اسلام آباد: (انصار عباسی) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندر اختلافات مزید شدت اختیار کر گئے ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان اب پارٹی پر اپنا کنٹرول جمانے لگی ہیں، اور اس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا پر ان کا بڑھتا ہوا اثر ہے۔اس صورتحال نے پارٹی کے اندر بڑی تقسیم پیدا کر دی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف حکومت سے مذاکرات کا ایک اہم موقع ضائع ہوا ہے، بلکہ پارٹی اور جیل میں قید اس کے رہنما کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ذرائع کے مطابق علیمہ خان صرف سوشل میڈیا پر پارٹی کا بیانیہ طے نہیں کر رہیں بلکہ وہ اپنے بھائی یا دیگر بہنوں کے ذریعے اہم سیاسی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کو مسلسل یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ انہیں تنہا کر دیا گیا ہے، ان کا پارٹی پر کنٹرول کمزور ہو رہا ہے، اور کچھ لوگ پارٹی پر قبضے کی کوشش کر رہے ہیں۔پارٹی کے ایک سینئر لیکن غیر منتخب رہنما کو علیمہ خان کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں کی قیادت میں پارٹی کے اندر ایک ایسا گروپ فعال ہو چکا ہے جو پارٹی کے منتخب رہنمائوں (چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور) کو پارٹی کے آفیشل اور نان آفیشل سوشل میڈیا اکائونٹس پر شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ پارٹی کے سخت مؤقف سے ہٹ گئے ہیں اور انہیں ’’غدار‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، حالیہ دنوں میں حکومت سے بامعنی مذاکرات کی ایک نئی کوشش، جسے شاید بااثر حلقوں کی حمایت بھی حاصل تھی، علیمہ خان کے سخت رویے اور عمران خان کو دیے گئے پیغامات کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل نومبر میں بھی ایک مجوزہ ڈائیلاگ بشریٰ بی بی کی مداخلت کے باعث ناکام ہوا تھا، جب انہوں نے سنگجیانی میں جلسہ ملتوی کرنے سے انکار کر دیا اور ڈی چوک کی طرف مارچ پر اصرار کیا، جس کے نتیجے میں 26؍ نومبر کو اسلام آباد میں پرتشدد واقعات پیش آئے، اور ایک ایسے موقع پر پارٹی کی سیاسی پوزیشن کو نقصان پہنچا جب حکومت مذاکرات کیلئے راضی تھی۔ ایک اور تازہ ترین واقعہ یہ تھا کہ وزیراعلیٰ گنڈاپور کو بظاہر ’’بااثر حلقوں‘‘ سے مثبت اشارے ملے تھے کہ وہ وفاقی حکومت سے بات چیت کا آغاز کریں، تاہم جب علیمہ خان نے اس پیشرفت کی مخالفت کی اور کہا کہ عمران خان نے ایسی کسی بات چیت کی اجازت نہیں دی، تو یہ عمل رک گیا۔چند ہفتے قبل، بیرسٹر گوہر نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اور پارٹی کو بتایا کہ عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے قومی اسمبلی میں دی گئی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے، وہ بھی خصوصاً ایسے موقع پر جب پی ٹی آئی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ کے دوران حکومت اور افواج پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں، جب عمران خان کی جیل میں اپنی بہنوں سے ملاقات ہوئی، تو اُن کا موقف یکسر بدل گیا۔ انہوں نے پارٹی قائدین کو بتایا کہ کچھ ’’غلط فہمی‘‘ ہو گئی تھی اور یہ واضح کیا کہ حکومت سے کسی بھی قسم کی بات چیت نہیں ہوگی۔ البتہ، وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی کسی بھی سیاسی نوعیت کی بات چیت ہو سکتی ہے۔ پارٹی میں پائی جانے والی اندرونی کشمکش خیبرپختونخوا اسمبلی میں مالی سال 2025-26 کا بجٹ پیش کیے جانے کے وقت مزید بڑھ گئی، جب علیمہ خان اور ان کے قریبی ساتھیوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ بجٹ کی منظوری عمران خان کی اجازت کے بغیر نہ دی جائے۔ چونکہ وزیر اعلیٰ گنڈاپور کو اپنے قائد سے ملاقات کی اجازت نہ مل سکی، لہٰذا وہ آئینی و قانونی تقاضوں کے تحت بجٹ کا عمل مکمل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ نتیجتاً پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انہیں ایک بار پھر ’’غدار‘‘ قرار دیا گیا اور ’’مائنس عمران فارمولے‘‘ پر کام کرنے کا الزام لگا، جسے گنڈاپور نے سختی سے مسترد کیا۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر منتخب شخصیات کی بڑھتی مداخلت اور فیصلوں کو صرف عمران خان کے خاندانی دائرے میں محدود کرنے سے پارٹی کی ساخت کمزور اور سیاسی مواقع ضایع ہو رہے ہیں۔ منگل کو عمران خان کی 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کی درخواست مسترد ہونے اور سپریم کورٹ کی 4؍ ماہ میں مقدمات نمٹانے کی ہدایت، ان کی مستقبل قریب میں رہائی مزید مشکل بنا سکتی ہے۔ اگرچہ موقف جاننے کے حوالے سے علیمہ خان سے بات نہ ہو سکی، لیکن ان کے ایک قریبی پارٹی رہنما نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پارٹی کو علیمہ خان کنٹرول کر رہی ہیں یا سوشل میڈیا کو اپنی مرضی سے چلا رہی ہیں۔ علیمہ خان پہلے ہی کئی بار یہ کہہ چکی ہیں کہ ان کی سیاست میں آنے کی کوئی خواہش نہیں۔ انہوں نے علیمہ خان کے حوالے سے ایک بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’لوگ خواہ مخواہ گھبرا رہے ہیں کہ ہم سیاست میں آ رہے ہیں، حالانکہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔’’ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں سیاسی سرگرمیوں کیلئے وقت نہیں ملتا۔ اپنے بھائی کیلئے حمایت کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’وہ ہمارے بھائی اور ہمارے رہنما ہیں، آپ جو مرضی آئے کر لیں، ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘