• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمنوائوں کے تجزیئے

اِکادُکا ایسی بیٹھکیں بھی سجائی جاتی ہیں کہ ہم خیالوں ، ہمنوائوں کو جمع کرکے ایسی قوالی کی جاتی ہے کہ دیکھنے سننے والوں پر کبھی وجد کبھی سکتہ طاری ہوجاتا ہے ۔ہر ایسی انجمن نے پہلے سے ایک قبلہ چن لیا ہوتا ہے پھر اس کے گرد ہی رقص خیال ہوتا ہےاور بالآخر گھنگھرو ٹوٹ جاتے ہیں، اپنی منوانی دوسرے کی نہ سننی اسی کو خود پرستی و خودغرضی کہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پھل کوئی کھاتا ہے اور اہل خرد سوکھے پتے گھر لے جاتے ہیں تاکہ کسی طور چولہا جلے، موج وہ کرتے ہیں جن کیلئے ہم ہجوم اکٹھا کرتے ہیں جس کے بندے زیادہ اسی کے گھر دانے بھی سیانے، ہمت اور خوشحالی کے بہانے بھی۔ 75سال ہو گئے قلفی کوئی کھاتا ہےاور عوام محض قلفی کا ’’کانا‘‘ چوس رہے ہیں، مہنگائی ہی اقتدار کی کنجی ہے، لوگوں کے تالے کھلے اور گھر خالی ہیں، سیاست فقط حرافت اور حکومتیں حرافہ ،اقبال نے جمہوریت کو سر گننے اور انہیں نہ تولنے کا کھیل قرار دیا تھا۔ انا اور ضد کی اس جنگ میں نہ کوئی فاتح نہ مفتوح، نظام جب موجو د ہی نہیں تو اصلاح کیسی، ایک وہ ہیں جنہیں کھانا کھانا آتا ہے اور ایک وہ جو غوروفکر سے آزاد اور کسی ایک بیانئے پر یکجا، اختلاف دراصل تنوع کو کہتے ہیں جبکہ ہم اسے جنگ وجدل سمجھ کر کسی من پسند کیلئے ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے، اور ذاتیات کے بخیے ادھیڑتے ہیں۔ کیا سڑکیں، چوراہے بھر دینے سے پیٹ بھر جائیں گے ، مہنگائی ختم ہو جائے گی ، قرآن کریم نے سیاست یوں سکھائی کہ ان کے معاملات و تنازعات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں۔ملک و ملت کی ترقی کیلئے بات چیت کے بجائے گریبان تار تار کرنا تو ستار کی ٹوٹی تار ہے جس سے نغمہ نہیں نکلتا، سمع خراشی کا سامان برآمد ہوتا ہے، نظام غلط ہے تو اسے ہم نے ہی درست کرنا ہے کہ بگاڑا بھی ہم نے ہی ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

کتب بینی، علم کا معتبر ذریعہ

کائنات نامہ یا قرآن کریم، ایک ایسی کتاب جو دعویٰ کرتی ہے کہ سب خشک و تر اس میں ہے، تقریباً دنیا کی ہر زبان میں اس ضابطہ حیات کا ترجمہ موجود ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو اپنی صبح کا آغاز اس تصنیفِ یزداں کے ایک رُکوع سے کرتے ہیں؟ اس کے بعد کتب بینی کی باری آتی ہے تو آج کتابیں پڑھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر اور کتابیں سجانے کا فیشن عام ہے، شاید ہم علم کو بھی دوسروں کو زیر کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، سچ کہا گیا کہ علم کو اپنے اندر اتارو تو یار اوراپنے ظاہر پر سجائو تو سانپ، اور سانپ اندر جاکر نہیں ڈستا۔ ہمارے جسم کے ظاہر میں اپنا زہر اتارتا مطالعہ، انسان میں سے تنگ ظرفی نکالتا اور وسیع الظرفی پیدا کرتا ہے، کسی نے اگربہت ساری کتابیں پڑھ رکھی ہیں تو وہ انہیں علمی ریاکاری کیلئے استعمال کرتا ہے جبکہ علم عجزونیاز پیدا کرتا ہے ، نخوت و ناز کا خاتمہ کرتا ہے اور اس باطنی حسن کا سنگھار کردار کے چہرے پر رعنائی و دلربائی لے آتا ہے ،کتب بینی کے فقدان کا سبب جدید سائنسی آلات اور غلط استعمال بھی ہے، انٹرنیٹ پر موجود اکثراطلاعات و معلومات ثقہ نہیں ہوتیں، مگر کسی موضوع پر لکھی گئی کتاب ایک قابلِ اعتبار دستاویز ہوتی ہے، سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے مطالعہ میں خیروشر کو الگ کرنے کی ضرورت رہتی ہے ۔مطالعہ میں ترتیب کا ہونا ضروری ہے کسی شعبۂ علم کی جانکاری حاصل کرنے کیلئے اس کی بنیاد اور تصور کو جاننا ضروری ہے تاکہ آپ نیم حکیم اور نیم ملا نہ بن جائیں۔علم کالا بھی ہوتا ہے سفید بھی مگر یہ ہماری خودساختہ تقسیم ہے جبکہ علم فقط بصیرت ہے، نور ہے اور یہ لامتناہی ہے، یہ ایک ایسی لذت ہے جو بڑھتی ہے اور اس کا اختتام نہیں ،علم کا پہلا اثر انسانی کردار پر پڑتا ہے ،صاحب علم کی اخلاقیات بلند تر ہوتی ہیں۔ لفظ اخلاقیات واحد نہیں جمع کا صیغہ ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

نہ ختم ہونے والی مہنگائی

اسٹیٹ بینک نے بتایا ہے کہ مہنگائی اگلے سال بھی رہے گی یہ فرمان ہم ہر سال سنتے ہیں کیونکہ ہر آنے والا سال اگلا سال ہوتا ہے۔ہمارا کیلنڈر ہی اچھوتا ہے اس میں مہنگائی کا وجود عذابِ مسلسل ہے اور اس میں ترقی ، پیہم، ہم تدبیر نہیں کرتے صرف اطلاع دیتے ہیں اور ہمارے معاشی و مالیاتی ادارے ہمیں ایک اذیت ناک صورتحال بارے میں ہمہ وقت باخبر رکھتے ہیں ،ایک نگاہ غلط انداز ہےجو پون صدی سے دل کو چیرتی ہوئی جگر تک اتر جاتی ہے اس اذیت میں چند طبقوں کو استثنا بھی حاصل ہے مگر کروڑوں عوام کو مہنگائی کے کانٹے چبھتے رہتے ہیں جن کو مہنگائی چھو کر نہیں گزرتی، انہوں نے جسم سن کرنے والے ٹیکے لگوا رکھے ہیں جن کو صاحبِ ایمان ہونے کا دعویٰ ہے اور ان کے اعمال نامے میں سینکڑوں عمرے درج ہیں ۔عدل و مساوات کی دولت ایمان سے محروم قوموں کے پاس ہے، دولت کی تقسیم درست ہونے کے باعث ان کا غریب ،امیر کو کسی کھاتے میں شمار نہیں کرتا وہاں یہ نہیں ہوتا کہ ؎

ابھی اس راہ سے کوئی وزیر گزرا ہے

کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی

باقی ترقی پذیر ممالک میں کیا ہوتا ہے ہم نہیں جانتے مگر اپنی دھرتی میں رائج دستور پر صنعت مقلوب میں کتاب لکھ سکتے ہیں۔دور دور تک خوشحالی یا خوشی کے آثار نظر تو آتے ہیں مگر شاید ہم نظر بندی سے دو چار کر دیئے گئے ہیں۔ دل کے خوش رکھنے کو اب یہی نگوڑی مہنگائی ہی بھلی اس کو سولہ سنگھار کرکے گرم رکھیں گے اور چند خاندانوں کیلئے گوشہ نرم رکھیں گے کاش اپنی تقدیر پرکھنے کی جرأت کرپائیں ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

انوکھا لاڈلا

٭حکومت نے کہا ہے عمران کو الیکشن چاہئے تو پارلیمنٹ میں واپس آئیں اور وہ کہتے ہیں پہلے تاریخ دیں پھر بات ہو گی؎

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

کیسی انوکھی بات ؟

جہاں اعتبار ہی نہ ہو وہاں کیا خاک بات ہو گی،

٭عمران خان:رجیم چینج سازش کے باعث امریکہ سے تعلقات نہیں توڑ سکتا مجھے قوم کا مفاد عزیز ہے۔

تعلقات اور رجیم چینج سازش کا الزام لگانے میں سے کوئی ایک چیز چن لیں اگر قوم کا مفاد اتنا ہی عزیز ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین