• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت، آئینی مدت پوری کرکے شفاف انتخابات کروائے گی

بات چیت: محمد ارسلان فیاض

بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ کئی اعتبار سے منفرد اہمیت کا حامل بھی ہے، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ قدرتی گیس، کوئلہ، سونا، تانبا، اونکس اور دیگر دوسری معدنیات کی دولت سے مالامال اس صوبے کے عوام دوسرے تمام صوبوں کے مقابلے میں خاصے پس ماندہ ہیں۔ یہ صوبہ اس بنا پر بھی منفرد ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت یہ برطانوی راج کا باقاعدہ حصّہ نہیں تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کا حصّہ بنا، تو قبائلی، سیاسی، سماجی اقدار کا امین ٹھہرا۔ 

یہاں کے سیاست دانوں کا مزاج قدرے مختلف ہے۔ ماضی قریب میں یہاں سیاست محض چند گھرانوں کی میراث ہوا کرتی تھی، لیکن بدلتے وقت کے ساتھ روایتی سیاست دانوں کے ساتھ اب نئے سیاست دان بھی سامنے آرہے ہیں۔ قبائلی نظام بلوچستان کی سیاست کا مرکز و محور سمجھا جاتا ہے، قدیم رسم و رواج اس سرزمین کا خاصّہ ہیں اور یہاں سیاست بھی انہی رسم و رواج کو ملحوظ رکھ کر کی جاتی ہے۔ 

تاہم، کم آبادی، سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود بلوچستان، بدقسمتی سے ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہے۔ سینڈک، ریکوڈک پراجیکٹس جیسے گریٹر منصوبے بھی اس سرزمین کی تقدیر نہ بدل سکے۔ حتیٰ کہ ایٹمی دھماکوں کے سبب شہرت کے حامل ضلعے، چاغی سے سونے، چاندی اور تانبے سمیت دیگر قیمتی دھاتوں کے ذخائر توحاصل کیے جارہے ہیں، مگر یہاں کی ترقی و تعمیر پر کسی کی کوئی توجّہ نہیں۔

اس ضمن میں ہم نے گزشتہ دنوں ضلع چاغی سے منتخب رکن قومی اسمبلی، وفاقی وزیر ِمملکت برائے توانائی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما، میر حاجی محمد ہاشم نوتیزئی سے ان کی نجی زندگی کے ساتھ صوبے کی زبوں حالی، بے روزگاری، اسکولز، کالجز اور اسپتالوں کے ابتر حالات پر خصوصی گفتگو کی، جس کا احوال جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (تصاویر :رابرٹ جیمز)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (تصاویر :رابرٹ جیمز) 

س: سب سے پہلے تو اپنے خاندان، رہن سہن سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: مَیں 15 جنوری 1961ء کو پوستی کاریز، تحصیل دالبندین ڈسٹرکٹ چاغی میں پیدا ہوا۔ میرا تعلق ایک متوسّط گھرانے سے ہے، قناعت پسند سیدھا سادہ انسان ہوں، بناوٹی زندگی سے سخت نفرت ہے، جیسا ہوں، ویسا ہی نظر بھی آتا ہوں۔ میری فیملی میں میری اہلیہ کے علاوہ 4 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں، جب کہ ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ میرے والد، حاجی ملّا محمّد مراد ایک عالم دین تھے۔

س: سیاست میں کب اور کیسے آمد ہوئی؟

ج: تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد جب ملازمت نہیں ملی، تو کچھ عرصہ بے کار رہنے کے بعد2002ء کے بلدیاتی انتخابات میں حصّہ لیا، جس میں بھرپور کام یابی کے بعد سب سے پہلے یونین کونسل کا نائب ناظم منتخب ہوا، پھر تحصیل ناظم، بعدازاں 2005ء سے 2010ء تک ضلع ناظم رہا۔ جہاں تک سیاست میں آمد کی بات ہے، تو زمانۂ طالب علمی ہی میں میدانِ سیاست میں قدم رکھ چکا تھا۔ 

یونی ورسٹی دَور میں پہلے پہل بلوچوں کی سیاسی درس گاہ ’’بی ایس او‘‘ اور ’’بلوچ اتحاد‘‘ کا حصّہ رہا، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ مَیں نواب اکبر خان بگٹی کی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی کا بنیادی رکن ہوں۔ بعدازاں، بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پی بی 39 سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصّہ لیا، مگر کام یاب نہ ہوسکا، لیکن جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں سیاسی، سماجی اور قبائلی عوام کے تعاون سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔

س: بلوچستان کے سیاسی حالات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ج: ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے، تو آج صوبے کے حالات بہت حد تک بہتر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کے عوام کے منتخب نمائندے ہی سیاسی حالات کی بہتری اور خرابی کے ذمّے دار ہوتے ہیں، اگرچہ زیادہ تر منتخب نمائندے خلوصِ دل اور نیک نیّتی ہی سے عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں، ان کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان کا راستہ روکا جاتا ہے، راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، نتیجتاً وہ عوامی مسائل کے حل میں اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

س: سیاست کسے میں اپنا آئیڈیل مانتے ہیں؟

ج: مَیں نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطا اللہ مینگل اور محترمہ بےنظیر بھٹو کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہوں۔ نواب اکبر خان بگٹی شہید اورسردار عطا اللہ مینگل پوری زندگی جمہوری اقدار اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتے رہے، جب کہ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ایک سوچ، ایک نظریے کا نام تھا۔ وہ بہت بڑی اور اعلیٰ پائے کی رہنما تھیں، اُن جیسے لیڈرز صدیوں میں جنم لیتے ہیں۔

س: موجودہ حکومت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، کیا یہ اپنی مدّت پوری کرسکے گی؟

ج: جی بالکل، کیوں نہیں۔ اِن شاء اللہ یہ حکومت اپنی آئینی مدّت پوری کرکے پُرامن، شفاف انتخابات کروائے گی۔ موجودہ حکومت سے قبل تو یہ صُورتِ حال تھی کہ ہر روز لگتا تھا کہ اب حکومت گئی کہ تب گئی، لیکن الحمدللہ آج یہ صُورتِ حال نہیں۔ تو خاطر جمع رکھیے کہ موجودہ حکومت نہ صرف آئینی مدّت پوری کرے گی، بلکہ عوام کو خاطر خواہ ریلیف بھی فراہم کرے گی۔ ہم صرف وقت پورا کرنے کے لیے نہیں آئے، عوام کی خدمت اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنا ہماری اوّلین ترجیح ہے۔

س: اس وقت پورا ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے، تو بحیثیت وفاقی وزیرِ توانائی اس بحران کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں؟

ج: بلاشبہ، توانائی کا بحران ہمارے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں اس حوالے سے سنجیدگی سے عملی اقدامات اور مربوط پلاننگ کے بجائے سُست روی کا مظاہرہ کیا گیا، جس کا نتیجہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے، لیکن اب ہمیں ماضی کی طرف نہیں دیکھنا، بلکہ یہ سوچنا ہے کہ اس بحران کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔ 

اس کے لیے بڑے ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ سورج کی روشنی اور ہوا سے توانائی کے حصول کی طرف جانا ہوگا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ آج دنیا کے بیش تر ممالک سولر اور ونڈ انرجی حاصل کررہے ہیں۔

الحمدللہ، ہماری جغرافیائی حیثیت اس میں انتہائی سودمند ہے، ہمارے ملک میں میدانی علاقوں میں شدید دھوپ، جب کہ پہاڑی علاقوں میں تیز ہوائیں چلتی ہیں، جو بہترین بجلی پیدا کرسکتی ہیں۔ اس ضمن میں موجودہ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی گوادر اور مکران ڈویژن کو ایک سو میگا واٹ بجلی کی فراہمی کے لیے ایران سے معاہدہ کیا۔ 

واضح رہے کہ پنجگور، گوادر اور مکران ڈویژن کے لیے بھی ایران ہی سے بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ یاد رہے، مزید ایک سو میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل ہونے سے علاقے سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔

س: پنج گور، گوادراور مکران کے بعد پورے ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کب تک ممکن ہے؟

ج: بلاشبہ، اس وقت ملک میں توانائی کا شدید ترین بحران ہے، جس سے نمٹنے کے لیے مختصر اور طویل المدتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ فی الحال طلب اور رسد میں ہمیں 7 ہزار کے لگ بھگ شارٹ فال کا سامنا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ حکومت نے اس انتہائی اہمیت کے حامل شعبے کی طرف کوئی توجّہ نہیں دی، جس کی وجہ سے مُلک میں توانائی کی صُورتِ حال مزید گمبھیر ہوگئی۔ 

بہرحال، موجودہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ جو بجلی گھر بند تھے، انہیں فعال کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں، جس کی وجہ سے اب صورتِ حال کچھ بہتر ہے۔ تاہم، ہماری بھرپور کوشش ہے کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھا کر طلب اور رسد کے فرق کو کم کیا جائے اور پوری امید ہے کہ آئندہ سال گرمیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاصی حد تک کمی آجائے گی۔

س: بحیثیت وزیرِ مملکت برائے توانائی آپ کو کیا چیلنجز درپیش ہیں ؟

ج: سب سے بڑاچیلنج تو یہی ہے کہ عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلوائی جائے۔ اس حوالے سے ہم دن رات کوشاں ہیں۔ بجلی کی بندش سے نہ صرف صنعتی یونٹس متاثر ہورہے ہیں، بلکہ پروڈکشن میں بھی کمی آرہی ہے۔ بہرحال، ہماری پوری کوشش ہے کہ جلدازجلد ملک کو لوڈشیڈنگ فری کریں۔ اس ضمن میں چین اور دیگر ممالک سے بھی رابطے میں ہیں اور نئے پاور یونٹس کے لیے بڑےاقدامات کیے جارہے ہیں۔

س: سینڈک اور ریکوڈک منصوبوں کے حوالے سے کچھ بتائیے، کیا لوگ ان سے مستفید ہورہے ہیں؟

ج: مَیں آپ کے اخبار کے توسّط سے عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کسی بھی ترقیاتی منصوبے کے خلاف نہیں، ہم ہر اُس منصوبے کی حمایت اور دفاع کریں گے، جس کے تحت علاقے کے لوگوں کو روزگار میسّر آئے۔ اسکولز، کالجز، اور صحت کی سہولتیں بہتر ہوں، لیکن ہمیں یہ کسی صُورت قبول نہیں کہ سینڈک اور ریکوڈک جیسے بڑے منصوبوں کے ذریعے زمین چیرکر سونے، چاندی اور تانبے کے بیش قیمت ذخائر تو حاصل کرلیے جائیں، لیکن یہاں کے غریب، بے روزگارنوجوانوں کو ملازمتیں نہ ملیں۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ سینڈک پراجیکٹ کا تفتان تا کچائو روڈ تاحال خستہ حالی کا شکار ہے۔ علاقے کے لاتعداد مائنزاینڈ منرلز انجینئرز بے روزگار ہیں۔

یہاں تک کہ 65 ہزار مربع میل پر مشتمل میرا اپنا حلقہ بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہے۔ انفرااسٹرکچرکا فقدان اور بے روزگاری کے علاوہ اسکولز، کالجز اور اسپتالوں کی حالت زار ابتر ہے۔ تاہم، محدود وسائل کے باوجود موجودہ حکومت، خصوصاً وزیراعظم، محمد شہباز شریف بلوچستان کی ترقی کے لیے پُرعزم ہیں اور شبانہ روز تگ و دو کررہے ہیں۔ نیز، وزیراعظم نے بلوچستان کے کئی منصوبوں کو سی پیک میں شامل کروانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔

س: آپ کے خیال میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا معاشرے کی اصلاح میں کیا کردار ہے؟

ج: آج کا دَور میڈیا کا دَور ہے۔ اسی لیے میڈیا کو کسی بھی ملک، سلطنت، حکومت کا اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حکومتوں کے بننے اور بگڑنے میں بھی ایک بہت بڑا کردار میڈیا ہی کا ہوتا ہے۔ اسی میڈیا نے آج ہر فرد کو شعورو آگہی فراہم کی ہے، تاہم ضرورت اس امَر کی ہے کہ میڈیا سے وابستہ افراد اس کا درست اور مثبت استعمال کریں۔

س: مطالعہ کرتے ہیں،کس طرح کی کتب پڑھنے کا شوق ہے؟

ج: مطالعے کا وقت تو نہیں ملتا، لیکن مجھے تاریخی کتب پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ مستند مصنّفین کی تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں۔ نیز، مَیں زمانۂ طالب علمی سے روزنامہ جنگ کا قاری ہوں اور اب بھی جنگ اخبار پڑھنا میرا معمول ہے۔

س: شاعری، موسیقی سے کچھ شغف ہے؟

ج: موسیقی کا شوق نہیں۔ جب سفر میں ہوتا ہوں، تو گاڑی میں بھی قرآنِ کریم کی تلاوت سنتا ہوں۔ ہاں، شاعری سے کچھ شغف ہے اور بلوچی زبان کے شاعر، فیض محمّد بلوچ کی شاعری پسند کرتا ہوں۔