• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ اسی نعرے کی گونج کے ساتھ ہمارے بزرگوں نے قیامِ پاکستان کا خواب دیکھا اور اسی نظریے کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم نے اَن گنت قربانیاں دے کے اپنی سرزمین کو اغیارکے شکنجے سے آزاد کروایا، غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کی نعمت حاصل کی ۔ قیامِ پاکستان کے لیے ہمارے پُرکھوں نے بیش بہا قربانیاں دیں، گھر کے گھر اُجڑ گئے ،ماؤں کے جگر گوشے، لاتعداد جوان جنگِ آزادی لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ ان شہدا کو اپنی سرزمین پر رہنا نصیب نہ ہوا، لیکن مُلک کی بنیادوں میں ان کا لہو شامل ہے۔

کبھی سوچا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے اپنے گھروں، زمینوں،جائیدادوں، آبائی وطن، جان و مال کی قربانیاں کس لیے دیں؟ صرف اس لیے کہ ہم لوگ، اُن کی آنے والی نسل، اُن کا مستقبل ایک آزاد مملکت میں زندگی گزار سکیں۔ ہمیں اپنی عبادت گاہوں میں جانے، رسوم و رواج کی پابندی کرنے سے کوئی نہ روکے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ جن نظریات کے تحت اس مُلک کی بنیاد رکھی گئی، اس قدر قربانیاں دی گئی تھیں، وہ تو کہیں نظر ہی نہیں آتے۔ اگر ہم آج ایک نظر خود پہ ڈالیں، تو پتا چلتا ہے کہ ہمارا تو کوئی ایک عمل بھی اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں۔

ہم نے اپنے اس نظریے، اپنے دین کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے، جن مذہبی رسوم و رواج کی آزادانہ ادَائی کی خاطر ہمارے بزرگوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا، ان پر تو ہم عمل ہی نہیں کرتے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم آزاد ہو کر بھی ذہنی غلامی میں مبتلا، اغیار کے رسوم و رواج، تہذیب و ثقافت اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسے طور طریقوں پر عمل پیرا ہیں، جن کا مستقبل سوائے تباہی و تاریکی کے اور کچھ نہیں۔ ہم نے ترقّی کے نام پہ مغربی اطوار اپنا لیے،اپنا مقصدِ حیات بھولے بیٹھے ہیں۔ ہمیں یہ تو یاد ہے کہ ہم آزاد مُلک کے باسی ہیں، لیکن آزاد کس لیے ہوئے تھے یہ فراموش کردیا۔ کچھ یاد ہے،تو بس دوسروں کی اندھی تقلید۔

وہ بھی کیا دَور تھا کہ جب ہم زندگی کے ہر شعبے میں انگریزوں سے آگے ہوا کرتے تھے، کتب، مطالعہ، تحقیق و تجربے ہماری پہچان ہوتے تھے۔ اس پہ مزید ستم یہ کہ کئی لوگ تو یہ تک کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ اس مُلک نے غربت، مفلسی اور قرضوں کے سوا ہمیں دیا ہی کیا ہے۔ گویا ہمیں اپنے حقوق تو یاد ہیں، لیکن اس مُلک و قوم کے لیے اپنے فرائض بھلا چُکے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مُلک میں ہمیں تمام سہولتیں ملیں، لیکن کچرا سڑک پر پھینکنا اپنا حق سمجھتے ہیں، یہاں ہمیں ہر برائی، ہر عیب نظر آتا ہے، لیکن اپنے عیوب، خامیاں اور کمیاں نظر نہیں آتیں۔ 

ہم اپنی غلطیوں کا قصوروار بھی اپنے وطنِ عزیز ہی کو ٹھہراتے ہیں، لیکن کبھی اپنا احتساب کرنے کی جرات نہیں کرتے کہ ہم نے اس مُلک کو کیا دیا۔ کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ اس ارضِ وطن کے لیے ہمارے جو فرائض ہیں، وہ ہم کس حد تک پورے کر سکے؟ اسی پاک سر زمیں سے ہماری شناخت اور پہچان ہے ۔ یاد رکھیں، ہمیں آپس کے اختلافات بُھلا کر اغیار کی سازشوں کو ناکام بنانا، اپنی سرزمین کی تعمیر و ترقّی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اب بھی وقت ہے، ہم پاکستان کی ترقی کے لیے ایک نئے عزم کے ساتھ مل کر کوششیں کر سکتے ہیں۔ فرقہ واریت ختم کرکے خود کو ایک متحد اور منظّم قوم بن کردنیا کو دکھانا ہےکہ’’ ہم ایک ہیں۔‘‘

یاد رکھیں، جب تک ہم اپنا احتساب نہیں کریں گے، متّحد نہیں ہوں گے، ہمارا مُلک ترقّی نہیں کرسکے گا۔ ہمیں اپنی صفوں میں چُھپی کالی بھیڑوں کا صفایا کرکے بیرونی سازشوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ نئی نسل کو بتانا ہوگا کہ دوسروں کی نقالی کرکے، اپنی مضبوط جڑوں کو کھوکھلا کر کے تنا ور درخت نہیں بنا جا سکتا۔ اگر ہم اپنے مُلک کی خامیاں ڈھونڈنےکے بجائے خود کو ٹھیک کر لیں اور یہیں رہ کر اس کی ترقّی کے لیے کام کریں، توبہت تھوڑے ہی وقت میں اس کے ثمرات بھی سامنے آنے شروع ہوجائیں گے اور ہم جلد یا بدیر اِن شاء اللہ تعالیٰ ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں بھی شامل ہوجائیں گے۔ خاص طور پر نوجوانوں سے کہنا ہے کہ خدارا! ہوش کے ناخن لو۔ 

ہمیں اپنے مُلک، اس کی ڈوبتی معیشت کو بچانا ہے اور بلاشُبہ، ہمارے نوجوانوں میں اتنی قابلیت ہے کہ اپنے مُلک کو ترقّی و کام یابی کی شاہ راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ پھر ہمیں ہر گز یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مسلمان اللہ کے سوا کسی کے آگے نہیں جھکتا۔ اللہ ہماراربّ، ہماراآقا، ہمارا مالک ہے اور اپنے ربّ کے ہر حکم پر سرِ تسلیمِ خم کرکے ہی کام یاب و کام ران ہو سکتے ہیں۔