• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روشنی کے مینار: صحابیٔ رسولﷺ، حضرت مصعب ؓ بن عمیر

صحابیٔ رسولؐ، حضرت مصعب ؓ بن عمیر، شہرِ مکّہ کے بہت وجیہ، و خُوب رو نوجوان تھے، یہاں تک کہ اُن کے حُسن و جمال کے چرچے امراء، رؤساء کے گھروں میں عام تھے۔ سُرخ وسفید رنگت، حسین نقش و نگار، منور و متبسّم پُرکشش چہرہ، کشادہ روشن پیشانی، ریشم جیسی ملائم، چمکیلی سیاہ زلفیں، متناسب قد، گداز و توانا جسم۔ 

مُلکِ شام و یمن کی اعلیٰ ترین ریشم سے تیار نرم وملائم، صاف و شفّاف پوشاک استعمال کرتے۔ حضرموت کے مشہورِ زمانہ حضرمی جوتے پہنتے، جو شہر کے رئیس و سردار خاص تقریبات میں استعمال کرتے تھے۔ عمدہ سے عمدہ لباس زیب تن کرتے، لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتے۔ عود و عنبر کی خوشبو سے مہکتا، خُوب صورت سراپا، جہاں سے گزرتے، فضا مہک اُٹھتی۔ غرض یہ کہ آپؓ حُسن و جمال میں اپنی مثال آپ تھے۔

ظاہری حُسن و جمال اور پاکیزہ سیرت: قریشِ مکّہ کے معروف قبیلے، بنو عبدالدار کے سردار، عمیر بن ہاشم بن عبدمناف کے گھر میں آنکھ کھولی، جہاں مال و دولت کی فراوانی تھی۔ والدین نے مصعب نام رکھا۔ والد، عمیر بن ہاشم اوائلِ عمری میں وفات پاچکے تھے۔ والدہ، خناس بنتِ مالک نے اپنے جگر گوشے کی ناز و نعم سے پرورش کی۔ وہ اُن کی آنکھوں کا تارا، دل کا چین تھے، پَل بھر کو خود سے جدا نہ ہونے دیتیں۔ 

حضرت معصبؓ بھی اپنے وقت کا بیش تر حصّہ ماں کی صحبت میں رہ کر آرائش و زیبائش میں صرف کرتے کہ یہی اُن کے بچپن کا شوق اور جنون تھا۔ ظاہری حُسن و جمال کے ساتھ اللہ نے پاکیزہ سیرت بھی عطا فرمائی تھی۔ شرم و حیا اُن کا زیور تھا، خانہ کعبہ میں رکھے بے جان بُتوں سے اُن کی بے زاری فطری تھی۔ حق و سچ کے متلاشی تھے، پیغمر آخر الزماں، محمد بن عبداللہ ﷺ کی رسالت سے متعلق سُن چکے تھے، لیکن والدہ اور چچا کے سخت ترین موقف اوران کی محمد ﷺ کی شدید ترین مخالفت سے بھی واقف تھے۔

حضرت مصعب ؓ بن عمیر، آنحضرت ﷺ کی خدمتِ اقدس میں: ایک روزکا ذکر ہے کہ حضرت مصعب ؓ کوہِ صفا کے دامن میں واقع دارِ ارقم کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ وہ گھر صحابی ٔ رسول ؐ ،حضرت ارقم ؓکی ملکیت اور آبادی سے دُور ایک الگ تھلگ جگہ پر واقع تھا۔ آنحضرت ﷺ نے 5نبوی ؐ سے اسے اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنا لیا تھا۔ 

اِدھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مصعبؓ سے متعلق فیصلہ کرلیا تھا۔ چناں چہ اُن کے قدم دارِ ارقم کی جانب خود بخوداٹھتے چلے گئے۔ اندر داخل ہوئے تو اللہ کے رسول ﷺ کو اپنا منتظر پایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وحی کےذریعے مطّلع فرمادیا تھا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے وہاں موجود صحابہؓ سے فرمایا۔ ’’یہ مصعب بن عمیرؓ ہیں۔ مَیں نے مکّہ میں مصعبؓ سے زیادہ خُوب صُورت بالوں والا، باریک قیمتی لباس پہننے والا اور ناز و نعم والا کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘

اور، حضرت مصعبؓ مشرف بہ اسلام ہوگئے: آنحضرت ﷺ نے اپنا دستِ شفقت آگے بڑھایا۔ مشرف بہ اسلام ہوئے، تو دل کی تاریکی دُور ہوئی۔ جس حق و سچ کی تلاش تھی، اس کی روشن کرنوں نے پورے وجود کو منور کردیا۔ قربِ نبیﷺ میں کچھ وقت گزارا، لیکن پھر گھر کی فکر ہوئی، والدہ نہایت سخت مزاج اور غیرمعمولی شخصیت کی حامل تھیں۔ وہ اپنی ماں سے محبّت بھی بہت کرتے تھے، لیکن خوفِ خدا بھی رکھتے تھے۔

ماں کے بارُعب چہرے پر نظر پڑی، تو سچ بتانے کی ہمّت نہ ہوئی۔ اب دارارقم کی حاضری روز کا معمول بن چکی تھی۔ تربیت کے مراحل طے ہورہے تھے، جب کہ دوسری طرف بیٹے کے اندر آنے والی تبدیلی ماں بھی نوٹ کررہی تھیں، لیکن انھیں اپنے نازک اندام، نوخیز صاحب زادے سے بِنا اجازت کوئی قدم کے اُٹھانے کی توقع نہ تھی۔

والدہ کی سختیاں اور حبشہ کا سفر: ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ ایک دن عثمان بن طلحہ نے آپ ؓکو دار ِارقم میں داخل ہوتے اور نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ اُس نے فوری طور پر گھر آکر والدہ کو مطلع کیا اور پھر آناً فاناً یہ خبر پورے مکّے میں پھیل گئی۔ 

حضرت مصعب ؓدار ِارقم سے فارغ ہوکر حسبِ معمول گھر میں داخل ہوئے، تو والدہ اور چچا غضب ناک حالت میں منتظر تھے۔ انھوں نے حضرت مصعبؓ کو دیکھتے ہی طیش کے عالم میں نماز سے متعلق باز پُرس شروع کردی، جب مطمئن نہ ہوسکے تو گھر میں قید کردیا۔

والدہ کا اصرار تھا کہ اپنے آبائی خداؤں کے مذہب پر آجاؤ، ورنہ پوری زندگی قید میں رہوگے۔ اسیری کے دوران چند ملازم وقت پر کھانا پینا اور ضروریاتِ زندگی دینے پر مامور تھے۔ اُن ہی کی زبانی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم پر کچھ مسلمان ملکِ حبشہ ہجرت کررہے ہیں، چناں چہ کسی نہ کسی طرح قید سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد حضور اکرم ﷺ کی اجازت سے حبشہ ہجرت کرنے والے مہاجرین میں شامل ہوگئے۔

حبشہ پہنچ تو گئے، لیکن دل، دارِ ارقم میں چھوڑآئے تھے۔ چناں چہ چند مسلمانوں کے ساتھ واپس مکّہ آگئے اور سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری دی۔ والدہ کو اطلاع ملی، تو انھوں نے پیغام بھیجا کہ ’’شہر میں، مَیں تیری منتظر ہوں، پہلے میرے پاس کیوں نہیں آیا؟‘‘ جواب بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ سے افضل میرے لیے اورکوئی نہیں۔ 

آپ ﷺ اجازت دیں گے، تو آؤں گا۔ حضور ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا۔ ’’جاؤ اور ادب واحترام کے ساتھ والدہ سے ملو۔‘‘ لہٰذا گھر آئے، والدہ سے ملاقات کی، لیکن والدہ کو پہلے سے زیادہ برہم پایا۔ انھوں نے پوچھا۔ ’’مصعب! تم ابھی تک اس غیر دین پر قائم ہو؟‘‘ جواب دیا۔ ’’جی امّاں جان! مَیں رسول اللہ ﷺ کے دین پر قائم ہوں اور آپ کو بھی اس کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘

والدہ سمجھ گئیں کہ یہ معاملہ اب پیار و محبت سے سلجھنے والا نہیں، چناں چہ انھوں نے چچا کے ساتھ مل کر ایک مرتبہ پھر حضرت مصعبؓ کو رسّیوں سے جکڑ کر قید کرنے کی کوشش کی۔ اس موقعے پرحضرت معصب ؓ نے کہا۔ ’’امّاں! اگر اس مرتبہ پھر مجھے قید کرنے کی کوشش کی گئی، تو میں ان سب کو قتل کردوں گا، جو اس عمل میں حصّے دار ہوںگے۔‘‘ بیٹے کے یہ عزائم دیکھ کر والدہ رونے لگیں اور کہا۔ ’’مَیں نے تجھے تیرے حال پر چھوڑا۔‘‘

حضرت معصبؓ والدہ سے لپٹ گئے اور محبّت بھرے لہجے میں بولے۔ ’’پیاری ماں! مَیں تیرا خیرخواہ ہوں، بس تُو ایک مرتبہ میرے ساتھ کلمہ پڑھ لے۔‘‘ یہ سُن کر ماں نے کہا۔ ’’مجھے چمکتے ستاروں کی قسم ہے، میں ہرگز تیرے دین میں داخل نہ ہوں گی، مَیں تجھے اور تیرے دین کو چھوڑتی ہوں، جیسا جی میں آئے، ویسا کر، البتہ مَیں اپنے دین پر قائم ہوں۔‘‘ (طبقات ابنِ سعد، جِلد3صفحہ نمبر215)۔

مسندِ شاہانہ سے غربت کی آغوش تک: حضرت مصعب ؓنے جس وقت گھر کو خیرباد کہا، توخالی ہاتھ تھے، کیوں کہ والدہ نے انہیں کوئی چیز ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ جسم پر صرف ایک لباس تھا، جسے دھو کر دوبارہ پہن لیتے، یہاں تک کہ وہ واحد لباس بھی انتہائی بوسیدہ ہوگیا اور اس میں پیوند لگانے کی نوبت آگئی۔ 

سیّدنا علی مرتضیٰ ؓبیان فرماتے ہیں کہ ’’ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ مصعب بن عمیرؓ تشریف لے آئے۔ اُن کے بدن پر چمڑے کے پیوند لگی ایک چادر تھی، جب رسول اللہ ﷺ نے اُنھیں دیکھا، تو اُن کے ناز و نعم کو یاد کرکے رونے لگے کہ کس حال میں وہ پہلے تھے اور کس حالت میں وہ اِن دنوں تھے۔ (سنن ترمذی 2476)۔رسول اللہ ﷺ اور بنی ہاشم کے ساتھ شعبِ ابی طالب میں محصور ہونے والوں میں حضرت مصعبؓ بن عمیر بھی تھے۔ (الاستیعاب1/1474)۔

اسلام کے پہلے سفیر، معلّم و مبلّغ: بعثت کے بارہویں سال، بیتِ عقبہ کے بعد مدینے کے کچھ لوگ حضوراکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس موقعے پر اسعد ؓبن زرارہ نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ ’’آپ ﷺ ایک ایسے شخص کو ہمارے ساتھ بھیج دیں، جو مدینے کے لوگوں کو قرآن اور اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرواسکے۔‘‘ 

چناں چہ، رسول اللہ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت ابن امِّ مکتومؓ کو ان کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔ (صحیح بخاری حدیث 3924)۔ یہ حضرات اسعد بن زرارہؓ کے مکان میں ٹھہرے۔ یوں اسلام کے اس نئے مرکز میں تبلیغ کا کام، توحید کی دعوت، نمازوں کی امامت اور تدریسِ قرآنِ مجید کے فرائض انجام دینے لگے ۔(سیرۃ ابن ہشام 429)۔

تبلیغ ِ اسلام، مدینے کےنام وَرسرداروں کا قبولِ اسلام : ایک دن حضرت اسعد زرارہؓ حضرت مصعب ؓ کو بنو عبدالاشہل اور بنو ظفر کے محلوں میں لے گئے۔دونوں حضرات بنو ظفر کے ایک باغ میں کنویں کے قریب بیٹھ گئے۔ حضرت اسعدؓ نے ایک دن پہلے ہی وہاں کے لوگوں کو اپنے اور حضرت مصعب ؓ کے آنے کی اطلاع کروا دی تھی۔ چناں چہ وقتِ مقررہ پر لوگ اُن کے پاس جمع ہونا شروع ہوگئے۔ حضرت سعدبن معاذ اورحضرت اُسید بن حضیر دونوں اس وقت اپنی قوم بنو عبدالاشہل کے سردار تھے اور دونوں مشرک تھے۔

حضرت سعدؓ نے حضرت اُسیدؓ سے کہا۔ ’’تم ان لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں ہمارے محلّے سے بھگا دو، تاکہ یہ افراد یہاں کے لوگوں کو بے دین نہ کرسکیں ۔‘‘ حضرت سعد ؓ نے کہا۔ ’’یہ کام میں خود بھی کرسکتا تھا، لیکن اسعدؓ میرے خالہ زاد بھائی ہیں، مجھ میں اُن سے بات کرنے کی ہمّت نہیں ہے۔‘‘

چناں چہ حضرت اُسید بن حضیر ؓ اپنا نیزہ لے کر اُن دونوں کے پاس پہنچ گئے۔ جب حضرت اسعد بن زرارہ ؓ نے حضرت اُسیدؓ کو آتے دیکھا، تو حضرت مصعب ؓ سے کہا۔ ’’یہ شخص اپنی قوم کا سردار ہے، اس سے خلوص و محبّت سے بات کرنا، اور اسے مائل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنا۔‘‘ ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ حضرت اُسید ؓ قریب پہنچ گئے اور نہایت غصّے میں کہا۔ ’’اگر تم دونوں اپنی جان کی امان چاہتے ہو، تو یہاں سے چلے جاؤ، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘

حضرت مصعب ؓ نے کہا۔ ’’آپ ہمارے پاس بیٹھ جائیں، ہماری بات سُن لیں، اگر پسند آئے، تو ٹھیک ہے، ورنہ پھر ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔‘‘ حضرت اُسید نے سوچا۔ اس شخص نے میری تلخ کلامی کے جواب میں نہایت نرم لہجے میں ایک معقول بات کی ہے، اس لیے سُن لینے میں کیا حرج ہے۔ چناں چہ انہوں نے پوری قوت سے اپنا نیزہ زمین پر گاڑا اور کہا۔ ’’بولو، کیاکہنا چاہتے ہو۔‘‘ حضرت مصعبؓ نے برف پگھلتے دیکھی، تو بڑے پیار سے انہیں اپنے پاس بیٹھنے کی دعوت دی۔

اُسید ایک لمحے کو رُکے پھر اُن کے پاس بیٹھ گئے۔ حضرت مصعبؓ نے اُن سے اسلام سے متعلق گفتگو کی اور قرآن پڑھ کر سنایا ۔حضرت اسعدؓ اور حضرت مصعب ؓ کا بیان ہے کہ’’ خدا کی قسم، اُسید کے چہرے کی بشاشت اور اُن کے انداز ِکلام کی نرمی دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ اسلام اُن کے اندر اُتر گیا ہے، پوری بات سُننے کے بعد انہوں نے کہا۔ ’’یہ کیسا عمدہ اور حسین کلام ہے، تم لوگ جب اس دین میں داخل ہوئے، تو کیا کرتے ہو؟‘‘ 

حضرت معصب ؓنے اُن سے کہا۔ ’’غسل کرکے اپنے جسم کو پاک کرلیں اور اپنے کپڑوں کو بھی پاک کرلیں اور پھرحق کی شہادت دیجیے اور اس کےبعد نماز پڑھیں ۔‘‘ وہ اُسی وقت اُٹھے، پاک صاف ہوکر آئے، کلمۂ شہادت ادا کیا اور دو رکعت نماز پڑھ لی۔ پھر کہنے لگے کہ ’’میرے پیچھے ایک آدمی ہے، جو اگر تمہاری پیروی اختیار کرلے تو اس کی قوم میں سے ایک آدمی بھی اس کے خلاف نہیں چلے گا۔ مَیں جاکر اسے تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔‘‘ 

یہ کہہ کر حضرت اُسید ؓاپنا نیزہ لے کر سعد بن معاذ کی طرف چلے، جن کے پاس ان کے قبیلے کے لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ سعد نے انہیں آتے دیکھ کر کہا۔ ’’مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ وہ چہرہ نہیں ہے، جسے لیے ہوئے اُسید گئے تھے۔‘‘ (سیرت سرورِ عالم ؐ 2/698)۔

سعد بن معاذ قبیلے سمیت مشرف بہ اسلام ہوگئے: حضرت اُسید ؓ جب سعد کی مجلس میں کھڑے ہوئے، تو سعد نے پوچھا۔ ’’کیا کر آئے ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’مَیں نے اُن دونوں سے بات کی، مجھے تو اُن میں کوئی خرابی نظر نہ آئی، مَیں نے اُنھیں منع کیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ جو کہیں گے، ہم وہی کریں گے۔‘‘

پھر حضرت اُسید ؓنے کہا۔ ’’مَیں نے سُنا ہے کہ بنی حارثہ اسعدؓ بن زرارہ کو قتل کرنے کے لیے نکلے ہیں، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ تمہارا خالہ زاد بھائی ہے، اس طرح وہ تمہاری تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی سعد غصّے سے غضب ناک ہوکر اُٹھے اور اپنا حربہ لے کر تیزی سے چلے تاکہ بنی حارثہ کے ہاتھ پڑنے سے پہلے بھائی تک پہنچ جائیں۔ چلتے ہوئے انہوں نے اُسید ؓسے کہا۔ ’’واللہ!میں سمجھتا ہوں کہ تمھارے بھیجنےکا کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘ 

حضرت اسعدؓ نے بھائی کو دُور سے آتے دیکھا، تو حضرت مصعبؓ سے کہا۔ ’’یہ جو آرہا ہے، ایسا سردار ہےکہ جس کے پیچھے اس کی ساری قوم ہے، یہ مسلمان ہوگیا تو ان کی پوری قوم مشرف بہ اسلام ہوجائے گی ۔‘‘ وہاں پہنچ کر جب سعد نے دیکھا کہ اسعدؓ اور مصعبؓ دونوں نہایت اطمینان سے بیٹھے ہیں، تو سمجھ گئے کہ اُسید ؓ کا مقصد دراصل مجھے ان کی بات سُنوانا تھا۔ 

وہ غضب ناک انداز میں آکر کھڑے ہوئے اور اسعد ؓبن زرارہ سے کہا۔ ’’ابو امامہ! بخدا، اگر میرے اور تمہارے درمیان قرابت داری نہ ہوتی، تو یہ شخص (یعنی حضرت مصعبؓ) مجھ سے بچ نہ سکتاتھا۔‘‘ پھر حضرت مصعبؓ سے غصّے سے کہا۔ ’’تم ہمارے گھر میں ہم پر اُس چیز کو مسلّط کرنا چاہتے ہو، جو ہمیں پسند نہیں، بہتر یہ ہے کہ تم فوراً یہاں سے نکل جاؤ۔‘‘ حضرت معصبؓ نے نہایت نرمی سے کہا۔ ’’اے سردار! آپ بیٹھ کر ہماری بات سن لیں، پسند آئے تو قبول کرلیجیے، ورنہ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔‘‘ سعد نے کہا۔ ’’اچھا کہو، کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘ پھر انہوں نے اپنا حربہ زمین پر گاڑدیا اور بیٹھ گئے۔ 

حضرت مصعبؓ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سُنایا۔ حضرت مصعب اور حضرت اسعدؓ کا بیان ہے۔ ’’اُن کے کچھ کہنے سے قبل ہی ہم اُن کے چہرے کی بشاشت اور نرمی دیکھ کر سمجھ گئے کہ اسلام اُن پر اثر کرگیا ہے۔‘‘ 

سعد نے ساری بات سننے کے بعد کہا۔ ’’اس دین میں داخل ہونے کے لیے تم کیا کرتے ہو؟‘‘ انہوں نے وہی بات ان سے کہی، جو حضرت اُسید ؓ سے کہی تھی۔ چناں چہ وہ پاک صاف ہوکر آئے، کلمۂ شہادت پڑھا اور دو رکعت نماز ادا کی، پھر اپنا حربہ لے کر اپنے قبیلے کی مجلس کی طرف پلٹ گئے۔ 

حضرت سعدؓ کو اپنی طرف آتے دیکھ کر لوگ بول اٹھے کہ ’’یہ وہ چہرہ ہی نہیں، جسے لیے ہوئے سعد ؓ گئے تھے۔‘‘ انہوں نے آتے ہی کہا۔ ’’اے بنی عبدالاشہل! تم مجھے اپنے ساتھ کیسا پاتے ہو؟‘‘ سب نے کہا۔ ’’آپ ہمارے سردار ہیں اور سب سے زیادہ صلۂ رحمی کرنے والے، سب سے زیادہ صائب الرّائے اور ہم سب سے زیادہ عمدہ عقل اور تجربہ رکھنے والے ہیں۔‘‘ 

جواب سن کر بولے۔ ’’تمہارے مردوں اور تمہاری عورتوں سے بات کرنا مجھ پرحرام ہے، جب تک تم اللہ اور اُس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لے آؤ۔‘‘ اس کے بعد شام ہونے سے پہلے بنی عبدالاشہل کے سب مرد و خواتین مسلمان ہوگئے۔ 

ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ حضرت مصعبؓ مدینے میں پیہم تبلیغ کرتے رہے، یہاں تک کہ انصار کے محلّوں میں کوئی محلّہ ایسا نہ رہا، جہاں مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں موجود نہ ہوں۔ صرف تین چار گھرانے رہ گئے تھے، جنھوں نے غزوئہ خندق تک اسلام قبول نہ کیا۔ (سیرت سرور عالم ؐ 2/698)۔

جمعہ کی نماز پڑھانے والے پہلے شخص: حضرت مصعب ؓ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے حضور ﷺ کی اجازت سے مدینے میں سب سے پہلے نمازِ جمعہ پڑھائی۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو خط لکھ کر اس امَر کی اجازت چاہی، تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں نماز ِجمعہ پڑھانے کے اجازت مرحمت فرمائی۔ حضرت مصعب ؓ بن عمیر نے اجازت ملنے پر حضرت سعد بن خیثمہ کے مکان میں جمعے کی نماز پڑھائی، جس میں بارہ افراد شامل تھے۔ (البدایہ والنہایہ)۔ 

حضرت کعب بن مالک ؓ اور ابن سیرین سے روایت ہے کہ نماز جمعہ کا حکم آنے سے پہلے ہی مدینے کے انصار نے آپس میں ہفتے میں ایک دن اجتماعی نماز پڑھنے سے متعلق طے کرلیا تھا، چناں چہ سب سے پہلا جمعہ حضرت سعد بن زرارہؓ نے بنی بیاضہ کے علاقے میں پڑھایا، جس میں 40افراد شریک ہوئے۔ (سیرت سرورِعالم ؐ 2/700)۔ 

آنحضرت ﷺ کی اجازت اور ہدایت کے مطابق نمازِ جمعہ حضرت مصعبؓ نے پڑھائی۔ مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے انصارو مہاجرین کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم فرمایا تو حضرت مصعب ؓ کو حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا بھائی قرار دیا اور دونوں میں اسلامی بھائی چارہ قائم کیا۔ (الاصابہ)

اسلام کے پہلے پرچم بردار: نبی کریم ﷺ نے غزوئہ بدر میں مسلمانوں کا پرچم، حضرت مصعبؓ کو عطا فرمایا۔ اس جنگ میں ان کے بھائی زرارہ بن عمیر مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوکر آئے، تو اس موقعے پر بعض صحابہ نے انھیں بھائی کو آزاد کرنے کا مشورہ دیا، لیکن اسلام کے اس جاں باز سپاہی اور عاشقِ رسول ﷺ نے انہیں جواب دیا۔ ’’تم انہیں رہا کروانے کا مشورہ دے رہے ہو، لیکن مَیں نے اپنے بھائی کے ہاتھوں کو مضبوطی سے باندھنے کا حکم دیا ہے، تاکہ ہماری والدہ، جو نہایت امیر کبیر خاتون ہیں، ان سے بیٹے کی رہائی کے لیے زیادہ سے زیادہ فدیہ لیا جاسکے۔‘‘(واقدی کتاب الامغاز 140/1)۔

غزوئہ اُحد میں حضرت مصعب ؓ کی شہادت: غزوئہ اُحد میں آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا۔ ’’کفار قریش کا پرچم کس کے پاس ہے؟‘‘ بتایا گیا کہ ’’بنو عبدالدار کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ہم بھی اپنا پرچم بنو عبدالدار ہی کو دیں گے۔‘‘ آپ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو یاد فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے جنگ کا سب سے بڑا پرچم حضرت مصعب ؓ کو عنایت فرمایا۔ حضرت مصعب کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ وہ دونوں جنگوں میں مہاجرین کے پرچم بردار تھے ۔ میدانِ جنگ میں حق و باطل کی لڑائی اپنے عروج پر تھی۔ 

حضرت حمزہ ؓ اور ابودجانہ ؓ بپھرے ہوئے شیروں کی طرح دشمنوںپر وار کررہے تھے کہ اچانک ایک وحشی غلام نےاپنے زہر آلود نیزے سے حضرت حمزہ ؓ کو شہید کردیا۔ اس کے باوجود جنگ میں مسلمانوں کا پلّہ بھاری رہا۔ صحابہ ٔ کرام ؓ اس شجاعت و بہادری سے لڑے کہ مشرکین کے حوصلے پست اورہمّت جواب دے گئی ۔ ابو سفیان اور کفارِ قریش کے پاؤں اکھڑ چکے تھے۔ 

چناں چہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبورہوگئے۔ میدانِ جنگ میں کفار کا سامانِ حرب بکھرا پڑاتھا اور پھر ایک چھوٹی غلطی نے جنگ کا پانساپلٹ دیا۔ حضرت حمزہؓ کے بعد عبداللہ بن جبیر ،ؓ سعد بن معاذ، ابو دجانہ، عمارہ بن زیاد ؓ اور حضرت حنظلہ ؓ نے پامردی و جاں بازی کی نئی تاریخ رقم کی، لیکن ایک ایک کرکے سب ہی شہید ہوتے چلے گئے۔ 

مسلمانوں پر یہ کڑاوقت تھا۔ حضرت مصعبؓ اپنے دونوں ہاتھوں سےجھنڈابلند کیے ہوئے تھے، تاکہ مسلمان ثابت قدم رہیں۔ کفارکے مشہور جنگ جُو، ابنِ قمیہ نے جب یہ دیکھا، تو وہ حضرت مصعبؓ کے قریب آیا، اس سے پہلے کہ حضرت مصعب اپنی تلوار سے اس پر وار کرتے، اس نے ان کا داہنا ہاتھ کاٹ دیا۔ حضرت مصعب ؓ نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اب ابنِ قیمہ نے بائیں ہاتھ پر وار کیا اوروہ بھی کاٹ دیا۔ اُنھوں نے جھنڈا اپنے بازوؤں سے جکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔

ابنِ قمیہ نے تیسری مرتبہ نیزے سے بھرپور وار کیا اور اسے پوری قوت سےان کے جسم میںاتاردیا، نیزہ ٹوٹ گیا اور حضرت مصعب زمین پر گر پڑے اور جامِ شہادت نوش فرماگئے ۔ حضرت مصعب ؓ کے بھائی ابوالروم عمیر ؓ نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا، یہاں تک کہ وہ مدینے میں داخل ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد)۔

ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ اُحد کی جنگ میں حضرت مصعب ؓ نے رسولِ خداﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کیا، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ ابنِ قمیہ لیثی نے انہیں شہید کیا۔ اپنی دانست میں وہ سمجھ رہا تھا کہ (نعوذ باللہ) اس نے رسولِ خدا ﷺ کو شہید کردیا ہے۔ اس خیال میں اس نے اعلان کردیا کہ میں نے رسولِ خدا ﷺ کو شہید کردیا ہے۔ مصعب بن عمیرؓ کے شہید ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنا نشان، حضرت علی ؓ کو عنایت فرمایا۔ 

حضرت علی مرتضیٰ نے نہایت سرگرمی سے جہاد شروع کیا، بہت سے مسلمان آپ کے ساتھ تھے۔ (سیرت ابن ہشام، جلد دوم، صفحہ91)۔ حضرت مصعب ؓ آنحضرت ﷺ سے بہت مشابہ تھے، اسی غلط فہمی کی بنا پر کفار نے آپ ﷺ کی شہادت کی جھوٹی خبر میدانِ جنگ میں پھیلائی۔ اس خبر سے مجاہدین میں وقتی طور پر افراتفری پھیل گئی، جس کا فائدہ کفار کو ہوا۔

مکّہ کے جوانِ رعنا کا نامکمل کفن: سعد بن ابراہیمؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے پاس کھانا لایا گیا۔ وہ روزے سے تھے۔ انہوں نے کہا۔ ’’مصعب ؓ اُحد کی جنگ میں شہید کردیئے گئے، وہ مجھ سے افضل اور بہتر تھے، لیکن انہیں جس چادرکا کفن دیا گیا وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگر میں ان کا سر چُھپاتا تو پاؤں کُھل جاتے اور اگر پاؤں چُھپاتا تو سر کُھل جاتا۔ (صحیح بخاری 4045)۔ 

حضرت خباب ؓ سے روایت ہے کہ’’ حضرت مصعب بن عمیر ؓ اُحد کے روز شہید کردیئے گئے، اُن کے پاس ایک ہی سفید و سیاہ دھاری دار اونی چادر تھی۔ ہم جب اُن کا سَر ڈھانپتے، تو پاؤں نکل جاتے اور جب پاؤں ڈھانپتے، تو سَر کُھل جاتا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اس چادر سے اُن کا سر ڈھانپ دو اور قدموں پر تھوڑی سی ازخر(گھاس) ڈال دو۔‘‘(سنن ابو داؤد 3155)۔

عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے پاس کھڑے ہو کر سورئہ احزاب کی آیت23آخر تک پڑھی۔ ترجمہ: ’’مومنوں  میں  ایسے لوگ بھی ہیں، جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا، انہیں سچا کردکھایا۔‘‘

ابراہیم بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت مصعب ؓ کو کفن پہنایا جارہا تھا، توآپ ﷺ ان کے پاس کھڑے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’مَیں نے تمھیں مکّے میں دیکھا تھا، وہاں تم سے زیادہ باریک کپڑے والا اور خُوب صُورت بالوں والا کوئی نہ تھا۔ اب تم ایک چادر میں پراگندہ سر ہو۔‘‘ پھرآپ ﷺ نے حکم دیا۔ ’’انہیں دفن کردیا جائے۔‘‘ قبر میں ان کے بھائی ابو الرومؓ، عامر بن ربیعہ اور سویبط بن سعد حرملہ اُترے۔ (طبقات ابنِ سعد، جِلد 3، صفحہ 216)۔

بیوی کا شوہر سے قلبی لگاؤ: حضرت حمنہ ؓ بنت ِجحش سے روایت ہے کہ ان سے کہا گیا کہ آپ کا بھائی قتل کردیا گیا ہے، تو انہوں نے کہا ’’اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون، ہم اللہ کے ہیں اور اللہ ہی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ لوگوں نے بتایا کہ آپ کے شوہر قتل کردیئے گئے ہیں۔ یہ سُنتے ہی انہوں نے کہا ’’ہائے غم۔‘‘ 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’بیوی کو شوہر سے ایک ایسا قلبی لگاؤ ہوتا ہے، جو دوسرے کسی سے نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ، حدیث 1590)۔ حضرت مصعب ؓ  بن عمیر ہجرت مدینہ سے 42سال قبل مکّہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نکاح حضرت حمنہ ؓبنتِ جحش سے ہوا، جن کے بطن سے ایک بیٹی زینب پیدا ہوئیں اور حضرت مصعب ؓ کی نسل ان ہی سے آگے چلی۔ (اسد الغابہ6 /134)۔