61 ہجری میں حضرت امام حسینؓ کی عظیم، لازوال قربانی نے ثابت کر دیا کہ آپؓ ، محسنِ انسانیت، حضرت محمدﷺ کے حقیقی وارث ہیں اور تاقیامت امامِ عالی مقامؓ کی اِس عظیم الشّان قربانی کی بازگشت سُنائی دیتی رہے گی کہ تاریخِ انسانی میں ایسا کوئی دوسرا واقعہ رُونما نہیں ہوا۔ میدانِ کربلا میں لڑے گئے معرکے میں حق کی فتح ہوئی اور باطل ہمیشہ کے لیے رُسوا ہوگیا۔
حضرت امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ اللہ کے سامنے جُھکنے والا سَر، کٹ تو سکتا ہے، مگر کسی ظالم کے سامنے نہیں جُھک سکتا۔ اُنہوں نے اپنے خون سے جو تاریخ رقم کی، اُسے قیامت تک عقیدت بَھری سلامی پیش کی جاتی رہے گی، جیسا کہ دنیا کے گوشے گوشے میں ہر زبان، ادب اور مذہب سے وابستہ افراد حضرت امام حسینؓ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، جب کہ پاکستان میں بھی ہر سال عاشورۂ محرم الحرام نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے اور اِس ضمن میں کراچی کی عزاداری ایک خاص مقام و خصوصیات کی حامل ہے۔
کراچی کی عزاداری میں، اُردو نوحہ خوانی کو جنہوں نے دوام بخشا، اُن میں علی ضیا رضوی، عزّت لکھنوی، صادق حسین، سیّد عالم واسطی، آفاق حسین رضوی، ناصر زیدی، جعفر حسین، ناظم حسین، مشتاق حسین شبر، قمر حسن اور ندیم عبّاس جیسے نوحہ خواں سرِفہرست ہیں، جب کہ اپنے منفرد طرز اور پُرسوز اُتار چڑھاؤ کے ساتھ نوحہ پڑھنے والے سیّد علی محمّد رضوی کو ایک دنیا’’سچّے بھائی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
وہ اپنی شخصیت خوش الحانی اور منفرد انداز کی وجہ سے ہر مجلس و محفل کی جان مانے جاتے تھے۔ سسچّے بھائی 1941ء میں بھارتی شہر، اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔اُن کا روحانی سفر بچپن ہی سے شروع ہو چُکا تھا۔ عُمر ابھی 7سال تھی کہ اپنے ماموں، سیّد حسن عسکری کے ساتھ، جو ایک بہترین نوحہ خواں تھے، نوحہ خوانی کرتے اور مختلف طرزیں بنانا سیکھتے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1950ء میں جب یہ خاندان ہجرت کر کے کراچی آیا، تو اُس وقت اُن کی عُمر 9برس تھی۔
اپنی صدق گوئی اور عادات و اطوار کے باعث’’سچّے‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اُن کا خاندان کراچی کے علاقے، لیاقت آباد سی ایریا میں رہائش پذیر ہوا اور سیّد علی محمّد رضوی کو ابتدائی تعلیم کے لیے ایک قریبی اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ بعدازاں، اُنھوں نے جیکب لائن سے میٹرک کیا اور اکیس سال کی عُمر میں کراچی یونی ورسٹی سے بیچلرز ڈگری اپنے نام کی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹنٹ تھے، مگر اُن کی اصل شہرت نوحہ خواں کی تھی۔ والد، سیّد یاور اعظمی بھی مشہور نوحہ خواں تھے، یوں گھر میں بچپن ہی سے نوحے، سلام اور مرثیے سُنے کو ملے۔
اسلامی تاریخ، ادب کے گہرے مطالعے اور گھر کے شاعرانہ ماحول نے اُنہیں شاعری اور نوحہ خوانی کی طرف راغب کردیا اور چھوٹے بھائی، سیّد علی عبّاس رضوی(بشے بھائی) کے ساتھ نوحہ خوانی شروع کی۔ابتدا میں گھر ہی پر نوحہ خوانی کرتے، والد سے نوحے لکھواتے اور پھر اُن کی مختلف طرزیں بناتے۔ اُنہوں نےمولانا حسن امداد عزّت لکھنوی، وصی فیض آبادی، محشر لکھنوی، مجاہد لکھنوی اور تجمّل لکھنوی کے لکھے ہوئے بعض نوحے بھی پڑھے۔ بہرکیف، اِن دونوں بھائیوں نے بہت ہی مختصر عرصے میں’’ سچّے‘‘ اور ’’بشے‘‘ کے نام سے خوب شہرت پائی۔
سچّے بھائی کی درد و سوز بَھری آواز سُننے والوں پر سحر سا طاری کر دیتی۔یہ وہ وقت تھا، جب کراچی میں نوحہ خوانی کی انجمنیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ سو، اُنہوں نے’’انجمنِ ذوالفقارِ حیدری‘‘کی بنیاد رکھی۔ واضح رہے، اِس سے پہلے گھروں پر جو عزاداری ہوا کرتی تھی، اُس میں کسی انجمن کا نام نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال، جب اِس طرح کی تنظیمیں قائم ہونا شروع ہوئیں، تو پھر شب بے داریوں کا بھی آغاز ہوگیا۔
سچّے بھائی نے اپنی معاشی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں اور جو وقت بچتا، اُسے عزاداریٔ سیّد الشہداءؓ کے لیے وقف کردیا۔آواز میں ترنّم اور گونج، لہجے میں نرمی اور ٹھہراؤ ایسا کہ سُننے والے سرشار ہو جاتے۔ ویسے تو وہ اپنے والد سميت کئی نام وَر شعراء کا کلام پڑھتے اور داد وصول کرتے، مگر ساٹھ کی دہائی میں اپنا لکھا ہوا پہلا نوحہ’’اونچا رہے اپنا عَلم‘‘کچھ اِس انداز سے پڑھا کہ سامعین کے دِلوں پر گہرے نقوش چھوڑ گیا۔یہ نوحہ آج بھی ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہےاور یہی نوحہ اُنہیں شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔
صرف یہی نہیں، منفرد طرز اور انتہائی اونچی پچ پر پڑھے جانے والے بہت سے نوحے اور سلام اُن کا اختصاص ہیں، جو مختلف نوحہ خواں آج بھی جلوس ہائے عزاء اور مجالس میں پڑھ کر اُن کی یاد دِلاتے ہیں۔ اُن کے کئی نوحے اور سلام آج بھی ایّامِ عزاء میں بچّے بچّے کی زبان پر ہوتے ہیں۔
جیسے کہ’’صاحبِ ذوالفقار المدد‘‘، ’’دین کو بچا لیا‘‘، ’’سدا رہے گا حسینؓ کا غم‘‘، ’’اے حسینؓ الوداع‘‘ اور ’’گھر فاطمہ زہراؓ۔‘‘ سچے بھائی نے فنِ نوحہ خوانی کی مکمل تربیت مجاہد لکھنوی سے لی، لیکن آواز کا اُتار چڑھاؤ اور لحن اُن کا اپنا تھا۔ اُنہوں نے عزاداری کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مگر اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے۔ کئی کتابیں بھی لکھیں، جب کہ چالیس سے زاید آڈیو کیسٹس بھی ریکارڈ کروائے۔
پچاس سال تک دنیا بَھر میں نوحہ خوانی کرنے والے سچّے بھائی، 18 اپریل2000 ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں وفات پاگئے اور کراچی میں آسودۂ خاک ہوئے۔ گو کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں، مگر اُن کی اچھوتی آواز گویا آج بھی فضاؤں میں گونج رہی ہے۔ اُن کی آواز کا درد اور علم و ادب آنے والی نسلوں تک ایک امانت کی طرح منتقل ہورہا ہے کہ اُن کے بیٹے، سیّد علی رضوی، داماد عادل رضوی اور نواسے بھی اُن ہی کی طرز پر نوحہ خوانی کرتے ہیں۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ سچّے بھائی صرف نوحہ خواں ہی نہیں، ایک بہترین شاعر بھی تھے اور زمانۂ طالبِ علمی ہی میں شعر موزوں کرنے شروع کردیئے تھے، تو اس ضمن میں اُن کی یہ نظم؎ ’’کبھی کبھی مَیں یہ سوچتا ہوں…یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی مَیں…عدم کو جس نے وجود بخشا…وجود کو پھر نمود بخشا‘‘بے حد مقبول ہوئی۔