• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرسراتی ہوا سے نرم، کوئل کی کُوک سے مدھر ’بانسری بابا‘ (قسط نمبر…4)

بیت الخلا لے جانا، اُن سے باتیں کر کے اُن کا جی بہلائے رکھنا، رات بھر اُن کی تیمارداری کرنا، اُن کے لیے بازار سے ضروری اشیالانا اور ہرصُورت میں معاونت کرنا، اُس نے خدمت کو عقیدہ بنا لیا۔ جب داداجی کا انتقال ہوا، توخاندان بھر پرقیامت ٹوٹ پڑی۔ اولاد، عزیزوں کےعلاوہ بابا اقبال بھی غم سے نڈھال تھا۔ وہ داداجی کا خدمت گار ہی نہ رہا تھا بلکہ دوست بھی تھا۔ پیدایشی قصّہ گو تھا، سو داداجی کی بیماری سے قبل بھی وہ اُن کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کیا کرتا تھا۔ اُن دونوں میں بہت سی عادات کے علاوہ ایک عادت یہ مشترک تھی کہ وہ مہینوں کو ولایتی نہیں بلکہ موسمی، دیسی ناموں سے جانتے تھے۔

چیتر، بیساکھ، جیٹھ، ہاڑ، ساون، بھادوں، اسو، کاتک، مگھر، پوہ، ماگھ اور پھگن۔ علاوہ ازیں، دونوں کو اُس دَورکی روایت کے مطابق اپنی تاریخ پیدایش معلوم نہ تھی، تو وہ موسم اور اہم مُلکی واقعات کے حوالے سے اپنی پیدایش کی تاریخوں پر قیاس کرتے تھے۔ دادا جی کی وفات کے بعد اُس کی ان کے لیے خدمات کے عوض والد صاحب نے بابا اقبال کا تاحیات وظیفہ باندھ دیا۔ البتہ مالی وغیرہ کی نگرانی اور بازار سے سودا سلف لانا اُس کی ذمّے داریوں میں شامل ہوگئے۔ اُس کی بیوی صُغراں اور بیٹے اسلم کا انتقال ہو چُکا تھا۔ وہ ظاہر تو نہ کرتا تھا،مگر اُس کے چہرے کی مسکراہٹ ماند پڑچُکی تھی، البتہ اس کی خوش مزاجی کچھ حد تک قائم تھی، پنجابی شاعری پڑھنا اور بانسری بجانا بھی برقرار تھا۔ 

اس دوران یہ انکشاف ہوا کہ دادا جی کی خبر گیری اورخدمت کے دوران وہ ہمارے آبائی گھر کے پیچھے، جس میں سبزیاں کاشت کی جاتی تھیں، اور ایک مرغی خانہ تھا، جو جھاڑ جھنکاڑ سے اَٹا ہوا تھا، باقاعدہ بھنگ کاشت کرچُکا تھا۔ یہ دیکھ کر اہلِ خانہ نے ناراضی کا اظہار کیا۔ اُنھی دنوں ایک عزیزہ نے، جو برطانیہ میں ممتاز ڈاکٹر تھیں اور ہمارے ہاں ٹھیری ہوئی تھیں،مشورہ دیا کہ بابا اقبال کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اُن کا خیال تھا کہ بھنگ ہندوستان میں ہزاروں برس سے استعمال ہوتی آئی ہے اور ہندو میلوں، مذہبی تہواروں، بالخصوص موسمِ بہار کے تہوار ہولی کا حصّہ ہے۔ 

باوجود اس کے کہ یہ وہاں غیر قانونی ہے، پر اُسے کسی طور برداشت کرلیا جاتا ہے، سو بابا اقبال کو اپنے لڑکپن کے دَور میں میلوں ٹھیلوں میں شرکت اور قلندروں، جوگیوں کے ساتھ نے اِس علت میں مبتلا کیاہوگا۔ اُن کا خیال تھا کہ غریب آدمی منہگی ادویہ نہیں خرید سکتا، بھنگ متلی، بدن کے دردوں، بالخصوص جوڑوں، پٹھوں کے درد میں فائدہ مند ہے۔ علاوہ ازیں، برطانیہ میں اِسے مختلف شکلوں میں کینسر کے مریضوں کو دیا جاتا ہے۔ طبّی تحقیقات کے مطابق یہ کینسر کے خلیوں کو پھیلنے سے بھی روکتی ہے، سو بابا اقبال کو اس کے حال پرچھوڑ دیا گیا۔ ایک امر ضرور قابل تعریف ہے کہ اُس نے کبھی کسی کو بھنگ کی علّت میں مبتلا نہیں کیا تھا، سوائے اپنے بیٹے اسلم کے۔ جب اسلم کی تکلیف بڑھ جاتی تھی اور باپ سے اُس کی حالت دیکھی نہ جاتی تو وہ اُسے خالص دودھ میں بھنگ مِلا مشروب دیا کرتا تھا جس سے بیٹے کو افاقہ ہوجاتا تھا۔ اخلاقی نظریات سے طبّی حقائق نہیں بدلتے۔

بابا اقبال علاقے بَھر میں درویش، قلندرمشہور ہو چُکا تھا۔ اکثر وبیش تر عورتیں اُس کے پاس اپنے بچّے دَم کروانے لے کر آتی تھیں۔ ایک روز وہ خاصے غصّے میں پشتی ورانڈے کے قریب ٹہل رہا تھا۔ وجہ پوچھی گئی تو وہ پَھٹ پڑا۔ ’’خورے لوکی مینوں منگتا کیوں سمجھ بیہندے نیں۔‘‘ (نہ جانے لوگ مجھے بھکاری کیوں سمجھ بیٹھتے ہیں)۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ جمعے کی نماز پڑھ کروہ مسجد سے نکلا تو اُس کا گلے میں مالا والا حلیہ دیکھ کر لوگوں نے اُسے بھیک دینا شروع کردی۔ قریب سے گزرتے چند لوگوں نے اُسے بھکاری سمجھتے ہوئے، دیکھتے ہی ہاتھ جوڑ دیے ’’بابا معاف کرو۔‘‘ 

جمعے کی نماز واحد نماز تھی، جو وہ باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ یکے بعد دیگر ے بھکاری سمجھے جانے کے بعد وہ مسجد اپنا حلیہ درست کرکے اورمالا اُتار کر جانے لگا۔ ایک دوپہر وہ گہری سوچ میں گُم درخت کے سائے میں بیٹھا تھا۔ مَیں اُس کے قریب جاکر بیٹھ گیا اوراُس سے پوچھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔ اُس نے لمبی سانس بھری اوربولاکہ وہ مونی کے لیے پریشان ہے، کہیں اُس کی نسل اُس پر ختم نہ ہوجائے، اُس کی اولاد نہیں، تو اُس کےبعد کوئی اس کا نام لیوا نہ رہے گا۔ مَیں نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ ’’کُتّوں کا تو ویسے بھی کوئی نام لیوا نہیں ہوتا اور اُنھیں اُس بات کی پروا بھی نہیں ہوتی کہ اُن کے بعد اُن کی نسل چلے گی یا نہیں۔‘‘ 

وہ میری وضاحت سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے دوبارہ گہری سوچ میں کھو گیا۔ چند روز وہ اِدھراُدھرجانچ پڑتال کرتا رہا، اصل نسل کے روسی کتّے کا کُھرا تلاش کرتا رہا۔ بعد ازاں، وہ مونی کو کہیں لے جانے لگا۔ دوچار روز بعد ایک خُوب صُورت روسی کتا اپنے رکھوالے کے ساتھ ہمارے ہاں آنے لگا۔ جب والد صاحب کو بھنک پڑی تو وہ بابا اقبال پرخاصے ناراض ہوئے کہ یہ بے شرمی ہمارے گھر نہیں چلے گی۔ اُس کے بعد وہ کتا ہمارے ہاں نظر نہ آیا۔ مگر بابا مونی کو ضرور لے جاتا رہا۔ پھر مونی بہت چڑچڑی رہنے لگی۔ سوائے بابا اقبال کے اور میری والدہ کے کسی کو قریب نہ آنے دیتی۔ جب اس کے ہاں کتورے ہوئے تو وہ بھونک بھونک کر میری والدہ کو اپنے بچّے دکھانے لے گئی۔ یوں بابا اقبال کو ایک اور مصروفیت ہاتھ آگئی۔ 

وہ مونی کے بچّوں کا بہت محبّت اورتوجّہ سے خیال کرنے لگا ۔ اتنے کُتّے گھر میں رہ نہیں سکتے تھے، سو احباب و اقربا کو ان کی فرمایشوں پر سوائے ایک پِلّے کے سب تحفتاً دے دیے گئے۔ اس پِلّے کا نام سیزر رکھا گیا۔ سییزر بڑا ہوا تو سفید اُون نُمابھرے بالوں والا کُتّا نکلا۔ سردیوں ہی کے دن تھے۔ بابا اقبال لان میں لگے نلکے سے اُسے اور مونی کو شیمپو سے نہلاتا اور باندھ دیتا تاکہ وہ کسی کیاری میں جاکر لوٹ پوٹ ہوکر اپنے آپ کو میلا نہ کرلیں۔ اس دوران چڑیاں، فاختائیں، بلبلیں، کبوتر اُس کے اِردگرد بیٹھ جاتے اور قریب بکھرا دانہ دُنکا چُگنے لگتے۔ 

وہ مسرت سے کبھی مونی اور سیزر کو دیکھتا اور کبھی پرندوں کو۔ گلہریاں درختوں کی شاخوں پر خُوب اُچھلتی تھیں اور ہُدہُد ٹک ٹک کی آواز سے درختوں کے چھال پر چونچ مارتے رہتے۔ مونی اور سیزر کے بال سردیوں میں دوپہروں کی تمازت آمیز دھوپ اور درختوں کی چھاؤں میں خشک ہوجاتے تو وہ اُن کے بالوں میں کنگھا کرتا اور اُن کے بندھن کھول دیتا۔ وہ دانا چُگتے پرندوں پر لپکتے اور پرندے پھَر پھَر کر کے اُڑ جاتے۔ ہرسُو اطمینان اور خوشی کی روشنی پھیل جاتی۔ بابا سائے میں لیٹا اونگھتا رہتا۔

ہمارے محلے میں بنگلوں میں رہنے والے کم کم باہر نظر آتے، زیادہ ترملازمین یا راہ گیر ہی سڑک پر نظر آتے۔ سامنے والا تیسرا بنگلا راج دَور کے لاہور کے ایک مسلمان میئر، میاں عبدالعزیز کے عزیزوں کا تھا۔ اُس گھر کے سربراہ کو ہم فقط میاں صاحب کے نام سے جانتے تھے۔ میاں صاحب اکثر اپنے گھر کے باہر کھڑے نظر آتے۔ اُن کا گھر ایک چھوٹی سڑک کے کونے پر تھا، جہاں چوہدری صاحب کا بنگلا تھا۔ چوہدری صاحب کی کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ اپنے بہنوئی کے گھر رہتے تھے۔ وہ چلتا پِھرتا ریڈیو تھے۔ اُن کے پاس محلے کے ہرگھر کی خبریں ہوا کرتی تھیں۔ کاروبار کوئی خاص تھا نہیں، بس ہفتے میں ایک دوبار بیوپار کے لیے منڈی جایا کرتے تھے۔ 

اُن کی میاں صاحب سے خُوب گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ دونوں سرِشام میاں صاحب کے گھر کے سامنے سڑک پار بنّے پربیٹھ جاتے اور خُوب رونق لگ جاتی۔ چوہدری صاحب سحرخیز تھے اور سویرے سیر کے لیےنکلا کرتےتھے۔ اُن کے اصل دوست محلے کے ملازم تھے، جو اُنھیں اپنےاپنے مالکان کے گھروں کی اندر کی خبریں دیا کرتے تھے۔ کن صاحب کا کہیں چکر چل رہا ہے، کون سی بی بی اپنی بیٹی کی آزاد رَوی کے ہاتھوں پریشان ہے، کون سا مالک اپنے بھائیوں کے ہاتھوں مقدمہ بھگت رہا ہے، کون سی خاتونِ خانہ اپنے شوہر کے شہر سے چلے جانے کے بعد بغیر ڈرائیور کے اکیلی کسی نامعلوم مقام کو چلی جاتی ہے، کس گھرانے میں میکے کا داخلہ منع ہے، کون صاحب رات گئے نشے کے عالم میں لاہور کینال میں گاڑی اتاربیٹھے اور کس کی تلاش میں پولیس چھاپے مار رہی ہے۔ 

اپنی خبروں کو مزید مصدّقہ بنانے کے لیے وہ دستاویزی ثبوت بھی تلاش کرتے رہتے۔ بھلے زمانے تھے، موبائل فون اور مختلف ٹی وی چینلز کا تصوّرتک نہ تھا، لوگ ایک دوسرے کو خط بھی لکھتے تھے۔ کئی مرتبہ چوہدری صاحب کو گھروں سے باہر کُوڑے دانوں میں پھینکے سامان کی تلاشی بھی لیتے دیکھا گیا۔ وہ لوگوں کی پرزہ پرزہ کی گئی دستاویزات کو معمّے کی طرح جوڑ کر اُن سے معنی اخذ کررہےہوتے، لوگوں کےخطوط بھی اشتیاق سے پڑھتے۔ چوہدری صاحب کی بابا اقبال سے خُوب بنتی تھی۔ اُن سے قصّے، کہانیاں اور اسکینڈل سُن کر وہ ہمارے ہاں سُنایاکرتا تھا۔ 

چٹخارے دار خبریں سُنتے سُنتے ایک روز ہمیں خیال آیا، عین ممکن ہے کہ بابا کی وساطت سے ہمارے گھر کا بھی کوئی اسکینڈل شیخ صاحب تک پہنچ کر زبانِ زدِ عام ہوا ہو اور ہم لاعلم ہوں۔ سَو، ایک گھریلو ملازم کو تحقیق کے لیے میدان میں اُتارا گیا۔ چند روز بعد وہ نہ صرف ہمارے گھر بلکہ دادا جی کے گھر کی بھی خبریں لے آیا کہ والد صاحب کی کس عزیزہ کی اپنے شوہر سے علیحدگی چل رہی ہے اور والد صاحب کی سخت مزاجی کے قصّے۔ بہرحال، کوئی خبر ایسی ہوش رُبا نہ تھی، اس کے باوجود بابا اقبال کےچوہدری صاحب کے پاس رکنے اور گپ شپ پرپابندی لگ گئی۔ 

جب پیاسےنے کنویں کے پاس جانا ترک کیا، تو کنواں خودپیاسےکے پاس چل کر آنے لگا۔ چوہدری صاحب صبح سویرے مسواک کرتے ہوئے بابا اقبال کےپاس آجاتے۔ سو، دونوں کو اُن کے حال پر چھوڑدیا گیا۔ چوہدری صاحب کے علاوہ بابا اقبال کی زیادہ دوستی صدر بازار سے آنے والے ہیجڑوں کی ایک جوڑی سے تھی۔ بوڑھے ہیجڑے عرصے سے وہاں آتے تھے۔ میری پیدایش پربھی اہلِ خانہ سے سلامی لے کر گئے تھے۔ 

تب شادی ہالز یا ہوٹلز میں شادیاں کرنےکا تصوّر تک نہ تھا، لوگ گلی محلوں، میدانوں یا بنگلوں میں قناتیں لگا کر، بلبوں والی رنگین مرچیں روشن کر کے اور بازار سے خود گرم مسالے، چاول، گُڑ، شکر، ناریل گِری وغیرہ خرید کے اور اپنےسامنےبکرےذبح کروا کے دیگیں چڑھا کر بیاہ کا اہتمام کرتے تھے۔ میراثی، ہیجڑے، بھانڈ عام تھے اور اُن ہی کے دَم سے شادی بیاہوں میں رونق لگتی تھی۔ اِدھر چمڑے کا چانٹا ہاتھ یاپیٹ پر پڑتا، اُدھر بھانڈ اونچی آوازلگاتے اور ساتھ ہی کُھسرے تالیاں بجاتے میدان میں اُتر آتے۔ 

کہا جاتا تھا کہ ہیجڑے اللہ کی معصوم، لاچار مخلوق ہیں، اُنہیں تکلیف دینا غضبِ خداوندی کو دعوت دینا ہے۔ وہ ہیجڑے ہر خوشی، غم پرہمارے آبائی گھرآتےتھے، اب موجودہ گھر منتقل ہونے کے بعد اُدھر بھی آنے لگے تھے۔ اِدھر وہ تالیاں بجاتے، اونچی آواز میں خیرسگالی کے گانے گاتےگھر میں داخل ہوتے، اُدھر بابا اقبال اُن کے پاس آبیٹھتا۔ وہ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے، زمانے بھر کی باتیں کرتے۔ سلامی کے بعد اُنھیں کھانا کھائے بغیر گھر سے جانے نہ دیا جاتا۔

ایک روز مَیں نے دیکھا کہ بابا اقبال اُن میں سے ایک ہیجڑے کو، جو سَر کے چِھدرے بالوں کو خضاب لگاتا تھا اور جس کی چِندیا سورج کی روشنی میں چمکتی تھی، بوقتِ رخصت اپنی صدری کی ایک جیب سے کچھ نکال کر پکڑا رہا تھا۔ طفلانہ تجسّس کے تحت مَیں نے بابا اقبال سے استفسارکیا تو اُس نے ٹال دیا۔ جب میرا اصرار برقرار رہا تو اُس نے پنجابی میں کہا۔ ’’بےچارے بےاولاد ہیں،نہ بالڑے نہ بالڑیاں، نہ ہم شیرہ نہ وِیر، نہ ماں، نہ پیو، گھر والے ہیں، نہ رشتے دار، مسکینوں کی دُعا اور بددُعا سیدھی آسمان کو جاتی ہے، میری کیا اوقات، سب اوقات اُس آسمان والے کی ہے، جو سب کو اوقات دیتا ہے، مَیں وسیلہ ہوں، اُنھیں نذرانہ پیش کیا ہے، رب قبول کرے۔‘‘یہ کہہ کروہ نیلے آسمان کی جانب شہادت کی انگلی بلند کیے سرہلاتا چلا گیا۔ 

تب تو میں اُسے ایک غریب، مگر سخی آدمی کی روایتی حرکت سمجھا تھا۔ آج جب پیچھےمُڑ کےدیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ سخاوت کا امارت، غربت، رُتبے سے کوئی تعلق نہیں، اِس کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ بابا اقبال جیسا شخص اپنی مختصر تن خواہ میں سے بھی خیرات کا منہ کھول سکتا ہے، توکوئی باثروت، حق دار کی محنت کا معاوضہ بھی حیلے بہانے سے روک سکتا ہے۔ ہمارے ہم سائے میں صاحب زادہ نجم الدین مرزا صاحب رہتے تھے۔ 

نواب لوہاروں کے خاندان سے تھے، برطانوی فوج میں کمیشن لیا تھا، نواب زادہ لیاقت علی خان کے اے ڈی سی اور جنرل ضیاءالحق کے کمانڈنگ آفیسر رہے تھے، عین مین برطانوی طرزِ زیست تھا، گھر میں نواب خاندان کی تصاویر آیزاں تھیں، اکثر پینٹ بُشرٹ میں ملبوس نظر آتے، چپاتی سالن نہ کھاتے تھے، چِیزبریڈ، ہنٹر بیف وغیرہ کو چُھری کانٹے سے کھاتے۔ زیادہ گفت گو انگریزی میں کرتے تھے، سہ پہر میں سَرپر فیلٹ ہیٹ رکھے، آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے، ہاتھ میں چَھڑی تھامے واک پر نکلتے، دیسی لوگوں سے ہاتھ بھر کا فاصلہ رکھتے اور ملازمین کو دیکھ کر منہ پھیرلیتےتھے۔ (جاری ہے)