سابق صدر آصف علی زرداری نے دوستی کی تو غیرت مندوں کی طرح اس دوستی کو نبھایا، مگر وہ دشمنی کرنے کے عادی نہیں، انہیں دشمنی یا ذاتی جنگ کرنے سے ہمیشہ نفرت رہی ہے، وہ دشمنوں کو دوست بنانے کے قائل ہیں، یہ نہیں کہ وہ بزدل ہیں مگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دشمنی کی جائے تو ایسے شخص سے جسے میدانِ جنگ کے اصول وضوابط معلوم ہوں، جو دشمنی میں غیرت کی اہمیت کو فراموش نہ کرے، جو دشمنی میں پست صفات کا عکس نہ بنے مگر بدقسمتی دیکھئے کہ آصف علی زرداری تو کسی کو اپنا دشمن خیال نہیں کرتا مگر آصف علی زرداری کو جو اپنا دشمن گردانتے ہیں وہ اپنی تنگ سوچ سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ آصف علی زرداری جیل میں ہوں تو انکی کردار کشی، جیل سے باہر ہوں تو کردار کشی، گھر پر ہوں تو کردار کشی اور منصبِ صدارت پر فائز ہوں تو بھی انکی کردار کشی سے باز نہیں آتے۔ آصف علی زرداری ہر لحاظ سے خوش قسمت شخص ہیں مگر ایک بدقسمتی تو انکی قسمت میں لکھ دی گئی ہے کہ ان کو اب تک بڑے ظرف والا دشمن نہیں ملا۔ آصف علی زرداری حال ہی میں ایک بار پھر بیمار ہوئے تو انہیں کراچی کے ایک نجی اسپتال میں داخل ہونا پڑا جس کے بعد مخالفین نے ان کیخلاف طرح طرح کا پروپیگنڈہ کیا، اور ابھی بیماری سے صحت یاب ہوکر گھر پہنچے ہی تھے کہ پی ٹی آئی آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنس لے کر اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس پہنچ گئی۔
یاد رہے کچھ سال قبل جب انتخابی مہم کے دوران عمران خان اسٹیج سے گر کر شدید زخمی ہوگئے تھے تو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے پی پی پی کو اس دن سیاسی مہم چلانے سے منع کرتے ہوئے عمران خان کے علاج کیلئے بطور سپریم کمانڈر آف پاکستان آرمی ڈاکٹرز کا دستہ بھیجا اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو رہے۔لیکن پی ٹی آئی کا طرزِ سیاست دیکھئے، آصف علی زرداری کی بیماری کے دنوں میں جس طرح کا رویہ اس جماعت نے اختیار کیا، وہ قابلِ افسوس ہے۔ ایک شخص جس نے آپ کو ہر محاذ پر شکست دی، اس کی بیماری پر ایسا بھونڈاپروپیگنڈہ کرنا کسی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔سیاست کا یہ انداز پی ٹی آئی کا وطیرہ بن چکا ہے، پی ٹی آئی اپنے دشمنوں کی کردار کشی میں ہر حد عبور کرجاتی ہے، اور یہ عمران خان کی سوچ کاہی عکس ہے۔یہی وہ اقدام ہیں جو عمران خان اپنے چاہنے والوں سے چاہتے ہیں۔لیکن آصف علی زرداری کاظرف دیکھیں کہ دشمنوں کو بھی دعا دینے کے عادی ہیں، سابق صدر کے چاہنے والوں کو اس سے کوئی فرق نہ ماضی میں پڑا اور نہ اب پڑا ہے کہ ان کے دشمن ان کے خلاف کیا سوچتے ہیں کیوں کہ وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ شہید بھٹو کے داماد نے اپنی زندگی میں سب کچھ برداشت کیا تو صرف شہید بی بی اور پیپلز پارٹی کیلئے، ورنہ بھٹو مخالف قوتیں پی پی پی کو کب کا ختم کرچکی ہوتیں۔آج پی پی پی جہاں ہے اسے اس مقام پر لانے میں بھٹو دشمن لابی کا مرکزی کردار رہا ہے اور دشمن لابی کے عزائم کو خاک میں ملانے میں آصف علی زرداری ہمیشہ ہراول دستہ کی قیادت میں پیش پیش رہے،آصف علی زرداری نے ان کی ہر چال کو ناکام بنادیا۔ وہ اگر 27دسمبر کو خود پاکستان میں موجود ہوتے تو ہوسکتا تھا ،سانحہ 27 دسمبر کبھی برپا نہ ہوتا کیوں کہ آصف علی زرداری سے بہتر شہید بی بی کو سیکورٹی کوئی نہیں دے سکتا تھا، شہید بی بی کی شہادت کے بعد بھٹو مخالف دشمنوں نے نہ صرف شہید بی بی پر وار کیا بلکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بھی کوشش کی جو آصف علی زرداری نے ’’پاکستان کھپے ‘‘کا نعرہ لگا کر ناکام بنا دی اور یہ نعرہ بھٹو دشمن لابی کو اتنا ناگوار گزرا کہ وہ دن اور آج کا دن آصف علی زرداری کے خلاف مہم میں مزید شدت پیدا کی جا چکی ہے۔آصف علی زرداری ہمیشہ ظلم کا نشانہ بنتے آئے ہیں، انھوں نے پاکستان، جمہوریت اور اپنی سیاسی جماعت کے لیے جتنی قربانیاں دیں، اس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ آصف زرداری اپنے ہم عصر سیاست دانوں عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف ، مولانافضل الرحمٰن ، چوہدری شجاعت حسین وغیرہ میں عمر میں سب سے چھوٹے ہیں مگر ان سب کی نسبت زیادہ ادھیڑ عمر لگتے ہیں، بیمار بھی ہیں کیوں کہ ساری زندگی جمہوریت اور بھٹوازم کیلئے یا جیلوں میں گزری یا سیاسی رگڑا کھاتے رہے، دیگر لوگ لندن اور یورپ میں یا پھر گیٹ نمبر 4 کے باہر شیروانی لیے جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لگاتے رہے اور آصف علی زرداری اپنی ساری عمر جمہوریت کو پروان چڑھانے کی دھن میں مگن رہے، جس سے ان کی جوانی، بڑھاپا سب کچھ چھن گیا لیکن وہ نادم نہیں، وہ کہتے ہیں، میں فقیر ہوں اور فقیر تو ہر دور میں، ہر رُت میں خوش رہتے ہیں مگر اس کا دشمن اقتدار میں بھی پریشان اور اقتدار سے باہر بھی پریشان ہے۔ آصف علی زرداری کے ہونٹوں پر صرف تبسم ہے۔