• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بد سے بدنام بُرا۔’’ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘کے درمیان زبردست معرکہ آرائی جاری ہے۔ دیکھتے ہیں اس معرکے میں’’ بد سے بدنام برا ‘‘کامیاب ہوتا ہے یا ’’ بدنام اگرہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ‘‘والے جیتیں گے۔ کہتے ہیں کہ سچ ابھی جوتے پہن رہا ہوتا ہے اور جھوٹ آدھی دنیا کا چکر کاٹ لیتا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ جھوٹا انسان جب چاہے آسانی سے یوٹرن لے سکتا ہے۔ خان صاحب کی کس کس ادا پر جان نچھاور کریں۔ امریکی سازشی بیانیے پرکیا کیا نہ سنا اور بھگتا، پھر بھی کپڑے جھاڑ کر کہتے ہیں کہ ’’دوپئیاں کدھر گیئاں‘‘مگر اس کے بعد بھی خود کو دودھ سے دُھلا قرار دیتے ہیں ۔ معزز جج صاحبہ کو دھمکی دیتے تھے کہ تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اب انہی معزز جج صاحبہ کی غیر حاضری میں عدالت پہنچے تو ریڈر سے کہتے ہیں جج صاحبہ! زیبا چودھری سے کہناعمران خان معافی مانگنےآیا تھا ۔ کسی کی ذاتی زندگی سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ یہ اللہ جانے اور بندہ۔ لیکن شہباز شریف کو شوباز کہنے والے کو اتنا تو خیال رکھنا چاہئے کہ ہیلی پیڈ سے جلسہ گاہ تک چند منٹ کے سفر میں نماز ہیلی پیڈ کے مسافر خانے میں بھی پڑھی جاسکتی تھی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ریاستِ مدینہ کے دعوے دار کس منہ سے کعبے جائیں گے ؟نام نہاد احتساب کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ امریکی، شریکی، افریقی بیانیے دو ہی آڈیو لیکس سے زمین بوس ہوگئے۔ خان صاحب،تھوڑی سی داد، ستائش، خوشامد اسلام آباد ہائی کورٹ کی بھی ہو جائے۔ ایک جلسہ مریم نواز کی بے گناہی کے فیصلے پر معزز چیف جسٹس اطہر من اللہ کی شان میں بھی ہو جائے۔ کبھی کبھی انسان کو منہ کا ذائقہ تبدیل کرہی لینا چاہئے۔ سازشی کہانی پارٹ ٹو کے کرداروں اعظم خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور آپ کی گفتگو عوامی عدالت میں از خود نوٹس کی بنیاد پر سنی گئی۔ بہت افسوس کے ساتھ عوامی عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آپ نے ایک سفارتی سائفر کو لیٹر اور ٹرانسکرپٹ میں گڈ مڈ کرکے ملکی مفاد اوردو ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کو اپنے سیاسی مقاصد کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی۔ عدالت نے یہ قرار دیا ہے کہ آپ نے نہ صرف ایک طاقت ور ملک کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی بلکہ اس ملک سے جڑے پاکستان کے قومی مفادات کو بھی بُری طرح نقصان پہنچایا۔ آپ نے خود ساختہ سازش کی بنیاد پر اداروں اور ان کی اعلیٰ ترین شخصیات کو متنازعہ بنانے کی کوشش تاحال جاری رکھی ہوئی ہے۔ آپ ایک جھوٹ چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولتے ہیں۔ عوام کو اداروں کے خلاف اُکساتے، نوجوان نسل کو گمراہ کرتے اور اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ایسی آتش بیانی کرتے ہیں کہ پاکستان کی75سالہ سیاسی تاریخ میں کسی کو ایسی جرأت نہیں ہوئی۔ عوامی عدالت آپ کو اس مجرمانہ حرکت پر سر عام ناک سے سو لکیریں نکالنے کی سزا سناتی اور اداروں کے صبر پر انہیں داد دیتی ہے کہ اس سازش پر ابھی تک کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا۔ آپ (عمران خان) کو خبردار کیا جاتا ہے کہ آئندہ ایسی سرگرمیوں سے باز رہیں۔ حد سے تجاوز ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ بار بار مشورہ دینے کے باوجود آپ نے ایک بار پھر ایڈورڈ کالج پشاور میں طلبہ سے خطاب کے دوران نیوٹرل سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ملک اگرلوٹا جارہا ہو تو کیا محافظ کہہ سکتا ہے کہ میں نیوٹرل ہوں۔“ اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ قوم کو جلد کال دوں گا پھر واپسی نہیں ہوگی۔ مان لیا آپ غیر ضروری طور پر جذباتی ہو رہے ہیں اور حالات کے دباؤ کا شدید شکار ہیں،جسے پیغام دینا مقصود ہے اور جسے آپ دباؤ میں لا کر اپنے حق میں فیصلہ چاہتے ہیں وہ بھی یہ جانتے ہیں کہ آپ جس حد تک چلے گئے اس سے آگے تو جا نہیں سکتے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کی آخری پناہ گاہ ایک بار پھر اسمبلی میں دھکے سے واپسی ہو اور یہ کام آپ پہلے بھی کرچکے ہیں اورواپسی پر کرایہ بھی پُورا وصول کرتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی سوچ پر نظر ثانی کریں، حالات جس رُخ موجودہ اتحادی حکومت کے حق میں ہوتے نظر آرہے ہیں، جس تیز رفتاری سے شہباز کی پرواز ہو رہی ہے اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے جس انداز میں آپ کے عالمی برادری سے بگاڑے ہوئے سفارتی و دوستانہ تعلقات کو سنبھالا اور بحال کیا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران عالمی توجہ و حمایت حاصل کرکے دنیا کو دوستی ، تعاون اور شراکت داری کا پیغام دیا ہے، اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ایسے حالات میں جب ملکی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی جارہی ہے ڈار کے ڈر سے ڈالر نیچے آرہا ہے، پٹرول سستا کیا جارہا ہے۔ آپ احتجاج دھرنا دیتے بالکل بھی نہیں جچتے۔ آپ اگراسلام آباد پر ان حالات میں چڑھائی کریں گے تو خود ساختہ امریکی سازشی بیانیہ آپ کے گلے کا پھندا بن جائے گا اور یہ دلیل مزید طاقت پکڑے گی کہ آپ اقتدار کی ہوس میں پورا نظام ہی لپیٹ دینا چاہتے ہیں آپ کا اندازِ سیاست جمہوری نظام میں خلل ڈال کر غیر جمہوری قوتوں کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ نہ چھیڑ ملنگاں نوں، وقت ایسا پلٹا کھائے گا کہ آپ خالی ہاتھ دیکھتے رہ جائیں گے۔ آثار ایسے ہیں کہ آپ کے بہت سے قریبی ساتھی ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ خوابوں کی دنیا سے باہر نکل آئیے ۔ یہ پاکستان ہے یہاں کی سیاست کے انداز نرالے ہیں۔ کل ڈار کے ڈر سے مہنگائی کا جن قابو میں آگیا تو سمجھیں آپ بھی بوتل میں بند ہوگئے۔ پھر رہے گا صرف رب کا نام۔

تازہ ترین