اپنے ہم عصر برطانوی فوجی افسروں کے ساتھ اُن کی خط و کتابت رہتی تھی اور پاکستان ٹائمز کے لیے انگریزی مضامین بھی لکھاکرتے تھے۔ جب سہ پہر کی واک کے دوران وہ ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے تو اپنے مزاج کے خلاف بابا اقبال کے پاس رُک جایا کرتے اور انگریزی مِلی اُردو میں اُس سے گفت گو کرتے، جس کا جواب بابا پنجابی مِلی اُردو میں دیا کرتا۔ نہ جانے اُن میں باہمی تعلق کا کیا سبب تھا۔ شاید اُس میں بابا کی قلندرانہ گفت گو کا دخل تھا۔ بہرحال، وہ واحد شخص تھا، جس سے مرزا صاحب کا سا نک سک، برطانوی اطوار اور اونچی ناک والا نوابی شخص سرِراہ رُک کر گپ شپ کیا کرتا تھا۔
بابا اقبال اُس علاقے میں ایک مانوس شخصیت بن چُکا تھا، پینتیس برس تک وہ مخصوص سفید کپڑے پہنے، سرپر صافہ لیے، سائکل ہاتھ میں تھامے، سیدھی کمر کے ساتھ مخصوص چال چلتا پیدل چلا آرہا ہوتا، ابتدائی دس بارہ برس مونی، بعد کے برسوں میں سیزر اُس کے ساتھ اُچھلتا، دُم ہلاتا رَستے میں چیزوں میں منہ مارتا آرہا ہوتا۔ جب اُس نے پیدل ہی چلنا ہوتا تھا، تو سائکل کا بوجھ کیوں ساتھ لیے چلتا تھا، معلوم نہیں۔ آخری دو برس اس نے بازار جانا چھوڑدیا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ مونی کم زور پڑگئی اور بیمار رہنے لگی۔ وہ جو تیر کی طرح پرندوں کا پیچھا کرتی تھی اور گھر کی حدود میں آنے والے اجنبیوں پر چیتے کی طرح لپکتی تھی۔
بابا اقبال کے رہایشی حصّے تک محدود ہوگئی۔ ہم اُسے پیار سے پچکارتے، اپنے پاس بلاتے تو وہ بیٹھے بیٹھے دُم ہلا دیتی۔ پِھر وہ چڑچڑی ہوگئی اور شناساؤں پر بھی بھونکتی ہوئی لپکنے لگی۔ تب اُسے بابا اقبال ہی قابو کرتا۔ اُسے حیوانات کے ڈاکٹر سے ٹیکے لگوائے جاتے۔ بابا اقبال اس کا سَر اپنی گود میں ڈالے سہلاتا رہتا۔ ایک صبح وہ بابا اقبال کی چارپائی تلے مَری ہوئی پائی گئی۔ بابا اقبال اگلے پچھلے باغ، صحن، گھر کی گلیوں میں آسمان کو تکتا سَرپیٹتا، ماتم کرتا، روتا جاتا تھا۔ اُسے کوئی ایسا کونا نہیں ملتا تھا، جہاں سر چُھپا کر روئے۔ ہمارا گھرانا خود غم گین ہونے کے باوجود اُسے تسلّی، حوصلہ دیتا اور ہمّت بندھاتا تھا۔
جب شام تک اس کا دُکھ کم نہ ہوا اور اُس کے آنسو نہ رُکے تو اُس کی بیٹی نے جھلّا کر کہا ’’بابا اسلم (اپنے بیٹے)کے مرنے پر بھی اِس طرح نہ رویا تھا۔‘‘ اُس کی خواہش تھی کہ مونی کی قبر اُس کی نظروں کے سامنے رہے۔ سو آبائی گھر کے پیچھے خالی پلاٹ کے ایک گوشے میں، جہاں سبزیاں اُگائی جاتی تھیں اور جہاں بھنگ کاشت کی جاتی تھی، مونی کی قبر بنائی گئی،بابا نے اُسے اپنے صافے میں لپیٹا اور دفن کر دیا۔ بہت عرصے تک بابا اقبال جب اُس گوشے میں جاتا تو بھنگ کی تیار فصل دیکھ کر خُوش ہونے کے بجائے مونی کی قبر دیکھ کر مغموم ہو جاتا تھا۔ وقت غم کا تریاق ہے۔ اُسے مونی کا متبادل سیزرکی شکل میں مل گیا۔
اُس کا جی سیزر سے لگ ہی گیا، اُسے سیزرمیں مونی نظرآتی تھی۔کچھ ہی عرصے میں دونوں میں مانوسیت سے بڑھ کر شیفتگی کا تعلق قائم ہوگیا۔ ایک مرتبہ بابا اقبال کو خلافِ معمول کسی کام سے دوچار روزکے لیے گھر سے جانا پڑگیا۔ اُن دنوں سیزر رات رات بھر اُوواُوو کی اونچی آوازیں نکالتا، روتا بابا اقبال کو ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ جب وہ واپس آیا تو سیزربے پناہ جذبات سے مغلوب اُس کی جانب لپکااور اُس کی گود میں یوں چڑھ چڑھ گیا کہ بابا اقبال اُس کو پچکارتے ہوئے رونے لگا۔ بابااقبال کے آبائی علاقے سے کبھی کبھار بزرگ اُسے ملنے آتے رہتے۔ جب اُس کے پرانے واقف کار اور دوست اکٹھے ہوتے تو گُڑ، تمباکو کا چِلم حُقّے پر رکھ دیا جاتا، سرِشام گپ شپ شروع ہوجاتی، جو رات گئے تک جاری رہتی۔ مہمان اس کے ہاں ٹھیرجاتے۔
کبھی میں اُن کے پاس چلا جاتا، تو وہ مجھے حُقّے کے دھوئیں سے دور بِٹھا کر اپنی باتوں میں مشغول رہتے۔ پرانے دوستوں، واقف کاروں کاتذکرہ، بار بارسُنے واقعات دہرائےجاتے اور اُن سےنیا لُطف لیا جاتا۔گزرے زمانوں کے اچھے ہونے کی روایتی باتیں۔ ایک بات پر سبھی یک سُو ہوتے کہ انگریز کا زمانہ بہت اچھا تھا، سائکل پر بتّی جلتی تھی، ہرکسی کے لیے انصاف تھا اورفوری تھا، منڈی سے زیادہ نرخ پر جرمانہ اور سزائیں تھیں، وغیرہ وغیرہ۔ انگریزوں کے بعد اچھا دَور ایوب کا تھا، جب قصابوں نے جالیاں لگالیں، قیمتوں میں استحکام آگیا، سزاؤں کا خوف پیدا ہوا اور انصاف فوری ہونے لگا۔
اُنھیں جمہوریت، آمریت، انسانی حقوق، عوامی نمایندگی وغیرہ سے غرض نہ ہوتی تھی۔ اُن کے لیے دال بھات کی قیمتیں، صحت، انصاف، امن زیادہ اہم تھے۔ جب کبھی مَیں انگریزوں کے دھوکے اور ظلم کی بات کرتا، تو وہ اِس طرح مُسکرا دیتے، جیسے کسی نادان بچّے کی بات پر مُسکرایا جاتا ہے۔ بابا اقبال بول اُٹھتا ’’پُتر! اسکول، کالج کی کتابوں میں پڑھنے اور آنکھوں دیکھے میں فرق ہوتا ہے۔ ہم انگریز کا مقابلہ سِکھوں اور بٹوارے کے بعد کے حُکم رانوں سے کرتے ہیں۔‘‘مَیں عملی زندگی میں آگیا۔ بابا اقبال کے سانس میں وہ زور نہ رہا، جس سے بانسری سے سُریلے سُر برآمد ہوتے۔ وہ مُرلی بجاتا تو جلد تھک جاتا۔ اُس کی مُرلی بھی بےسُری ہوتی جارہی تھی۔
وہ زیادہ وقت اپنے اقامتی حصّے میں گزارتا۔ مَیں گھر آکر پہلےاُس کےپاس چلا جاتا۔ اگلے باغیچےاور داخلی گیٹ کےساتھ روشن دوپہروں میں جیکانڈرا کے ہلکے کاسنی پھول، رات کی رانی کے سفید پھول، مخروطی ایروکیریا، کیاریوں میں لگے گلاب، بیلیں۔ سُرخ پھولوں والی کلوروڈینڈران، شاکنگ پنک اور سفید پھولوں والی بوگن ویلا، سِلور بلوط کا درخت، تازہ کٹی گھاس سب اپنی جگہ پر ہوتے، بابا اقبال کے بغیر ایک کمی، ایک اداسی محسوس ہوتی، جیسے کوئی ناگزیرشے کم ہو۔ کئی لوگ کیسے ماحول میں برکت ڈال دیتے ہیں۔ وہ چارپائی پرلیٹا ہوتا، اُسی چارپائی پر، جہاں کبھی اُس کا بیٹا اسلم لیٹا کرتا تھا۔ مجھے دیکھ کر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی۔ مَیں چارپائی کی پائنتی بیٹھ کر سَرجُھکا دیتا، وہ سَر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر صحت، سلامتی، خُوشی کی دُعا دیتا۔
میری والدہ کی عادت ہے کہ کبھی برُی خبر یک دَم نہیں سُناتیں۔ کوئی دس برس اُدھرکی بات ہے، جولائی کا مہینا تھا، مَیں بہ سلسلۂ روزگار کراچی میں تھا۔ والدہ سے حسبِ معمول دن کے آغاز پر بات ہوئی۔ اِدھراُدھر کی بات چیت کے بعد فون بند کرتے ہوئے اُنھوں نے سرسری طور پر کہا۔ ’’ہاں، ایک بات بتانا تو بھول ہی گئی، آج صبح بےچارہ بابا اقبال فوت ہوگیا۔ اُس کا جنازہ ظہر کے وقت ہمارے گھرسے اُٹھے گا۔ بیٹا اپنا خیال رکھنا۔ خداحافظ۔‘‘ یہ سُن کر مجھے کتنا دُکھ ہوا، کچھ میرا دل ہی جانتا تھا۔ اتنے میں دروازہ کُھلا اور دو تین افراد میرے کمرے میں کاغذات، فائلز تھامے داخل ہوگئے۔
وہ دن خاصی مصروفیت کا تھا، مگر اس دوران بھی نہ جانے کتنی مرتبہ بابا اقبال کا خیال آیا اور دل مسوس کر رہ گیا۔ بہرحال، مصروفیات میں دُکھ کہیں دَب ہی جاتا ہے، یوں بھی مجھے لاہور چھوڑے بارہ تیرہ برس ہوچُکے تھے۔لیکن…رات کو سونے کےلیے بستر پر لیٹا تو اچانک ہی میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نہ جانے اتنے آنسو لگاتار کہاں سے آرہے تھے کہ مسلسل بہے جاتے تھے۔ آنکھیں پونچھتا، تو پھر سے بھر آتیں۔ مجھے حیرت تھی کہ جب مَیں دن بھر اِس قدر مصروف رہا، تو اب یہ آنسو کیوں تھمنے میں نہیں آرہے تھے۔ مَیں نے آدھی رات کو اُٹھ کر آئینے میں دیکھا، تو سُوجی سُوجی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھیں۔ مَیں رات بھر جاگتا رہا۔
بانسری کی مدھر دُھن میرے کانوں میں بجتی رہی، سوگ وار خاموش پرندوں کی ڈاریں میرے لاہور والے گھر کے باغ میں اُترتی رہیں اور بابا اقبال لوک شاعری کو ہجّے کرکرکے پڑھتا رہا۔ ایک محبوب شخص کی موت، انسان کو پھر نہ جانے کتنے ہی بچھڑے لوگوں کی یاد دلادیتی ہے۔ یہ بابا اقبال سے ایک ملاقات کی بات ہے کہ اُس نحیف شخص نے مجھ سے کہا تھا ’’تجھے یاد ہے، جب تونے بلبل مارا تھا، تو مَیں کتنا ناراض ہوا تھا کہ ایک معصوم جان دار کو مار دیا۔ مَیں نے بھی ایک جان دار مارا تھا، برما کے محاذ پر، دشمن کے اُس سپاہی کی بندوق گِر پڑی تھی، اگرمَیں اُسے نہ مارتا تو وہ مجھے مار دیتا۔ بےشک وہ دشمن کا سپاہی تھا، مگر اُس کی بھی کوئی ماں، گھر پہ اُس کا انتظار کر رہی ہوگی، اُس کے بھی بھائی بہن ہوں گے، وہ دشمن کے گھر اپنی مرضی سے تو پیدا نہیں ہوا تھا۔
مَیں نے ایک انسان مار دیا تھا، اپنی طرح کا انسان، اُسے بھی میری طرح بھوک پیاس لگتی ہوگی، اُس کے دل میں بھی محبّت ہوگی، وہ بھی بانسری سُن کر سرور میں آتا ہوگا، اُس کا دل بھی ایک کنبے کو کرتا ہوگا، مَیں نے دشمن کے سپاہی کو نہیں مارا، بس ایک انسان نے دوسرے انسان کو مار ڈالا۔‘‘بابا اقبال کی آنکھوں میں نمی تھی۔ گرمیوں کی اُس شام پیڈسٹل فین کی گھرر گھرر میں اُس کی آواز دَب دَب جاتی تھی، اُس کی چارپائی کے نیچے جلتی مچھرمار جلیبی کا ایک کونا جل کر روشن ہورہا تھا، ماحول میں ایک ایسی باس تھی، جو الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی۔
مَیں نے اُس کا ہاتھ تھپتھپایا اور بولا۔ ’’بابا! تجھے جو ڈیوٹی دی گئی تھی، تونے ایک اچھےسپاہی کی طرح وہ پوری کی۔‘‘ بابا اقبال اپنی مخصوص رَو میں تھا، ’’ڈیوٹی دینے والوں کو کس نے ڈیوٹی دی تھی اور اُن کے اوپر کس نے ڈیوٹی لگائی؟‘‘مَیں نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے دماغ کو اتنا نہ کھپائے تو وہ بولا۔ ’’مجھے تو بس ایک فکر ستاتی ہے، اوپر جاکر اگر اُس سپاہی سے سامنا ہوگیا، تو مَیں اسے کیا منہ دکھاؤں گا۔‘‘ بس، یہ میری اُس سے آخری ملاقات تھی۔
توجّہ فرمائیے!!
جو مصنّفین اور اشاعتی ادارے تبصرے کے لیے کتابیں بھیجنا چاہتے ہیں، ازراہِ کرم درج ذیل باتوں کا خیال ضرور رکھیں:
٭چھوٹے چھوٹے کتابچے اور پمفلٹ وغیرہ روانہ نہ کیے جائیں کہ ایک سو سے کم صفحات والی کتاب کا تعارف شامل نہیں کیا جاتا٭جو کتب کسی فرقے، مذہب،گروہ،ادارے یا طبقے کے خلاف لکھی گئی ہوں، اُن پر بھی تبصرہ نہیں ہوگا٭جن کتابوں پر ایک بار تبصرہ ہوچُکا، دوبارہ قطعاً ارسال نہ کی جائیں ٭ایسی کتابیں، جو اسکولز اور کالجز کے نصاب سے متعلق ہوں، اُن پر بھی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا٭ہر کتاب کی دو جلدیں آنا ضروری ہیں، ایک کتاب موصول ہونے پر تبصرہ نہیں کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں،2020ء میں شایع ہونے والی کسی بھی کتاب پر رواں برس تبصرہ نہیں ہو گا، البتہ 2021ء کی شایع کردہ کتابوں پر تبصرہ کردیا جائے گا۔ اور یہ فیصلہ کتابوں کی کثیر تعداد اور مصنّفین اور اشاعتی اداروں کے طویل انتظار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ صفحے کا عنوان’’نئی کتابیں‘‘ہے، لہٰذا ہماری کوشش یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نئی کتب شامل ہوں، نہ کہ گزشتہ برس کی شایع شدہ۔ سو، براہِ کرم 2020ء کی کوئی کتاب اب ارسال کرنے کی زحمت نہ کریں۔
تبصرے کے لیے کتابیں صرف اس پتے پر ارسال کی جائیں۔
ایڈیٹر’’سنڈے میگزین‘‘،روزنامہ جنگ ،شعبۂ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔