• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریکوڈک پاکستان کی معاشی بقاء کیلئے ایک نہایت اہم معاملہ ہے جس پر میں ماضی میں بھی کئی کالم لکھ چکا ہوں۔ میں نے اپنے کالم ’’پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ‘‘ میں حکومت، عدلیہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے درخواست کی تھی کہ ہمیں حساس نوعیت کے معاہدوں کی بین الاقوامی اہمیت اور انہیں یکطرفہ طور پرمنسوخ کرنے پر مالی جرمانے کا اندازہ نہیں۔ عالمی عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں عالمی ادارے پاکستان کے بیرونی اثاثوں، ہوٹلز، ایئر لائنز کی ضبطگی کا حکم بھی دے سکتے ہیں جو پاکستان کیلئے سُبکی کا باعث ہوگا لہٰذاہمیں مختلف ممالک سے کئے گئے باہمی سرمایہ کاری معاہدوں کی شرائط کا بھی جائزہ لینا ہوگا جن کی بنیاد پر آسٹریلین رجسٹرڈ کمپنی ٹی تھیان (TCC) نے پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ریکوڈک سرمایہ کاری منصوبے کے معاہدے میں ICSID کی شق شامل کرکے منصوبے میں تنازع کی صورت میں ورلڈ بینک کے مصالحتی ٹریبونل انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID) کو فیصلے کا اختیار دے رکھا ہے۔

ریکوڈک میں تانبے کے 22ارب پائونڈ اور 13 ملین اونس سونے کے ذخائرپائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500 ارب ڈالر ہے۔ آسٹریلوی کمپنی ٹی تھیان (TCC) نے سونے اور تانبے کی کان کنی کے ریکوڈک منصوبے کیلئے 3.3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جس میں ایئر پورٹ، سڑکیں، رہائشی مکانات، معدنیات کی کان کنی اور گوادر کے ذریعے بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی کیلئے 682

کلومیٹر طویل ٹرانسپورٹیشن پائپ لائن کی تعمیر شامل تھی۔ معاہدے کے مطابق TCC آمدنی کا 25 فیصد بلوچستان حکومت کو بغیر کسی سرمایہ کاری کے دینے کی پابند تھی کیونکہ معدنیات صوبوں کی ملکیت ہوتی ہیں۔منصوبے میں کرپشن اور معدنی ذخائر کی لوٹ مار کے اسکینڈلزمنظرِعام پر آنے کے بعد اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی اور پی ٹی آئی سینیٹر اعظم سواتی نے منصوبے کو منسوخ کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے پاکستان اور ٹی تھیان کمپنی کے مابین 23 جولائی 1993ء کے معاہدے کو 7 جنوری 2013ء میں کالعدم قرار دیتے ہوئے کمپنی کو جاری کان کنی کا لائسنس منسوخ کردیا جس کے بعد سونے اور تانبے کی تلاش کیلئے 11 لائسنس جاری کئے گئے جن میں سے 5 لائسنس ایسی پاکستانی اور چینی کمپنیوں کو دیئے گئے جنہیں سونے اور تانبے کی کان کنی کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا ۔ پاکستان کے مشہور نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مندنے بھی ٹی سی سی کو لائسنس دینے کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستانی ماہرین اپنے طور پر سونے اور تانبے کے ذخائر نکال سکتے ہیں حالانکہ ڈاکٹر ثمر مبارک مندکو یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ کان کنی نہایت تکنیکی عمل ہے اور حکومت اس منصوبے پر 3 ارب ڈالر کی مطلوبہ سرمایہ کاری کرنے کے وسائل نہیں رکھتی۔ورلڈ بینک کے ICSID ٹریبونل نے حکومت پاکستان اور آسٹریلیا کے سرمایہ کاری معاہدے (BIT) کی روشنی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پاکستان پر تاریخ کا سب سے بڑا 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کردیا جس میں انہوں نے پاکستان کے سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مندکے بیان کہ ’’ریکوڈک منصوبے سے پاکستان کو 2.5 ارب ڈالر سالانہ کی آمدنی متوقع ہے‘‘ کو بنیاد بناتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ ’’ریکوڈک منصوبے سے پاکستان کو جہاں اتنا فائدہ ہورہا ہے، وہاں ٹی تھیان کمپنی کو اسی حساب سے نقصان کا بھی معاوضہ ملنا چاہئے۔‘‘پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال میں زرمبادلہ کے ذخائر بمشکل ایک مہینے کا امپورٹ بل ادا کرنے کے قابل ہیں جبکہ حکومتی بانڈز کی ادائیگی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو یہ بیان دینا پڑا کہ ’’دسمبر 2022ء میں ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی پاکستان مقررہ وقت پر کردے گا ۔‘‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی اور قرضوں کی ادائیگی کے دبائو کے پیش نظر انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ مستحکم سے منفی کردی ہے ۔ ایسی صورتحال میں 6 ارب ڈالر کے جرمانے کی ادائیگی ملک کیلئے ناقابلِ برداشت تھی جس کے مدنظر مارچ 2022ء میں پی ٹی آئی حکومت نے ریکوڈک کیس کے ایک باہمی تصفیہ اور بحالی کے فریم ورک پر اتفاق کیا جس کی موجودہ وفاقی کابینہ نے 30ستمبر کے اجلاس میں منظوری دی اور گزشتہ حکومت کے مصالحتی معاہدے کو تمام تیکنیکی پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد قانونی حیثیت دینے کیلئے وزیراعظم کی درخواست پر صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت گزشتہ دنوں ریکوڈک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا جس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہورہی ہے کیونکہ اگرسپریم کورٹ نے 15دسمبر تک ریفرنس کافیصلہ نہ کیا توپاکستان پر 9ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ ریکوڈک کیس کے جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت نے باہمی سرمایہ کاری معاہدوں میں ایسی شقوں پر اتفاق کیا ہوا ہے جس کے تحت بیرونی سرمایہ کار کمپنیاں عالمی عدالتوں میںجانے کی مجازہیں ۔

مستقبل میں حکومت کو ایسے تمام غیر ملکی سرمایہ کاری معاہدوں کا جائزہ لینا ہوگا جس میں تنازع کی صورت میں ورلڈ بینک یا دیگر عالمی اداروں کو مصالحتی کارروائی کا اختیارحاصل ہو ۔ حکومت کو چاہئے کہ عالمی معاہدوں کیلئے متعلقہ اداروں کو پروفیشنل اور قانونی معاونت فراہم کرے اور کیسز کے دوران اعلیٰ حکام غیر ضروری بیانات دینے سے پرہیز کریں جن کی بنیاد پر ریکوڈک کیس میں ملک پربھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہےجس نے پاکستان کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

تازہ ترین