تاریخ بڑے کام کی چیز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آپ نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہو گا کہ ایک دفعہ ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تھا اور مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں قتل کرنے کے بعد اُن کی کھوپڑیوں کے مینار بنا دیئے تھے۔ یہ مینار اُن کھوپڑیوں کے بنے تھے جن میں انتشار اور بے یقینی کا بسیرا تھا۔ جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو وہاں کے مسلمان انتہائی غیر ضروری قسم کے بحث مباحثوں میں اُلجھے ہوئے تھے۔ وہ بیرونی دشمن کے مقابلے کے لئے متحد ہونے کی بجائے ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں مصروف تھے اور پھر جب دشمن نے حملہ کیا تو اُس نے یہ نہیں دیکھا کہ کون کافر ہے یا نہیں اُس نے سب مسلمانوں کے سر اُڑانے شروع کر دیئے۔ جس قسم کی غیر ضروری بحثوں نے بغداد کے مسلمانوں کو تباہ کر دیا بد قسمتی سے آج ہم بھی اُسی قسم کی بحثوں میں اُلجھ گئے ہیں۔ ہم بغیر سوچے سمجھے انتہائی سنگدلی کے ساتھ اپنے دین کو اور اپنی اسلامی تاریخ کے کچھ مخصوص واقعات کو مخصوص سیاسی و ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے۔ کفر کے فتوے اور غداری کے الزامات بچوں کا کھیل بن چکے ہیں۔ ایک طرف ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والے خوارج قرار دیئے جا رہے ہیں دوسری طرف ریاست کے آئین کو پامال کر کے غداری کے مرتکب ہونے والوں کے سامنے عدالتیں بے بس ہیں۔ ایک طبقے کے لئے آئین کی پابندی حب الوطنی کا تقاضا ہے دوسرا طبقہ حب الوطنی کے نام پر آئین توڑنا جائز سمجھتا ہے۔ ایک طبقہ ریاست کے باغیوں کو دہشت گرد اور دوسرا طبقہ ان باغیوں کو مجاہد کہتا ہے۔ ایک طبقہ باغیوں کی موت پر خوش ہوتا ہے دوسرا طبقہ باغیوں کو ’’شہید‘‘ قرار دے رہا ہے۔ کوئی ریاست کے باغیوں کے ساتھ جنگ میں جانیں قربان کرنے والے سپاہیوں کی موت کو شہادت کہتا ہے اور کوئی اُن کی شہادتوں پر سوال کھڑے کر رہا ہے۔ ہر کسی کو اپنی جماعت اور اپنے ادارے کا مفاد ہی قومی مفاد نظر آتا ہے۔ کہیں ایک مخصوص فرقے کا مفاد اصل اسلام ہے تو کہیں کسی کی ذات کا مفاد ہی پاکستان کا اصل مفاد بن کر سامنے آ رہا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے شائد انہی حالات کے بارے میں یہ کہا تھا.....
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
ابھی کل ہی میں نے اخبار میں ایک ممتاز عالم دین کا فتویٰ پڑھا جنہوں نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان کے لئے یہ بالکل جائز نہیں کہ افغانستان پر غیر ملکی قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے غیر مسلموں کی مدد کرے۔ اس فتوے میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی مسلمان اپنی ریاست کے خلاف ہتھیار نہ اُٹھائیں اور خانہ جنگی کی بجائے اپنی حکومت کے خلاف پُر امن احتجاج کریں۔ یہ فتویٰ پڑھنے کے بعد میں گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ کچھ عرصہ پہلے ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف کچھ عسکریت پسندوں کے ساتھ پشاور کے ایک نواحی علاقے میں میری بہت طویل بحث ہوئی تھی۔ میرا موقف تھا کہ وہ اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ مصروف جنگ ہیں اور اُن کی جنگ سے اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ پڑھے لکھے نوجوان تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان نے اپنے لیپ ٹاپ میں ڈائون لوڈ کی ہوئی کتاب کھول لی۔ یہ کتاب پڑھی تھی۔ اس کتاب میں امام ابو حنیفہؒ کے ایک فتوے کی روشنی میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لئے مسلح جہاد جائز ہے اور ملاکنڈ کے مسلمانوں نے نفاذ شریعت کے لئے جو جانیں قربانی کی ہیں وہ سچے شہید ہیں۔ اس کتاب کے حوالے کے بعد میں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اسلام آباد واپس آ کر میں نے اپنی لائبریری میں سے اس کتاب کو ڈھونڈا اور وہ حصہ نکالا جہاں پاکستان میں مسلح جہاد کو جائز کہا گیا تھا۔ یہ کتاب 1999ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت تحریک طالبان پاکستان کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا۔ افغانستان میں امریکی فوج بھی نہیں آئی تھی لیکن نفاذ شریعت کے لئے پاکستان میں مسلح جہاد کو جائز قرار دیا گیا حالانکہ نفاذ شریعت کا سیاسی راستہ پاکستان کے آئین میں موجود ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس عالم دین کی بھی بڑی قدر کرتا تھا لہٰذا میں نے اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ میں نے اسی عالم دین کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اُن کے ایک دوست سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا نفاذ شریعت کے لئے پاکستان میں مسلح جہاد جائز ہے؟ اس عالم دین نے نفی میں جواب دیا اور دلائل کے ساتھ وضاحت بھی کر دی۔ میں تو مطمئن ہو گیا لیکن ان نوجوانوں کے بارے میں پریشان ہو گیا جنہوں نے 1999ء میں شائع ہونے والی کتاب کا 2012ء میں مجھے حوالہ دیا تھا۔ قصور ان نوجوانوں کا تھا، ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور متضاد فتوے جاری کرنے والے علماء کا تھا یا ریاست کا؟ ایک ہی دین ایک ہی قرآن ایک ہی نبی ﷺ کو ماننے والے علماء ایک دوسرے سے مختلف فتوے دے کر کس کی خدمت کر رہے ہیں بقول اقبال ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں بار بار علامہ اقبالؔ کے اشعار کیوں لکھ رہا ہوں۔ پیارے قارئین! میں ایک کمزور سا انسان ہوں۔ جب بھی کسی ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتا ہوں اور اگر کوئی فکری مغالطہ گھیرے تو علامہ اقبالؔ کا کلام اور خطبات میری پہلی پناہ گاہ بنتے ہیں۔ اقبالؔ صرف شاعر نہیں بلکہ ایک فلسفی تھے۔ میرے لئے کئی دفعہ حکیم ثابت ہوئے۔ جب بھی کسی عالم کے فتوے سے کوئی پریشانی لاحق ہو جائے تو میں دو تین علماء سے بات کر لیتا ہوں پھر بھی پریشانی ختم نہ ہو تو اقبالؔ سے رجوع کر لیتا ہوں۔ وہ عالم دین تو نہیں تھے لیکن اُن کے پاس ایک دوا موجود ہے جو دل کو سکون دے دیتی ہے۔ یہ کیا دوا ہے؟
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
غلامی نہ تو اغیار کی جائز ہے اور نہ ہی ایسے مفتیان کرام کی جو خود کو نہیں بدلتے لیکن قرآن کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی غیر مسلم قرآن کو بدلنے کی کوشش کرے تو توہین قرآن کا مرتکب ٹھہرتا ہے لیکن ہمارے علماء یہ کام کریں تو پھر ہم کدھر جائیں؟ یہ مت بھولئے کہ اقبالؔ علماء کرام کے مخالف نہیں تھے اکثر علماء کو اپنے خطبات میں بڑے شوق سے اقبالؒ کے اشعار کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں۔ اقبالؔ بھی مسلمانوں کا اتحاد چاہتے تھے اور علماء کا دعویٰ بھی یہی ہوتا ہے۔ میری گزارش صرف اتنی ہے کہ آج ہمارے علماء پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ علماء کو قوم میں اتحاد قائم کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم چند ایک معاملات پر تمام مکاتب فکر کے علماء کو مشترکہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام سچائی کا درس دیتا ہے۔ علماء کو اپنے اپنے فرقے اور جماعتوں کے مفادات سے بالا ہو کر ایک چھت تلے اکٹھا ہونا چاہئے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ بھی علماء کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرے۔ تمام اہم مکاتب فکر کے علماء قوم کو بتائیں کہ اسلام میں خود کش حملے جائز ہیں یا نہیں؟ اسلام میں ایک فرقے کا دوسرے فرقے کو کافر قرار دینا جائز ہے یا نہیں؟ اسلام میں خواتین کے کیا حقوق ہیں؟ اسلام اقلیتوں کو کیا حقوق دیتا ہے؟ اگر اغیار ہمسایہ ملک میں مسلمانوں پر حملہ کر دیں تو اغیار کا ساتھ دیا جائے یا مسلمانوں کا؟ ان سوالات کے جواب دینا کوئی مشکل نہیں۔ حکومت کوشش نہیں کرتی تو علماء خود کوشش کر کے اکٹھے ہو جائیں اور کم از کم اتنا تو بتا دیں کہ نفاذ شریعت کے لئے پاکستان کے اندر مسلح جہاد جائز ہے یا نہیں؟ امید ہے ہمیں ایسی بحثوں سے نجات مل جائے گی جن بحثوں میں بغداد کو ہلاکو خان کے ہاتھوں تباہ کرایا۔ بقول اقبالؔ
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے