مصنّف: محمّد مشہود قاسمی
صفحات: 342، قیمت: 1000روپے
ناشر: فضلی بُک، سپر مارکیٹ، اُردو بازار، کراچی۔
ڈاکٹر محمّد افضال حسین قادری کا شمار اُن یگانۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے، جو ہمہ جہات بھی ہیں اور ہمہ صفات بھی۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو روشن اور تاب ناک ہے۔ وہ اب اس دُنیا میں نہیں، لیکن اُن کا کام انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ وہ سیاست دان، ماہرِ تعلیم، استاد، سائنس دان اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم انسان تھے۔ انہوں نے بڑے بڑے کام کیے، لیکن نام و نمود سے ہمیشہ دُور رہے۔ پاکستان کے معماروں میں ان کا نام سرِفہرست ہے۔ ڈاکٹر محمّد افضال حسین قادری حصولِ پاکستان تک قائدِاعظم محمّد علی جناح کے ہم راہ رہے اور زیرِنظر کتاب تحریکِ پاکستان اور حصولِ پاکستان کے لیے ان کی خدمات اور جدوجہد کا سرنامہ ہے، جسے محمّد مشہود قاسمی نے نہایت عرق ریزی سے مرتّب کیا ہے۔
اسے ایک تاریخی دستاویز بھی کہا جاسکتا ہے۔ تقسیمِ ہند کے موضوع پر شایع ہونے والی تمام کتب میں ڈاکٹر محمّد افضال حسین قادری کا تذکرہ نہایت جامعیت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی دستاویزات میں ان کے تذکرے اور جناح پیپرز میں ان کی قائدِاعظم سے ہونے والی خط و کتابت ان کی تحریکِ پاکستان سے گہری وابستگی کے ثبوت ہیں۔ اُن کے خطوط کا انگریزی سیکشن کتاب کے آخر میں شامل ہے اور کتاب کُل بارہ ابواب پر مشتمل ہے، جب کہ ہر باب گویا ڈاکٹر قادری سے متعلق معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ مصنّف نے اُن کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی نہیں رکھا، خصوصاً تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ان کی مثالی خدمات کا بَھرپور انداز میں جائزہ پیش کیا ہے۔
نیز، محمود شام اور نوازش علی خان کی تحریروں نے بھی کتاب کی افادیت میں اضافہ کردیا ہے۔ ’’داستاں میری کسی سرووسمن سے پوچھو‘‘، ’’ڈاکٹرمحمّد افضال حسین قادری، مسلم یونی ورسٹی سے جامعہ کراچی تک‘‘، ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کی سیاسی زندگی کے کچھ گوشے‘‘، ’’یک وفاقی اور کثیر وفاقی تقسیم کی تجاویز‘‘، ’’علی گڑھ اسکیم 1939ء‘‘، ’’انتخابات1945ء-1946ء، فیصلہ کُن معرکہ‘‘،’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کی تحریکِ پاکستان اور پاک و ہند میں تعلیمی خدمات‘‘، ’’مختار مسعود اور پیر پور کمیٹی رپورٹ‘‘، ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کے سیاسی خطوط‘‘، ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کے تعلیمی خطوط‘‘، ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری سے متعلق اُن کے اہلِ خانہ کے تاثرات‘‘ اور ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کے بارے میں ان کے ساتھیوں کے تاثرات‘‘ یہ وہ عنوانات ہیں، جن پر کتاب کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔