• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالیہ زاہد بھٹی

فلپس کے سو واٹ کے پیلے مدقوق سے بلب کی روشنی تھوڑی زیادہ ہو سکتی تھی، اگر اس پر مٹّی کی دبیز تہہ نہ جَمی ہوتی، اوپر سے گھرر گھرر چلتا پنکھا، فضا کو اور زیادہ دل آزار کر دیتا، مگر یہ سب کچھ صرف باہر سے آنے والوں ہی کو محسوس ہوتا تھا کہ گھر میں رہنے والے تو اس کے عادی تھے۔ صابرہ اسی پیلے سے بلب کی روشنی میں رات بھر سلائی مشین میں دھاگا ڈال ڈال کر کپڑے سیتی، تو سائرہ، شاکرہ اور صابر بھی اسی کمرے میں اپنے اپنے کاموں میں مگن رہتے۔

صابرہ،کپڑے سیتی، سائرہ ان کپڑوں کے کاج بناتی، ترپائی کرتی اور شاکرہ کڑھائی کے ساتھ دوپٹّوں پر کروشیا کا کام کرتی۔ اب رہا صابر، تو وہ اپنی دیہاڑی لگا کر شام ڈھلے گھر آتا، تو اُسی کمرے میں لگے بلب کی روشنی میں دوسری مشین پر صابرہ کے ساتھ کپڑوں کی سلائی کا کام کرتا۔جب کہ امّاں سارا دن گھر کی صفائی، برتن، کپڑے اور کھانے کے نام پر پیاز، ٹماٹر کا سالن اور روٹی بنانے کی ذمّے داری نبھاتیں۔ اُن کا کچھ وقت اِن کاموں میں گزر جاتا، باقی وقت وہ اس ایک اکلوتے کمرے کے باہر بچھے تخت پر لیٹے، بیٹھے گزار دیتیں۔تخت کے ساتھ ہی مٹی سے لپا چولھا تھا، جب کہ دو دیواروں کے ساتھ بیچ میں تیسری دیوار کھڑی کر کے غسل خانہ اور لیٹرین بنایا گیا تھا، جس کے آگے دو پردوں کا ’’دروازہ‘‘ تھا۔

ابّا پھل فروش تھے، تو شام ڈھلے بچ جانے والے گلے سڑے پھل گھر لے آتے۔ کبھی جلدی آجاتےاور تخت پر اماں کو نہ پاتے، تو پڑوس کی طرف منہ کر کے آواز لگادیتے’’اے صابرہ کی امّاں! سُنتی ہے، گھر آجائیو، مَیں آگیا ہوں۔‘‘امّاں آواز سُنتے ہی لشتم پشتم گھر آجاتیں اور آتے ہی کھانا نکال کر ابّا کے سامنے تخت پر رکھ دیتیں۔ ساتھ ہی گھڑونچی میں سے پانی کا کٹورا بھر کر بھی رکھ دیتیں، پھر جب تک ابّا کھانے سے فارغ ہوتے، امّاں وہیں بیٹھی ابّا سے دن بھر کی کہانیاں سُنتی رہتیں۔ 

ابّا کھانے سے فارغ ہو کرساری کمائی امّاں کے ہاتھوں میں تھماتے تو جیسے ہفت اقلیم کی دولت اماں کے ہاتھ لگ جاتی، پھر اس رقم کا بڑا حصّہ تخت کے نیچے رکھے لوہے کے صندوق میں ڈال دیتیں اور بچے ہوئے چند مُڑے تڑے نوٹ لے کر اگلے روز کے کھانے کا ’’مینیو‘‘ ترتیب دیتیں، جو بہت آسان ہوتا۔ یعنی، ایک پاؤ پیاز، آدھا پاؤ ٹماٹر، کبھی زیادہ پیسے مل گئے، تو دال یا سبزی، ورنہ پیاز، ٹماٹر تو روز کی ڈِش تھی ہی، جب کہ اچار، نمک، مرچ اور کُھلا تیل گھر میں موجود رہتا۔ بچّے جو کچھ کماتے، وہ سب پیسے بھی لوہے کے صندوق میں جمع ہوجاتے۔

’’صابرہ کے ابّا! اللہ کا کتنا کرم ہے ہم پر کہ وہ ہمارے صندوق کو بھرتا ہی جا رہا ہے، یاد ہے، جب بچّے چھوٹے تھے ،تو کتنے مشکل دن گزارے ہم نے…؟‘‘امّاں نے یاد کروایا، تو ابّا بھی ماضی میں چلے گئے کہ جب ان دونوں کی شادی ہوئی تھی، تو اسی ایک کمرے کا ایک کونا چہار اطراف پردے تان کر اُن کا حجلۂ عروسی بنا تھا اور ان پردوں سے باہر کے حصّے میں ان کے والدین اور چار بہنیں رہتی تھیں، تب کمرے سے باہر کی چار دیواری میں چھت نہیں تھی کہ تخت رکھ کر دن رات گزاری جاتی، بس کمرے کے باہر صرف تین دیواریں تھیں، جو چولھا،بالٹی اور لوٹے کی تقسیم کے لحاظ سے استعمال کی جاتیں۔ بالٹی اور لوٹے کی دو دیواریں ٹاٹ کی بوری کے پردے سے بنی تھیں اور چولھا بغیر پردے والے حصّے میں تھا۔

امّاں کے اس گھر میں قدم رکھتے ہی جیسے خوش حالی نے یہاں قدم جما لیے کہ ان کا سلائی، کڑھائی کا ہنر ذریعہ معاش بنا، پھر امّاں نے یہ ہنر اپنی چاروں نندوں میں بھی منتقل کردیا تاکہ آمدنی میں اضافہ ہوسکے۔ ہر بار پیسے لوہے کے صندوق ہی میں جمع کیے جاتے، جو بعد میں کسی بڑے کام کے لیے استعمال ہوتے۔ پہلی مرتبہ برآمدے کی چھت ڈلوائی گئی، پھر ایک، ایک کر کے چاروں نندوں کی شادیوں میں کام آئے ۔ اسی میں جمع شُدہ رقم سے گھر کی مرمّت بھی ہوئی اور چاروں نندوں کی شادیاں بھی۔

گھر اور گھر والوں کے دن تو بدلتے رہے، مگر صابرہ کی امّاں اور ابّا کے دن کبھی نہیں بدلے کہ کمرے کے ایک کونے کے پردے والے حصّے سے اب وہ برآمدے میں بچھے تخت پر زندگی گزارنے لگے تھے۔

’’صابرہ کی امّاں! یہ صندوق بھرتا ہے، پھر خالی ہوجاتا ہے، لیکن میرے، تیرے دن توکبھی نہ بدلتے، ہماری زندگی تو کمرے کے کونے سے شروع ہوئی تھی اور برآمدے کے تخت پر ختم ہو رہی ہے، بھلا ہمیں اس صندوق کا کیا فائدہ…‘‘ صابرہ کے ابّا نے کہا۔ ’’تو یہ بھی کیا کم ہے کہ ہم بنا کسی کا احسان لیے اپنا گھر چلا رہے ہیں۔‘‘ امّاں نے مطمئن لہجے میں کہا۔ ’’اچھا اچھا، بس ٹھیک ہے، اب کی بار جب پیسے جمع ہوں گے، تو ہم اس برآمدے میں اپنے لیے ایک کمرا بنائیں گے، ٹھیک ہے ناں؟‘‘ ابّا نے کہا۔ ’’ارے ہٹو بھی، کمرا تو ہم تب ڈالیں گے، جب صابر کی شادی کریں گے اور وہ ابھی چھوٹا ہے، ابھی تو صابرہ کی شادی کرنی ہے، پھر سائرہ اور شاکرہ کی…‘‘ صابرہ کی امّاں نے فیصلہ کُن لہجےمیں کہا۔

دن گزرتے گئے اور ایک ایک کرکے صابرہ،شاکرہ اور سائرہ کی بھی رخصتی ہو گئی۔ سب بہت خوش تھے، صابرہ کے ابّا کی خوشی کا تو ٹھکانا ہی نہ تھا، امّاں بھی بہت مطمئن تھیں کہ چلو بیٹیاں اپنے گھروں کی ہوگئیں، اب وہ گھر کی مرمّت کروائیں گے اور کمرا بھی بنوائیں گے۔لیکن کبھی کبھی بہت زیادہ خوشی بھی دل بند کر دیتی ہے، خاص طور پر وہ دل جن کو کبھی خوشیاں میسّر ہی نہیں آئیں۔ ایسا ہی کچھ صابرہ کی امّاں کے ساتھ بھی ہواکہ وہ جو اپنے لیے ایک کمرا بنوانے کے خیال ہی سےبےحد خوش تھیں، اچانک ہی اُن کا دل بند ہو گیا اور اسپتال لے جانے سے قبل ہی دارِ فانی سے کُوچ کر گئیں۔

کفن میں لپٹی امّاں کے چہرے پر بے انتہا اطمینان و سکون تھا، مگرصابرہ کے ابّا نے اُس چہرے کو آخری بار دیکھ کر زیرِ لب شکوہ کیا، ’’صابرہ کی امّاں!اب کی بار ہم نے اپنا کمرا بنوانا تھا ناں، مگر تم بے ایمانی کر گئیں۔ اب اکیلے ہی دو گز کے کمرے میں رہو گی…!!‘‘اور یہ کہتے ہوئے اُن کے دو آنسو ڈھلک کر امّاں کے کفن میں جذب ہو گئے۔