’’شریفِ مکّہ‘‘ ایک لقب ہے، جو موجودہ سعودی فرماں رواؤں کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح’’خادمِ حرمین شریفین‘‘یعنی حرمِ مکّہ اور حرمِ مدینہ کے خادم کا ہم معنی ہے، جو ماضی میں کئی صدیوں سے کعبۃ اللہ اور مسجدِ نبویؐ کے متولّی اور خادم و محافظ کے لیے استعمال ہوتا رہا۔حسین بن علی الہاشمی کو عثمانی خلیفہ، سلطان عبدالحمید ثانی نے1908 ء میں ’’شریفِ مکّہ‘‘ کے منصب پر فائز کیا تھا۔
یہ خاندان، جس کا شاہ عبداللہ ثانی اب اُردن پر حُکم ران ہے،خالص ہاشمی ہے، یعنی رسول کریم ﷺ کے خاندان بنو ہاشم سے تعلق رکھتا ہے۔یہ بجائے خود کوئی معمولی اعزاز نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ عثمانی خلیفہ نے اُسے فلسطین اور پورے حجاز کا حُکم ران بنا دیا تھا۔ اُسے تین مقدّس ترین مساجد مسجد الحرام(بیت اللہ شریف)، مسجدِ نبویؐ اور مسجدِ اقصیٰ کا نگران و متولّی بنایا گیا تھا، لیکن یہ جنگِ عظیم اوّل کے دَوران’’لارنس آف عریبیا‘‘(Lawrence of Arabia) کے جال میں پھنسا اور انگریزوں کے کچھ وعدوں کے جھانسے میں آ کر عثمانی خلافت سے غدّاری کی، لیکن یہ جس فریب میں پھنسا، اُس کا پہلا نتیجہ تو یہ ہوا کہ برطانیہ نے جنگ کے بعد، جب فلسطین کو اپنے انتداب میں لیا، تو اُس سے مسجدِ اقصیٰ کے خادم اور متولّی کا اعزاز چِھن گیا۔
مملکتِ اُردنیہ ہاشمیہ، دریائے اُردن کے مشرقی کنارے پر اب ایک چھوٹا سا مُلک ہے۔ مشرق میں اس کی سرحدیں سعودی عرب سے، مغرب میں مصر اور اسرائیل سے ملتی ہیں۔ مصر اور اردن کو خلیجِ عقبہ جُدا کرتی ہے۔ اس کا بڑا حصّہ صحرائے عرب پر مشتمل ہے۔آبادی قدیم عرب قبائل اور فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ اُدھر جسے اب سعودی عرب کہتے ہیں، وہاں قبائلی نظام قائم تھا۔قبائل اپنی اپنی بالادستی کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔
نجد کے علاقے، ریاض میں آلِ سعود اور آلِ رشید کی سخت کش مکش تھی۔ ہیل(Hail) نجد کی قبائلی ریاست تھی، جس میں آلِ رشید کی حُکم رانی تھی۔ دونوں قبیلوں میں لڑائی ہوئی اور آلِ رشید نے آلِ سعود کو مار مار کر وہاں سے بھگا دیا۔ آلِ سعود نے کویت کے موجودہ حُکم ران خاندان کے ہاں جا کر پناہ لی اور کچھ عرصے بعد مکمل تیاری کر کے کویت کی مدد سے ریاض میں آلِ رشید پر شب خون مارا، جس میں بہت سے لوگ مارے گئے۔
یوں ریاض پر آلِ سعود کا قبضہ ہوگیا اور اُنہوں نے نجد کے علاقے میں اپنی بادشاہت قائم کر لی۔ اِسی عرصے میں نجد میں شیخ محمّد بن عبدالوہاب کی اصلاحی تحریک جاری تھی۔ وہ عقائد، سماجی رسم و رواج اور اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کی مہم چلا رہے تھے۔ شاہ عبدالعزیز بڑے زیرک اور معاملہ فہم حُکم ران تھے۔ اُنہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ اِس اصلاحی تحریک کی سرپرستی سے معاشرہ بھی سنورے گا اور اُن کی بادشاہت کو بھی تقویت ملے گی۔
لہٰذا، اُنہوں نے آلِ شیخ (محمّد بن عبدالوہاب)سے ایک غیر تحریری معاہدہ کر لیا کہ سعودی بادشاہت کے مذہبی امور میں آلِ شیخ کو بالا دستی حاصل ہو گی۔ شاہ عبدالعزیز نے سعودی بادشاہت کو نجد میں شمال، جنوب اور مشرق میں خلیجِ عرب(فارس) کے ساحل تک پھیلا دیا تھا، لیکن اُنہیں یہ احساس تھا کہ مغرب میں حجاز کی پٹّی کو تحویل میں لیے بغیر سعودی بادشاہت ادھوری اور غیر محفوظ رہے گی۔
23ستمبر 1932ء کو نجد اور حجاز کی بادشاہتوں کا ادغام ہوا۔شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے اپنے والد کی جانب سے مملکتِ عربیہ السّعودیہ کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔ شریفِ مکّہ، حسین بن علی 4جون 1931ء کو فوت ہو گئے تھے، جس پر سعودی عرب نے حجاز کی پٹّی پر قبضہ کر لیا۔ یوں شریفِ مکّہ کی خاندانی حکومت صرف اُردن تک محدود ہو گئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُردن کی ہاشمی بادشاہت برطانیہ اور امریکا کی انتہائی’’فیورٹ‘‘ تھی، اس کے باوجود سعودیوں نے اِتنی آسانی سے اُن سے حجاز کیسے چھین لیا تھا؟
اصل معاملہ یہ تھا کہ کنگ عبدالعزیز نے ریاض میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد شمال سے جنوب اور خلیج کے ساحلی علاقوں تک اپنی حکومت وسیع کر لی تھی۔ یہ وہی عرصہ تھا، جب خلیج کے ساحل اور مشرقی علاقے میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ امریکا نے سعودی حکومت سے ٹکرانے کی بجائے یہ حکمتِ عملی اختیار کی کہ اُس کے ساتھ تیل میں شراکت کا معاہدہ کر لیا جائے۔
چناں چہ، 1933ء میں کیلی فورنیا کی اسٹینڈرڈ آئل کمپنی سے شراکتِ حصص کا ایک معاہدہ کیا گیا۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان کا یہ کہنا کہ’’امریکا سے ہمارے تعلقات 90سال سے قائم ہیں‘‘، یہ تیل میں شراکت کے اُسی معاہدے کی طرف اشارہ تھا۔
بہرحال، شریفِ مکّہ کے انتقال کے بعد برطانیہ کے تزویراتی مفادات کے تحفّظ اور اُردن سے اُس کے تعلقات کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ کسی قابلِ اعتبار اور وفادار کو اُردن کی بادشاہی سونپی جائے۔ شریفِ مکّہ کا بیٹا، عبداللہ اوّل ہی اِس معیار پر پورا اُترتا تھا۔
چناں چہ، وہی اُردن کا بادشاہ بنا۔ کولمبیا یونی ورسٹی میں فلسطین نژاد امریکی اسکالر، راشد خالدی نے اپنی کتاب ’’ Sowing Crisis ‘‘میں شریفِ مکّہ کے بیٹے، عبداللہ اوّل کو اُردن پر بادشاہ بنانے کے دل چسپ عمل کو بیان کرتے ہوئے جو کچھ لکھا، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ مارچ 1921 ء میں برطانیہ کے بڑے پالیسی سازوں کی قاہرہ میں ایک کانفرنس ہوئی۔
اُس میں شام، حجاز اور مصر میں تبدیلیوں کے تناظر میں خطّے میں برطانوی تسلّط قائم رکھنے کے لیے جو تدبیریں سوچی گئیں، اُن میں ایک یہ تھی کہ مصر کے1919 ء اور عراق کے 1920ء کے انقلابات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر جگہ آزادی کی جو تحریکیں برپا ہیں، اُنہوں نے مختلف ممالک کو براہِ راست برطانیہ کے تسلّط میں رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔ اب براہِ راست محکوم بنانے کی بجائے ایک طرح کی نیم خود مختاری( self rule )کا دھوکا دے کر بالواسطہ استعماری تسلّط قائم کیا جائے۔
اُردن میں اِس نسخے کے مطابق عبداللہ اوّل کو بادشاہ بنا دیا گیا۔پھر اُس کے لیے بادشاہت کے پردے کے پیچھے ایسا نظام تشکیل دیا گیا، جو راشد خالدی کے الفاظ میں’’ British commanded, British officered, British financed and British controlled ‘‘ ہو، یعنی اس میں حکم برطانیہ کا چلے، افسر شاہی برطانیہ کی ہو، اُس کی مالی مدد برطانیہ کرے اور یہ برطانیہ کے کنٹرول میں ہو، لیکن اُردن میں تعلیم یافتہ شہری آبادی میں اضافے اور دوسری طرف عرب قوم پرستی کی طاقت وَر لہروں نے مشکل کھڑی کر دی تھی۔
شاہ عبداللہ اوّل بظاہر خود مختار تھا، لیکن اُردن اور فلسطین ہی کا نہیں، عرب کا بچّہ بچّہ جانتا تھا کہ وہ حقیقت میں برطانیہ کا وفادار اور فرماں بردار ہے۔ اِسی تاثر کا نتیجہ تھا کہ شاہ عبداللہ اوّل مسجدِ اقصیٰ میں جمعے کی نماز پڑھنے گیا،تو ایک فلسطینی درزی نے عین نماز کی حالت میں اُس پر پستول سے گولیاں چلائیں اور شاہ موقعے ہی پر ہلاک ہو گیا۔
عراق میں شریفِ مکہ کے بیٹے کو بادشاہ بنایا گیا تھا، لیکن دو نسلوں بعد شام کی طرح وہاں بھی فوجی انقلاب رُونما ہوا۔ بریگیڈیئر عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسّلام عارف نے بغداد پر قبضہ کر لیا۔ آگے چل کر عبدالسّلام عارف نے عبدالکریم قاسم کو چلتا کیا اور انقلاب دَر انقلاب کا یہ سلسلہ صدّام حسین کی آمریت پر آ کر رُکا۔
بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آغاز تک عرب دنیا میں قوم پرستی کی جو فصل تیار ہوئی، اُس کا پھل روسی اشتراکیت کے اچار، چٹنی کے ساتھ، گھر گھر کی لذّت بن گیا اور فوجی آمریتوں نے اُس میں اپنا مرچ مسالا بھی شامل کر دیا۔ مصر کے فوجی ڈکٹیٹر، جمال عبدالنّاصر نے عرب قوم پرستی کو بہت فروغ دیا۔
اُسی نے1952 ء میں مصر کے شاہ فاروق کا تختہ اُلٹ کر فوجی آمریّت قائم کی تھی۔ وہ عرب ممالک میں قوم پرست قوّتوں کا آئیڈیل بن گیا تھا۔ اُردن کے شاہ عبداللہ اوّل کو یہ ادراک تھا، اِسی لیے وہ اپنی بادشاہت بچانے کے لیے نہ صرف برطانیہ پر مکمل انحصار کر رہا تھا بلکہ اسرائیلی یہودیوں سے بھی اُس نے اچھے مراسم قائم کر لیے تھے۔ قوم پرستی کے جراثیم بڑے عرب ممالک کے ساتھ اُردن اور فلسطین جیسے چھوٹے مقامات تک بھی پھیل گئے تھے۔
شاہ عبداللہ اوّل کی موت کے فوراً بعد مُلک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ اُن کے بیٹے، طلال بن عبداللہ کو اُردن کا نیا بادشاہ بنایا گیا، لیکن اُس کی ذہنی صحت یہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں تھی، اِس لیے شاہ عبداللہ اوّل کے پوتے حسین تخت نشین ہوئے۔ راشد خالدی نے لکھا ہے کہ حسین بن طلال کو بادشاہ بنانے میں برطانیہ اور امریکا کے علاوہ محل سے وابستہ اعلیٰ فوجی افسران اور سب سے بڑھ کر اُن کی والدہ، ملکہ زین کا کردار تھا۔ شاہ حسین اپنے دادا سے کچھ مختلف ثابت ہوئے۔
اُنہوں نے فوری طور پر مُلک میں مارشل لا ختم کیا۔ اپنے دادا کے برعکس خاصے لبرل اور جمہوریت پسند ثابت ہوئے۔ اُنہوں نے مُلک میں سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کی اجازت دی۔ البتہ عرب ممالک کے عام رجحان کے برعکس اُنہوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ شاہ حسین کے دَور میں پہلے نہرِ سویز کی جنگ ہوئی۔ مصر، شام اور اُردن کو 1967ء کی چھے روزہ عرب، اسرائیل جنگ کا سخت ترین جھٹکا لگا۔ شخصی حکومتوں اور فوجی آمریتوں میں شفّافیت عموماً مفقود ہوتی ہے اور حالات و معاملات پر پردے پڑے ہوتے ہیں۔
اونچے بجنے والے ڈھول، اندر سے خالی ہوتے ہیں۔ اِسی طرح روس کے جال میں پھنسے شام اور مصر کے ساتھ، امریکا اور برطانیہ کے اثر میں دھنسے اُردن کا سارا بھرم مٹّی میں مل گیا کہ اِس جنگ میں اِن تینوں ممالک کو شرم ناک شکست ہوئی۔ مصر کا صحرائے سینا، شام کی گولان کی پہاڑی چوٹیاں اور اُردن کا دریائے اردن کا مغربی کنارا، مشرقی یروشلم، غزہ کی پٹّی پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔
شاہ حسین نے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی، لیکن امریکا اور برطانیہ کی ’’گُڈ بُک‘‘ میں ہونے کے باوجود وہ اپنے کھوئے علاقے واپس نہ لے سکا۔ اُنہوں نے چھیالیس سالہ بادشاہت میں خاصے سرد و گرم حالات دیکھے۔ پہلے اپنے بھائی، حسن بن طلال کو اپنا ولی عہد نام زَد کیا تھا، لیکن آخری عُمر میں یہ فیصلہ بدل کر اپنے بیٹے، عبداللہ ثانی کو ولی عہد بنایا۔ اِس فیصلے میں بھی محل کے اندر کی دنیا کے علاوہ امریکا اور برطانیہ کی رائے فائق رہی۔ شہزادہ حسن بن طلال پاکستان کے داماد ہیں۔
ایک قیاس یہ ہے کہ اُن کی ولی عہدی منسوخ ہونے میں یہی دامادی آڑے آئی۔اُن کی شادی معروف پاکستانی بیورو کریٹ اور پاکستان کے خارجہ امور کے پہلے سیکرٹری، محمّد اکرام اللہ اور بیگم شائستہ اکرام اللہ کی بیٹی، ثروت اکرام اللہ سے ہوئی تھی۔ یہ کسی ملکہ کا اور شاید امریکا اور برطانیہ کا دباؤ تھا، جس کی وجہ سے شاہ حسین نے بھائی کی جگہ بیٹے عبداللہ ثانی کو ولی عہد بنایا۔ وہی اب بادشاہ ہیں اور اپنی روایات کے مطابق امریکا اور برطانیہ سے عہدِ وفا نباہ رہے ہیں۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)