• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض لوگ معترض ہیں کہ میں غربت ، مہنگائی اور غریبوں کا دکھڑا پیش کرتا ہوں ۔کیا کہوں ان نام نہاد دانش وروں کو کہ آپ کی دنیا اور ہے، عام شخص کی دنیا اور ہے ۔آپ نے کبھی خود اپنی گلی محلے علاقےکی دکان ، گروسری اسٹور یا مارٹ پر جاکر اشیائےضروریہ کی کبھی خریداری جو نہیں کی ۔ کبھی اس کمسن اور معصوم بچے کو دیکھا ہے جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے ایک نان ملنے پر کس قدر خوشی کا اظہار کرتا ہے ، کیا اس بچے کو دو وقت پیٹ بھر کر صاف ستھری روٹی فراہم کرنا اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے شخص کی بنیادی ذمہ داری نہیں ہے ؟ کیا صاف پانی ، سر پر چھت، سستی اشیاءخورونوش کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ دن رات اس بات کی مالا جپتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے ؟ کیا ریاست ایسی ماں جیسی ہوتی ہے جس کے کمسن اورجواں سال بچوں کو دن دہاڑے موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے ؟ سوال تو بہت ہیں یہ کہنا کہ ملک کو عدم استحکام کا شکار ہونے دیا جائے گا ۔ کوئی پوچھے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ عوام کا ہے جن کو بیالیس فیصد مہنگائی کی چکی میں پیسا جارہا ہے ۔ کس قدر ستم کہ عوام بے بس اور لاچار بکری کی مانندِ مجبور محض ہوچکے ہیں۔آڑھتی ، ہول سیلر ، ریٹیلر اور پرچون فروش سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں۔دس روپے کی چیز بیس روپے میں فروخت کرکے اپنا حصہ وصول کررہے ہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ۔سرکاری ادارے بھی کسی سے کم نہیں ، بجلی کے بل چیخیں نکلوا رہے ہیں تو گیس کی قیمتیں بھی چار سوفیصد بڑھانے کی تیاریاں جاری ہیں۔پانی کے بل بھی بڑھائے جاچکے ہیں ، موبائل فون اور انٹرنیٹ پیکیجز کے نام پر آئے روز کا اضافہ تو گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل جاری ہے ۔ جب عوام کا شکنجہ کسا جاتا ہے، ایک آڈیو یا وڈیو لیک منظر عام پر طمطراق سے نکالی جاتی ہے ، سابق وزیر اعظم نے یہ کردیا ہے، وہ کردیا ، ایسا کہہ دیا ہے ویسا کہہ دیا ۔ ایک تماشہ سا لگا ہوا ہے ،موجودہ وزیر اعظم نے ایسا حکم دے دیا وہ سازش کرلی ، ملکی سلامتی خطرے میں پڑگئی ، ملک دو لخت ہوگیا ، کوئی قیامت نہیں ٹوٹی ، ادھر ہم ادھر تم ، معاملہ دب گیا ،کمیشن بنتے ہیں ،انکوائریاں کی جاتی ہیں ۔ بندۂ خدا ! کوئی پوچھے کہ حمود الرحمان کمیشن کاکیا بنا کس ذمہ دار کو ملک توڑنے کا مجرم قرار دیا گیا اور سزادی گئیں ؟ ایبٹ آباد سانحہ بھی گزر گیا ، ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی کھیلی گئی ، معاملہ ہنوز انصاف کی منزل تک نہیں آیا ،پانامہ لیکس ہو امیں اڑ گئی ۔ ذمہ داران اور ملوث افراد سب کی نظروں کے سامنے معززین میں شمار ہوتے ہیں ۔بچوں اور خواتین کیساتھ زیادتی کے شرمناک واقعات معمول بن چکے ہیں، اسٹریٹ کرائم حد سے زیادہ بڑھ چکے ۔ کوئی پوچھنے والا ہے ؟۔ ہاں مراعات ، تنخواہیں اور کابینہ کے ارکان کی تعداد ضرور بڑھائی جاتی ہے ۔ 75 برس میں ملک اسلامی جمہوریہ بن سکا نہ ہی ایک فلاحی ریاست ۔ کوئی بھی نظام نہیں چل پارہا ۔ مدت پوری بھی کی تو چند حکومتوں نے ہی کی ، باقی سب کی چھٹی قبل ازوقت کراکے ملک کو انارکی اور انتشار میں ڈال دیا گیا۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔ ایسی ’صاف ستھری ‘ قیادت لائی گئی ہے جو آج بھی عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہی ہے ۔لندن پلان کی اقساط مسلسل آرہی ہیں ۔ اب کی بار عدالتوں کو مطلوب شخص نے دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی ۔ کیا کہا جائے سب کی ’ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ‘ ہے ۔ سارے سچے ہیں جھوٹے ہیں تو بے چارے عوام جن کی کوئی سنوائی نہیں ۔ جدھر ،جب چاہے جو بھی چاہے ، ہانک کر لے جاتا ہے عوام جمہورت کی خاطر نظام کی خاطر ووٹ دیتے ہیں ۔دوسری طرف آزادی مارچ کے شرکاءکو روکنے کیلئے ساری ریاستی طاقت اور مشینری فعال کردی گئی ہے ۔ اہل اسلام آباد پر کیا بیتے گی کسی کو کچھ علم نہیں ۔ سندھ پانی میں ڈوبا ہوا ہے ، پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات ابھی تک برقرار ہیں ،خیبر پختونخوا میں بھی اتھل پتھل ہے ۔ عمران خان زورو شور سے شہر شہر کارکنوں سے حلف لے رہے ہیں ۔ ’’آخری معرکہ ‘‘ سر کرنے کیلئے سر پر کفن باندھ چکے ہیں شاید یہ کالم چھپنے تک قافلے رواں دواں ہوں یا کوئی نتیجہ نکل چکا ہو۔

تازہ ترین