تاریخ کے سینے پر رُونما ہونے والے کچھ واقعات، وقت کے معمولی بہاؤ کی بجائے صداقت کی سچّی ضرب سے ظہور پاتے ہیں اور واقعۂ کربلا بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے۔ کربلا ایک ایسا مقام ہے، جہاں آسمان نے دیکھا کہ تپتی ریت پر پیاسے لبوں سے صدائے حق بلند ہوئی اور فرات کے کنارے وہ پیاس بُجھائی گئی، جو رُوح کو سیراب کرتی ہے۔
سانحۂ کربلا صرف ایک معرکۂ حق و صداقت نہیں، ایک دائمی شعور، روحانی کش مکش اور ایک بے داری ہے، جو ہر صدی میں، ہر دھڑکتے ضمیر میں، ہر سچ کے متلاشی میں جنم لیتی ہے۔ یہ کہنا نادانی ہو گی کہ واقعۂ کربلا کا تعلق فقط مسلمانوں سے ہے، حقیقتاً یہ پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔
حضرت امام حسینؓ ایک نظریے کا نام ہے، جو باطل، ظلم اور استبداد کے خلاف ظہور پاتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ انکار کا پہلا باب ہیں، وہ انکار جو سجدے میں نہیں ڈھلتا اور جو دربار کے تیز دھار سے سوالات خندہ پیشانی سے جھیلتا ہے۔
جب اُنہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کیا، تو یہ فقط ایک سیاسی فیصلہ نہ تھا، بلکہ ایک کائناتی احتجاج تھا۔ یہ احتجاج عدل کی بقا، دین کی رُوح، اُمّت کی غیرت اور انسانیت کا ضمیر جگانے کے لیے تھا اور یزیدیت کوئی مخصوص چہرہ نہیں، بلکہ ہر اُس سوچ کا نام ہے، جو اقتدار کے لیے اصول بیچ دیتی ہے، جو طاقت کے آگے دین کا سودا کر لیتی ہے اور سچ کو مصلحت کے دستانے پہنا کر دفن کرنا چاہتی ہے۔
اُنہوں نے اعلان کیا کہ دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا نام ہے۔کربلا میں72چراغ تھے، جو اندھیروں کے خلاف جلائے گئے۔ وہ چراغ، جو ہر اُس دل کو روشنی دیتے ہیں، جو سچ کا متلاشی ہو۔ حضرت امام حسینؓ کا قافلہ فقط چند سو میل کا سفر طے نہیں کر رہا تھا، بلکہ وہ صدیوں کا فاصلہ مِٹا رہا تھا، وہ ایک ایسا بیانیہ چھوڑ رہا تھا، جو قصرِ شاہی میں بیٹھے ہر ظالم کو للکارتا رہے گا۔
عالمی تاریخ اِس مظلومیت پر خاموش نہیں رہی، یہاں کہ غیر مسلم مفکّرین، ادباء، شعرا اور دانش وَروں نے بھی شہدائے کربلاؓ کی قربانی کو وہ مقام عطا کیا، جو کسی قوم، مذہب یا نسل کی حدود سے بلند ہے۔ نیلسن منڈیلا نے، جو خود استقامت اور جدوجہد کا ایک استعارہ ہیں، ایک موقعے پر کہا کہ جب وہ جیل کی تاریک راتوں میں شکست کی دہلیز پر تھے، تو واقعۂ کربلا یاد آیا اور حضرت امام حسینؓ کا انکار اُن کے عزم کو جِلا بخشتا رہا کہ اگر حضرت امام حسینؓ ظلم کے سامنے نہیں جُھکے، تو مَیں کیوں جُھکوں؟
منڈیلا کے یہ کلمات فقط خراجِ عقیدت نہ تھے، بلکہ ایک عالمی سیاسی پیغام تھا کہ حضرت حسینؓ کی فکر ہر حریّت پسند کا سہارا ہے۔ برطانیہ کے نام وَر ادیب، چارلس ڈکنز حیران ہو کر لکھتے ہیں کہ اگر حضرت امام حسینؓ دنیاوی مفاد چاہتے، تو عورتوں اور بچّوں کو ریگ زارِ کربلا میں نہ لاتے۔ اُن کا وہاں یوں آنا ہی اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ فقط رضائے الٰہی کے لیے آئے تھے۔
اِسی فکر کو ایک لبنانی عیسائی اسکالر، انطون بارا نے یوں بیان کیا کہ اگر ہمارے مذہب میں حضرت امام حسینؓ جیسی ہستی ہوتی، تو ہم اُن کے افکار کو اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے پرچم بناتے۔ یہ جملے حضرت حسینؓ کی عالم گیر حیثیت کے اعتراف نامے ہیں۔ برّصغیر میں مہاتما گاندھی نے امام حسینؓ کے کردار کو اپنی جدوجہد کا زادِ راہ بنایا۔
وہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے نہیں، حضرت امام حسینؓ کی قربانی سے پھیلا اور مَیں نے اُن سے مظلومیت کے لمحے میں جیتنے کا ہنر سیکھا۔ یہ وہ حسینؓ ہیں، جن کا پیغام رُوح کے دریچوں سے ہو کر ضمیر کی محرابوں میں گونجتا ہے۔
حضرت امام حسینؓ کی جدوجہد فقط مذہبی فریضہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک فکری، نظریاتی، اخلاقی اور رُوحانی انقلاب تھا۔ جو فقط تلوار کی نوک سے نہیں، بلکہ آنکھوں کی نمی، دل کی تپش اور ضمیر کی چبھن سے ظہور پاتا ہے۔ سانحۂ کربلا نے اُمّت کو بتایا کہ اگر تم میں غیرت باقی ہے، تو ظلم کے آگے خاموشی گناہ ہے۔ حضرت امام حسینؓ کا ہر خطبہ، ہر حرف ایک احتجاج ہے اور ہر قطرۂ خون آنے والی نسلوں کی تربیت کا سامان۔
واقعۂ کربلا نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ دین کو رسومات میں قید نہ کرو، نہ ہی اسے وعظ کی دُکانوں میں فروخت کرو۔ حضرت حسینؓ زبان سے نہیں، کردار سے بولے۔ اُن کا انکار فقط یزید کی ذات کا انکار نہیں تھا، بلکہ ہر اُس واعظ، مصلحت کوش عالِم کا انکار تھا، جو سچّائی کو اقتدار کی دہلیز پر گروی رکھ دیتا ہے۔ جب حضرت امام حسینؓ کے کم سِن فرزند، حضرت علی اصغرؓ کو تیر لگتا ہے، تو فقط ایک ماں کا جگر چَھلنی نہیں ہوتا، بلکہ انسانیت کا کلیجہ چاک ہوتا ہے۔
جب حضرت قاسمؓ گھوڑے سے زمین پر گرتے ہیں، تو صرف ایک نوجوان شہید نہیں ہوتا، بلکہ جوانی کی امنگ، عزم اور عشق فنا ہو کر بقا کا پیغام دیتا ہے۔جب حبیب ابنِ مظاہر، زہیر بن قین، مسلم بن عوسجہ جیسے سرفروش جان دیتے ہیں، تو وہ بتاتے ہیں کہ ایمان فقط زبان سے اقرار نہیں، بلکہ سَر دینے کا نام ہے۔
کربلا میں کوئی فاتح نہیں تھا، مگر ہر شہید جیت گیا۔ اور یہی کربلا کی معجزاتی حقیقت ہے کہ جہاں شکست بھی فتح بن جاتی ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے دنیا کو بتایا کہ وہ جو مَر کر بھی زندہ رہے، وہی اصل فاتح ہیں اور وہ جو تخت پر بیٹھ کر بھی تاریخ سے مِٹ گئے، وہی اصل شکست خوردہ ہیں۔
کربلا کے کردار ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ اپنے اندر کی یزیدیت کو پہچانیں، کیوں کہ آج بھی یزید زندہ ہے، کبھی منافقت کی صُورت میں، کبھی فرقہ واریت کے نقاب میں، تو کبھی مذہب فروش واعظ کی زبان میں۔ مگر حسینؓ بھی زندہ ہیں، ہر اُس زبان میں جو سچ بولتی ہے، ہر اُس دل میں جو عدل کا طالب ہے، ہر اُس فکر میں جو ضمیر کو جگاتی ہے۔
کربلا کی خاک آج بھی تَپ رہی ہے اور اس تپش میں وہ حرارت ہے، جو غلامی کی زنجیریں پگھلا سکتی ہے۔ آج بھی جب کوئی مفکّر، شاعر یا دانش وَر سانحۂ کربلا کو یاد کرتا ہے، تو وہ فقط ایک تاریخی واقعے کو نہیں، بلکہ اپنی رُوح کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واقعۂ کربلا پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں اور سیکڑوں اشعار کہے گئے۔ بلاشبہ، واقعۂ کربلا وقت کی قید سے آزاد ہے۔ یہ شعور کی بے داری کا استعارہ اور حریّت کی علامت ہے۔