اور مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ بنے تو اس پالیسی پر باقاعدہ عمل درآمد بھی شروع کیا گیا لیکن بعض بینکوں اور مالیاتی اداروں کی جانب سے معاملات عدالتوں میں لے جانے کی وجہ سے بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہی۔ بعدازاں جب عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے پہلے اسد عمر کو بطور وزیر خزانہ اور پھر عبدالرزاق دائود کو بطور مشیر ٹیکسٹائل اس پالیسی پر جلد سے جلد عملدرآمد یقینی بنانے کا ٹاسک دیاتھا۔ اب بھی وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے مفاد میں گزشتہ حکومت کا دیا ہوا انرجی ٹیرف بحال رکھے تاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری اور پاکستان کی برآمدات میں ترقی کا سفر جاری رہ سکے۔

تازہ ترین