جب بابے سے پوچھا گیا تو وہ اپنی بیوی کے اس انکشاف پر بھونچکارہ گیا اور ایک لفظ بھی نہ بول پایا۔ صُغراں کو ڈاکٹر کے پاس بہ غرضِ علاج لے جایا گیا تو اُس نے بتایا کہ یہ فاسد مادّوں کی وجہ سے ہے اور اس کی سرجری کرنا پڑے گی۔ اس کا کسی چوٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ گویا بابا اقبال کا گُنگ ہو جانا عین فطری تھا۔ چند روز میں ہمارے زیرِتعمیر گھر میں نہ صرف چڑیوں، کبوتروں، میناؤں، توتوں، بلبلوں اور دیگر پرندوں کی بھرمار ہوگئی بلکہ وہ بغیر کسی خوف کے بابا اقبال کے قریب آکر بیٹھ جاتے۔ وہ اُنھیں پیار سے تکتا اور پچکارتا رہتا۔ جب سے اُس نے آوارہ کُتّوں کو کھانا ڈالناشروع کیا تھا، وہ بھی آجاتے تھے، پر کم کم۔
کنٹونمنٹ بورڈ آوارہ جان وروں کے بارے میں سختی کرتا تھا اور بے ٹھکانا کُتّوں کو اُٹھا کر لے جاتا تھا۔ گھر کی تعمیر کےبعد اُسے ملازمین کے حصّے میں دو کمرے، صحن، غسل خانہ اور اسٹور مل گئے تھے، بجلی، گیس، پانی مفت تھے۔ اُس نے اُس حصّے پر حقِ ملکیت کے اعتماد سے اپنے خاندان کے ساتھ جابسرام کیا۔ اُس کی نوبیاہتا بیٹی کے حوالے باورچی خانہ ہوگیا اور داماد کو ڈرائیور کی ذمّے داریاں تفویض ہوئیں، جو چھتیس برس بعد آج بھی جُوں کی تُوں موجود ہیں۔ ہم شامی روڈ پر واقع اپنے آبائی گھر سے موجودہ گھر میں آئے، تو ہماری پالتو کُتّیا مَونی ہمارے ساتھ تھی۔ وہ اصل نسل روسی کُتّیاتھی، اور نسل درنسل ہمارے پاس چلی آرہی تھی، سفید بالوں سے ڈھکی، کھڑے کانوں اور کھڑی دُم والی مونی اشارے سمجھتی تھی۔
ہمارے ہاں اِس سے پہلے کئی پالتو جان وَر رہے اور بعد میں بھی، لیکن مونی جیسی ذہانت کسی میں نہ پائی۔ لان میں نیم غنودگی کے عالم میں بھی وہ ایک آنکھ پرندوں پر رکھتی تھی۔ اُسے پرندوں سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ جب کوئی پرندہ لان میں اُترتا تو وہ سمجھتی کہ اُس نے اُس کی حدود میں مداخلت کی ہے، سو وہ گولی کی رفتار سے اس پر لپکتی۔ درختوں کی شاخوں، تنوں اور دیواروں پر بیٹھنے والے پرندوں تک اس کی پہنچ نہ تھی، سو وہ مجبوراً اُنھیں نظر انداز کردیتی تھی۔ ہمارے اس گھر میں منتقل ہونے سے پہلے چند قدم کے فاصلے پر واقع آبائی گھر پر بابا اقبال کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وہاں اس کی مونی سے علیک سلیک ہوچُکی تھی۔
بلکہ بات علیک سلیک سے بڑھ چُکی تھی، وہ ایک دوسرے کی آنکھوں کے اشارے سمجھنے لگ گئے تھے۔ کُتّوں کی چَھٹی حِس بہت تیز ہوتی ہے۔ایک انسان دوسرے انسان کو سمجھنے میں عُمر لگا دیتاہے، بعض اوقات زندگی بھر سمجھ نہیں پاتا۔ کُتّا ایک نظر میں انسان کو پہچان لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پہلی ملاقات ہی میں کُتّا کسی اجنبی انسان کے پیروں میں لوٹنے لگتا ہے یا اُس کے قریب آجاتا ہے۔ بابا اقبال اور مونی میں ابتدائی شناسائی بہت جلد ایسی قربت میں بدل گئی کہ وہ اکثر وبیش تر کسی ناشناسا زبان میں ’’باہمی دل چسپی‘‘ کے امور پر گفت گو کرتے نظر آتے۔ بابا اُس سے پنجابی میں باتیں کر رہا ہوتا اور وہ دُم ہلاتی، اچھلتی کُودتی سفید اون کے گولے کی مانند اس کے پیچھے ہوتی۔
وہ ایک دوسرے کی ناک سے ناک جوڑے، آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سرگوشیاں بھی کر رہے ہوتے۔ کبھی بابا مونی سے ناراض ہوتا تو وہ اُسے ڈانٹتا نہ تھا، بلکہ غم ناک نظروں سے دیکھتا اوراُس سے بول چال بند کردیتا۔ لاتعلقی مونی کے لیے سب سے بڑی سزا ہوتی۔ وہ بابا اقبال کو منانے کی ہرممکن کوشش کرتی۔ کبھی کوئی کھلونا دانتوں میں دبائے اُچھلتی ہوئی اُس کے قدموں میں لا رکھتی تو کبھی کوئی ہڈی۔ نہ جانےکیوں وہ اپنی پسندیدہ ہڈی گھر کے کسی کونے کُھدرے میں، نرم مٹّی والے گوشے میں دبا دیتی تھی۔ اپنے اگلے پیروں سے وہ کیاری یا نرم مٹّی کو کھودتی اور ہڈی نکال کر بابا اقبال کے قدموں میں ڈھیر کردیتی۔ اُس کا خیال تھا کہ جو شے اُسے عزیز ہے، وہ بابا اقبال کو بھی عزیز ہوگی۔ بابا اقبال اُس کی معصوم حرکتوں پر ’’جھّلی‘‘ کہتا ہوا اُسے گود میں بَھرلیتا اور اُس کی ناراضی ختم ہوجاتی۔
اُن دنوں ایک عجیب معاملہ ہوا۔ ایک یک چشمی بڑے قد کاٹھ کا بِلا کہیں سے اقبال کے جی کو بھا گیا۔ اُسے وہ گھر لے آیا۔ پرانے وقتوں کے ایک آنکھ والے بحری قزّاقوں کی طرح اُس نے بِلّے کی ایک آنکھ پر یوں چمڑے کا ٹکڑا کس کرباندھ دیا، جیسے اندھیرے کمرے کی کھڑکی پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ چمڑے کے ٹکڑے کو بِلّے کے سَر کے پیچھے اور ٹھوڑی کے نیچے سے دھاگے، رسیوں سے باندھ دیا گیا۔ اُس نے بِلّے کا نام ’’شوکت‘‘ رکھا، جسے محبت میں بگاڑ کر اُس نے ’’شوکا‘‘ کر دیا۔ ’’شوکا‘‘ ایک بہادر، پر سُست الوجود اور بڑے ڈیل ڈول کا بِلّا تھا، جو بُل ڈاگ سے مشابہ تھا۔
جب کوئی جان وَر یا پرندہ اُسے چھیڑتا تو وہ اُسے اپنی خوں خوار آنکھ سے دیکھتا، البتہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کرتا۔ اُس کا مطمع زندگی فقط کھانا اور سونا تھا۔ اُس کی کسی جان وَر یا پرندے سے دُشمنی نہ تھی۔ وہ ’’صلح کُل‘‘ کا قائل تھا اور جب تک کوئی آکر اُسے چھیڑتا نہیں، وہ ’’رواداری‘‘ اور ’’روشن خیالی‘‘ کے نظریات کے تحت تمام جان داروں کو ان کی مرضی کی زندگی گزارنے دیتا۔ مونی اُس کے آنے سے سخت پریشان تھی۔ بابا اقبال کی توجّہ بَٹ گئی تھی۔ ویسے بھی کُتّے، بِلّی کی کبھی بنی نہیں ہے۔ شروع کے دِنوں میں وہ کھاپی کر جھومتا جھامتا، نشے میں مست ہاتھی کی طرح لان کے وسط میں دھوپ سینکتےہوئےسو جاتا تھا۔
سردیوں کے دن تھے۔ وہ جگہ مونی کے لیے مخصوص تھی۔ جب اُس نے شوکے کو وہاں سستاتے دیکھا، تو اُس سے برداشت نہ ہوا۔ وہ بھونکتی ہوئی آتی، اُس پر پاگل پَن کا دورہ پڑا ہوتا، اُس کا بس نہ چل رہا ہوتا کہ پنجا مار کر شوکے کی دوسری آنکھ نکال ڈالے۔ شوکا مونی کو نظر انداز کردیتا۔ مونی اُس پر لپکتی،تویوں لگتا،جیسے ایک سفیدخرگوش، بھیڑیے پر لپک رہا ہو۔ وہ جسامت میں مونی سے بڑا تھا اور مونی پالتو جان وَر، مونی کوئی جنگلی خوں خوار درندہ تو نہ تھی۔ سو وہ بھونکنے، دانت نکوسنے کے سوا کچھ نہ کرپاتی۔ شوکا شور سُن کر نیند سے بیدار ہوتا، ایک آنکھ کھول کر بھونکتی، چنگھاڑتی مونی کو دیکھتا اور آنکھ بندکرلیتا۔
مجھے یقین ہے کہ وہ دل ہی دل میں ہنستا بھی ہوگا۔ مَیں نے اورمیرے اسکول جاتے بھائیوں نے اپنی سی کوشش بھی کر ڈالی۔ ہم ہم سایوں کے کُتّے لائے اور شوکے پر چھوڑ کر دیکھا کہ وہ کس طرح ردعمل دیتا ہے۔ چھوٹے موٹے کُتّوں کو اس نے درخور اعتنانہ جانا۔ ایک مرتبہ ایک بڑا کُتّا اُس پر چڑھ دوڑا تو شوکا سراسیمہ ہو کر لان کے کونے سے جا لگا، جب وہ بالکل کارنر ہوگیا اوراس کے پاس فرار کا کوئی رستہ نہ رہا تو وہ غُراّ اُٹھا اورایک وحشی جان وَر کی طرح یوں کُتّے پر لپکا کہ کُتّا چُوں چُوں کرتا ایک جانب ہوگیا۔ قبل اس کے کہ خون خرابا ہوتا، ہم نے انھیں چُھڑوایا۔ ہمارا مقصد شوکے کو نقصان پہنچانا نہ تھا بلکہ اُس کا ردعمل دیکھنا تھا۔
کبھی سردیوں میں چُھٹی کے دن گھر کے لان میں خاندان بھر کو دعوت پر مدعو کیا جاتا تو شوکا صوفے، کرسیاں رکھنے اور قالین بچھانے کی راہ میں حائل ہو جاتا۔ اُسے ہم ہاتھوں، لاتوں سے گھسیٹ کر کونے میں کرنے کی کوشش کرتے تو بھی وہ جانے سے انکار کردیتا۔ اگر گِھسٹ کردور چلا جاتا تو بھی چل کر واپس آجاتا۔ ایسا بھی ہوتا کہ ہم اُس کے جسم کے نیچے سے لکڑی کاایک پھٹّا یوں گزارتے کہ وہ اُس کے درمیان میں آجاتا۔ پھر ہم پھٹّے کو ڈولی کی طرح اُٹھاتے، شوکا دلہن کی طرح اُس پربیٹھا ہوتا اور ہم اُسے اُٹھا کرپشتی لان میں چھوڑ آتے۔ وہ اتنا سمجھ دار ضرور تھا کہ جانتا تھا کہ اب اُسے مزید ضد چھوڑ دینی چاہیے۔
جب شوکا ہمارے گھر سے گیا تو مونی نے سُکون کی سانس لی۔ میری والدہ کو راتوں کو روتی بلیوں سےوحشت ہوتی تھی، اُن کا جی سہم جاتا تھا اور وہ ملازمین کی مدد سے اُن بلیوں کو بوری میں بند کروا کر تیس پینتیس کلومیٹر دور دریائے راوی کے پار بھجوا دیتی تھیں۔ حیران کُن طور پر دوچار بلیاں گلیوں، سڑکوں کی بھول بھلیوں سے گزر کر چند روز میں واپس بھی لوٹ آئی تھیں، زیادہ تر وہیں رہ گئی تھیں۔ شوکے کی اصل دشمن مونی نہیں، بابا اقبال کی بیوی صُغراں تھی، جس کا خیال تھا کہ شوکا اُس کے حصّے کا کھانا کھا اور دودھ پی جاتا ہے۔ میرے والدین بھی اُس کے ہم خیال تھے۔ جب سب نے بابا اقبال کو مجبور کیا تو بادل نخواستہ وہ شوکے سے جدائی پر آمادہ ہوا اور شوکے کو راوی پار چھوڑدیا گیا۔
اُس روز کے بعد شوکا دوبارہ نظر نہ آیا۔ شاید اُس کا دل ٹوٹ گیا تھا، شاید اس کا انسانیت سے اعتبار ختم ہوگیا تھا یا شاید وہ واپسی کا رستہ بھول گیا تھا۔ مونی کا لاڈ پیار، ناز نخرے پھر سے شروع ہوگئے۔ اگرکوئی لاڈ اُٹھانے والا ہو تو جی بھی نخرے کرنے کو کرتا ہے۔ بابا اقبال کے ایک شوق سے سارا علاقہ واقف تھا۔ اُسے پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ یہ شوق مرنے تک قائم رہا۔ وہ گورومکھی باآسانی پڑھ لیتا تھا، اُس نے اردو اور پنجابی پڑھنی ستّر برس کی عُمر میں سیکھنی شروع کی۔ کچّی جماعتوں کے حروفِ تہجّی والے قاعدے وہ اکہتّر برس کی عُمر میں لایا، کچھ عرصہ حروف کی پہچان میں لگا، زیادہ دِقّت اُسے حروف کو جوڑنے میں پیش آتی تھی۔
وہ ہر آتے جاتے سے حروف اور الفاظ پُوچھتا، وقت گزرنے کے ساتھ وہ صوفی شعرا کا پنجابی کلام لے آیااورایک وقت ایسا آیا کہ شاعری کی وہ موم جامہ چڑھی کتابیں بار بار استعمال سے اُن کے اوراق پیلے پڑگئے اور الفاظ مِٹنا شروع ہوگئے۔ بابا اقبال اُن کتابوں کو جان سے زیادہ عزیز، سینے سے لگا کر رکھتا تھا۔ اُس کی اصل ذمّے داری اِس بات پر نظر رکھنا تھی کہ کوئی اجنبی بِلا اجازت گھر میں داخل نہ ہو، کوئی شخص گھر سے چیز اُٹھا نہ لے جائے اور رات میں کوئی چور گھر میں داخل نہ ہو۔ اُن دِنوں گھروں کے نام ہوا کرتے تھے، جیسے راحت کدہ، فردوس بریں، گوشۂ برجیس، اخترمنزل وغیرہ۔ آہستہ آہستہ نام رکھنے کی روایت ختم ہوتی چلی گئی۔
اِسی طرح گھروں کے دروازے کُھلے رکھے جاتے تھے۔ خطرہ نہ ہوتا تھا کہ ڈاکو رات کو گھر میں داخل ہوجائیں گے۔ شہر کے کسی مقام پر ڈاکا پڑنا ایک بڑی خبرہوتی تھی۔ چھاؤنی میں زیادہ سے زیادہ رمبے، کُھرپے، تسلے، باغ بانی کے اوزار یا مختلف نوع کی چھوٹی موٹی اشیا چوری ہوجاتی تھیں، ڈکیتی قتل وغیرہ کا تو فقط نام سُنا گیا تھا، کبھی ایسی کوئی خبر نہ آئی تھی۔ سو، ایک پہرے دار یا چوکی دار کی ذمّے داری رسمی نوعیت کی ہوتی تھی۔ اُسے خاصا فارغ وقت میسّر ہوتا تھا۔
بابا اقبال دن بھر سائے میں بیٹھا ہجّے جوڑ جوڑ کر صوفیانہ کلام پڑھتا رہتا، گھر کے باہر راہ گیروں سے علیک سلیک کرتا اور اُس کلام کو یاد کرتا رہتا، مونی اس کے گرد کھیلتی گلہریوں، بلیوں، باغیچے میں بیٹھنے والے پرندوں کا پیچھا کرتی رہتی، شام کو بابا بانسری ہونٹوں سے لگا لیتا اور سماں باندھ دیتا۔ وہ صوفیانہ اشعار، دوہے جو اسے ازبر ہوتے، اس کی گفت گو میں جابہ جا آتے تھے۔ جان وَروں، پرندوں کے علاوہ اُسے بچّوں سے بھی بہت محبّت تھی۔ہم چاروں بھائی تب اسکول جاتے تھے۔ سو، وہ ہم سے بےحد شفقت اور محبّت کا رویہ رکھتا تھا۔ جب کبھی سوداسلف لینے بازار جاتا تو واپسی پر ہمارے لیے اپنی محدود تن خواہ میں سے ٹافیاں لے کر آتا تھا۔ اُس کی محبّت دکھاوے کی نہ ہوتی تھی، روح کی گہرائیوں سے نکلتی تھی۔
ایک مرتبہ ہمیں ٹافیاں دینے کے بعد وہ گھر کے باہر واقع باغ میں جابیٹھا۔ مَیں کسی کام سے اُس کے پیچھے پیچھے باہر کو آیا تو وہ سِلور بلوط کے درخت کے برابر بیٹھا ٹافیوں کے لپیٹن اُتار رہا تھا اور مونی کو کہہ رہا تھا ’’آجا پُتری! ٹافی کھالے۔‘‘ مونی اُچھل اُچھل کر اُس کے ہاتھ سے چاکلیٹ، ٹافیاں ایک ایک کرکے لے رہی تھی اور اُنھیں باری باری کھا رہی تھی۔ تب مجھ پر کُھلا کہ وہ باقاعدگی سے مونی کے لیے بھی ٹافیاں لاتا تھا۔ بچّوں سے لاڈ، پیار کرنے کے باوجود ایک مرتبہ وہ مجھ سے سخت ناراض ہوگیا۔ اُن دنوں چند گھنٹوں کے لیے پی ٹی وی لگا کر تاتھا۔
اُس کے ڈرامے اور پروگرام راتوں رات مُلک بھر میں مقبول ہوجاتے تھے۔ انگریزی پروگرامز میں "How the west was won" ،ــ"Little house on the prairie" وغیرہ میرے پسندیدہ پروگرام تھے۔ ایک مرتبہ کسی پروگرام کے ایک شکاری کردار سے متاثر ہوکر مَیں نے بھی شکاری بننے کا ارادہ باندھا۔ مَیں آبائی گھر سے چَھرے والی بندوق لے آیا اور دیوار پر نشان لگا کر چھرے والی بندوق سے نشانے کی مشق کرنے لگا۔ جب میرا نشانہ ذرا پختہ ہوا، تو میں نے اُسے کسی جان دار پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ کہیں سے سُن رکھا تھا کہ ہوائی بندوق والا شکاری اگرکوے کو نشانہ بنالے تو وہ کسی بھی پرندے کو گِرا سکتا ہے۔ کوا بےحد ہوشیار اورچالاک پرندہ ہے۔
اگر اُس کی پشت سےبھی نشانہ لیا جائے، تو وہ پُھر سے اُڑجاتا ہے اور جتنی یک جہتی کوّے کی نسل میں ہے، کسی اور پرندے میں نہیں ۔اگر ایک کوا زخمی ہوجائے یا مرجائے تو کوؤں کے غول کائیں کائیں کرتے وہاں اکٹھے ہوکر احتجاج اور ماتم کرنے لگتے ہیں۔ بعض صُورتوں میں وہ حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مَیں کسی کوے کو نشانہ بنانے میں ناکام رہااور مایوس ہوگیا۔ ایک دوپہربندوق تھامے گھر کی بغلی گلی سے گزرتے ہوئے مَیں نے ہم سایوں کے گھر میں لگے درخت کی اِدھر کو جھک آتی ڈال پر بلبل کو بیٹھے دیکھا۔ مَیں نے بہترین موقع جانا اور تاک کر نشانہ بنایا۔ ٹھاہ کی آواز سے ہوائی بندوق چلی اور بلبل گلی میں آگری۔
اتفاق سے اُسی موقع پر بابا اقبال گلی میں داخل ہو رہا تھا۔ اُس نے شکار کی ساری واردات دیکھ لی۔ وہ لپک کر آیا اور بلبل کو اُٹھا لیا۔ بلبل مرچُکی تھی۔ بابا اقبال رونے لگا۔ روتے روتے اُس نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا۔ مَیں ایک مجرم کی طرح کھڑا تھا۔ روتے ہوئے اُس نے مجھ سے کہا ’’توُنے ایک بے گناہ کا قتل کردیا۔‘‘ اُس کا یہ جملہ میرےدل پر گولی کی طرح لگا۔ وہ دن اورآج کا دن، مجھے شکار سے نفرت ہوچُکی ہے۔ میرے سامنے کئی مرتبہ شکار کیے ہوئے بٹیر، خرگوش، ہرن وغیرہ رکھے گئے، مجھے اُنھیں دیکھ کر متلی ہونے لگتی ہے۔بہرحال، کئی روز تک بابا اقبال مجھ سے ناراض رہا۔ اُس نے مجھ سے بول چال بند کردی، جب بھی دیکھتا، ملامت اور دُکھ بھری نظروں سے۔
اُن ہی دنوں دادا جی بیمار پڑگئے، پہلے اُنھیں عارضۂ قلب ہوا، پھر فالج کا حملہ۔ بابا اقبال ہمارے آبائی گھر منتقل ہوگیا۔ اُس نے دادا جی کی خدمت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ اُن کے بدن کی مالش کرنا تاکہ کم زور اعضا میں خون کا دوران جاری رکھا جاسکے۔ (جاری ہے)