• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیومن ریسورس مینجمنٹ: افرادی قوت اور وسائل کی تنظیم سازی

کارخانوں، دفاتر یا ایسی کسی بھی جگہ ملازمت کرنے والے افراد کے کام کے دوران رویّوں اور اُن سے بہتر کام لینے کے طریقوں سے متعلق سائنسی بنیادوں دی جانے والی تعلیم کو انگریزی زبان میں  (Human Resource Management) کہا جاتا ہے۔ اردو زبان میں اس کے لیے کوئی متبادل اصطلاح رائج نہیں۔ تاہم، اس کا ترجمہ اگر ’’افرادی قوت کی تنظیم سازی یا افرادی وسائل کی تنظیم‘‘ کے طور پر کیا جائے، تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔

’’ہیومن ریسورس مینجمنٹ‘‘ ایک اہم ہُنر ہے، جس میں کسی تنظیم کی افرادی قوت مؤثر طریقے سے منظم کرکے مختلف اصولوں اور طریقوں کا احاطہ کیا جاتا ہے، اس کا مقصد ملازمین کی بھرتی، انتخاب، تربیت، ترقی کے ساتھ ساتھ لیبر قوانین کی تعمیل کو یقینی بنانا اور کام کے مثبت ماحول کو فروغ دینا ہے۔

جدید افرادی قوت میں ہیومن ریسورس مینجمنٹ، تنظیمی کام یابی اور ملازمین کے اطمینان کو مہمیز دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شعبے کو تمام پیشوں اور صنعتوں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ چاہے چھوٹے کاروبار ہوں یا بڑی کارپوریشنز، ہیومن ریسورس سے وابستہ پیشہ وَر افراد، پیداواری اور کام کے جامع ماحول کو فروغ دینے، تنازعات حل کرنے، ملازمین کے فوائد و معاوضے کا انتظام کرنے اور مزدوری کے ضوابط کی تعمیل کے علاوہ لیبر قوانین پرعمل درآمد بھی یقینی بناتے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کے اہم تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا یہ عِلم کچھ زیادہ پرانا نہیں، اس کی ابتدا کی نشانیاں پچھلی صدی کی آخری چوتھائی سے ملنا شروع ہوتی ہیں، البتہ اس کے تیزی سے فروغ کی ایک وجہ صنعت وحرفت کی ترقی اور اس سے منسلک ہُنرمند اور محنتی افراد کی اہمیت میں اضافہ ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ علم افرادی قوت کے کم از کم پانچ اہم پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیتا ہے۔ 

جن میں کسی بھی کام کے لیے باصلاحیت افراد کی بھرتی کا طریقہ اور اُنھیں بلاوجہ ملازمت چھوڑنے سے روکنا، کام کی نوعیت سے آگاہی اور صلاحیت میں اضافے کی تربیت، ملازمین کی جائز ضروریات بشمول مالی ضروریات کا تحفّظ، کام کے دوران اُن کی جان، مال اور عزّت کی حفاظت اورجامع و موثر منصوبہ بندی شامل ہیں۔ 

مذکورہ عِلم پر تحقیق کرنے والے تمام ماہرین نے کم وبیش ان ہی پہلوؤں کا جائزہ لے کر طویل نظریات پیش کیے، جو دنیا بھر میں پڑھے اور پڑھائے جارہے ہیں۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ تقریباً ڈیڑھ سوسال پہلے تک، سائنس اور دیگر دنیاوی علوم خاطر خواہ ترقی کرچکے تھے، لیکن اس کے باوجود افرادی قوت کے متعلق دنیا ان نظریات سے قطعاً ناآشنا تھی۔

جب کہ ان تحقیقات میں اخذ کیے جانے والے اصول، قرآن مجید آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل تفصیل سے بیان کرچکا ہے، لیکن بدقسمتی سے اُنھیں سمجھا گیا، نہ ہی مناسب طریقے سے آگے بیان کیا گیا۔ تاہم اس علم کی ترویج کے بعد افرادی قوت کی تنظیم سازی کے ضمن میں اسلامی اصولوں پر خاطرخواہ کام کیا گیا۔ کچھ ممالک میں اس پر تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے۔سو، یہاں اسلامی احکامات کی روشنی میں افرادی قوت کی تنظیم کا ایک مختصر جائزہ قطعی بے محل نہ ہوگا۔

افراد کی بھرتی: کسی بھی صنعت کی لیے درکارافرادی قوت سے انکار ممکن نہیں، کمروں میں بیٹھ کر کمپیوٹر پر کام کرنے سے لے کر کسی دستی یا خودکار مشین سے کام لینے تک کے عمل کے ہر مرحلے میں انسانی قوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ کہا جاتا ہے کسی جگہ کام کرنے والے افراد کی اہلیت، اُن سے وابستہ کاروبار کے نتائج پر اثرانداز ہوتی ہے۔ بہتر نتائج کا حصول اُسی صورت ممکن ہے کہ قبل از ملازمت، افراد کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی جائے۔

اس عمل کو سمجھنے کے لیے ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے طلبہ کو بہترین افراد چُننے اور اُنھیں دیر تک خود سے منسلک رکھنے کے لیے مختلف نظریات بتائے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں اسلامی نظریات نہایت سادہ، جامع اور قابلِ عمل ہیں۔ قرانِ مجید کی مختلف آیات بالخصوص سورۃ القصاص، سورئہ یوسف، احادیث اور سیرت کے مطالعے سے ملازمین کے بھرتی کے اسلامی اصولوں کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں۔

٭ ملازمت کے لیے کام کی مناسبت سے صحت مند شخص منتخب کیا جائے۔٭ملازم کو اپنے کام کا مکمل علم ہو۔٭اسلامی شعار کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہو۔یعنی معاشرے میں صاحب ِعزت ہو۔٭اصولوں کے خلاف اور اپنی اہلیت سے بڑھ کر مقام کا طالب نہ ہو۔٭ملازم بھرتی کرتے وقت اقربا پروری اور سفارش سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ 

واضح رہے، اسلام میں ملازمین کے حقوق کا نہ صرف تفصیل سے ذکر ہے، بلکہ ان پر سختی سے عمل کی تاکید بھی کی گئی ہے اوراگر ان پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے، تو ملازمین کے بلاوجہ نوکری چھوڑنے کی شرح میں خاطر خواہ کمی کے ساتھ آجر کے بھرتی کے اخراجات اور اس سے منسلک مسائل سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔

افرادی قوت میں بہتری اور اضافے کے لیے انسان کے سیکھنے کے عمل کو ایک مسلسل اور ضروری عمل قرار دیا گیا ہے۔ دیگر پہلوؤں کی طرح ملازمین کے علم و ہُنر میں اضافے کے لیے متعدد طریقے اور اُن کی افادیت، مذکورہ عِلم کے اہم اجزاء ہیں۔ نبی کریمﷺکو جس دین سے نوازا گیا، اس کی ابتدا ہی تعلیم سے ہوئی۔ تعلیم کا یہ سلسلہ نزولِ قران کی صُورت بیس سال تک جاری رہا۔ 

اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’کیا عِلم رکھنے والے اور عِلم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں، جو عقل والے ہیں۔‘‘ سورۃ العنکبوت میں ارشاد ہے۔ ’’تم زمیں میں چلو، پھرو اور پھر دیکھو کہ اُس نے مخلوق کی ابتدا کیسے فرمائی۔‘‘ ان آیات کے ذریعے انسان کو ہر وقت غور وخوض اور خاص علمی اور سائنسی گتھیاں سلجھانے کی دعوت دی گئی ہے۔

ملازمین کی مالی و دیگر ضروریات کی تکمیل: جدید علم میں ملازمین سے بہتر کام لینے کے لیے اُن کی مالی ضروریات پوری کرنے کی طرف خاص توجّہ دی گئی ہے، کیوں کہ مالی پریشانیوں سے بے فکر ملازم اپنے مالک کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہوتا ہے۔ جب کہ دینِ اسلام میں اپنے ملازمین کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور تن خواہ کے علاوہ بھی اُن کی مالی امداد کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے اجرت کے تعین کے کچھ اس اصول وضع کیے ہیں۔٭ اجرت، مزدور کا حق ہے، آجر کی طرف سے احسان نہیں، اس لیے اسے فوراً ادا کیا جائے۔٭کم ازکم اجرت اتنی ہونی چاہیے، جو ملازم کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے کافی ہو۔٭اسلام، آجروں کو اپنے ملازمین کی رہائش، طبی سہولتیں، بچّوں کی تعلیم و تربیت سے غافل نہ رہنے کا پابند بناتا ہے۔ ٭اجرت کی یک مشت اور فوری ادائی۔ ٭اجرت کا تعیّن، رنگ و نسل کی بنیاد پر ہرگز نہ کیا جائے۔

دورانِ ملازمت جان و مال اور عزت کی حفاظت: موجودہ علمِ افرادی قوت، ملازمین کو کام کایک ساں ماحول مہیّا کرنے پر زور دیتا ہے، جو اُن کے لیے ہر طرح محفوظ ہو اور دورانِ کام اُن کی عِزّتِ نفس محفوظ رہے۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی دین، فلسفہ، نظریہ یا نظام ایسا نہیں، جس نے ملازمین کی عزّتِ نفس کی تحریم کی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بنیادی حقوق کے حوالے سے تمام انسان برابر ہیں۔

حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’تمہارے خادم، تمہارے بھائی ہیں۔ اُنھیں اپنے کھانے سے کھلاؤ اور اپنے کپڑوں سے پہناؤ، اگر انھیں کوئی ایسا کام سپرد کرنا پڑے، جو اُن کی طاقت سے باہر ہو، تو پھر اس میں اُن کی ہر ممکن مدد کرو۔‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ’’حضور ﷺنے فرمایا، جب کسی کا خادم کھانا تیار کرکے لائے، تو مالک کو چاہیے کہ خادم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے ساتھ کھانے پر بٹھالے، اگر کھانا کم ہو تو بھی اُس میں سے ایک دو لقمے اُسے کھلادے۔‘‘

 بلاشبہ، یہ حدیث آج کے آجر کو ملازم کے ساتھ حُسنِ سلوک کا واضح درس دیتی ہے۔ جدید علمی نظریہ اور اسلام ملازموں سے حُسنِ سلوک اور اُن کی عِزّتِ نفس کی حفاظت کی اہمیت پر یک زبان تو ہیں، مگر اُن میں ایک بنیادی فرق ہے۔ جدید نظریے کے مطابق، ملازموں سے حُسنِ سلوک کی وجہ اُن کے کام سے بہترین نتائج کا حصول ہے، جب کہ اسلام کا واحد مقصد اللہ کی خوش نودی کا حصول ہے۔

منصوبہ بندی: کاروبارمیں کام یابی کے حصول کے لیے مناسب اور پیش وقت منصوبہ بندی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺکی سیرتِ مبارکہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ہر کام فہم وفراست اور منصوبہ بندی سے بھرپور ہوتا تھا۔ آپﷺ کی تبلیغ کے ادوار اور طریقۂ کار بھی جامع منصوبہ بندی پرمبنی تھے۔ آپﷺ کی جنگی حکمتِ عملی، غیر مسلموں سے امن معاہدے نہ صرف دُور اندیشی کی عکّاسی کرتے ہیں، بلکہ ہر کام کو کسی خاص حکمتِ عملی کے تحت کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔

آپﷺ کی منصوبہ بندی کا ایک اہم جزو حالات و واقعات سے آگاہی اور مخالفین کی چال بازیوں سے آگاہ رہنا تھا۔ یہی آج کل کی ضرورت ہے کہ منصوبہ بندی کرتے وقت ملک کے معاشی و سیاسی حالات اور اپنے مقابل کمپنیز کے حالات مدِّنظر رکھے جائیں۔ ایک اچھا کمپنی منیجر مشکل حالات میں کسی بھی تجربہ کار ساتھی سے باہمی مشورے کے بعد مسئلے کا حل نکال سکتا ہے۔

مزید برآں، ملازمت سے متعلق کوئی بھی اصول یاقاعدہ بنانے سے پہلے یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اللہ تعالی کو نرمی، مساوات، صلۂ رحمی، فراخ دلی اور درگزر جیسی عادات بہت پسند ہیں۔ یاد رہے، لین دین یا کاروبار کے معاملات انسانوں سے وابستہ ہے، جن کا جواب روزِ قیامت ہر ایک کو دینا پڑے گا۔