• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں نئی عسکری قیادت کی تقرری کا مسئلہ بالآخر حل ہو گیا ہے لیکن اس مسئلے کی سیاسی حساسیت میں غیر معمولی اور غیر ضروری اضافہ کرکے ہم نے دنیا میں پاکستان کے ایک جمہوری ملک ہونے کے تاثر کو بہت بری طرح مجروح کیا ہے ۔ ہم نے دنیا کو باور کرایا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں ۔ ہم نے دنیا کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ ہم عالمی اور علاقائی سطح پر تیزی سے تبدیل ہونے والے حالات ، چیلنجز ،بڑھتی ہوئی مہنگائی ، غربت ، بے روزگاری، فارن کرنسی میں کمی، برآمدات میں کمی، ملکی کرنسی کی قدر میں کمی اور معاشی بحران جیسے سنگین مسائل کو کس طرح نظر انداز کرتے ہیں اور ان مسائل سے نکلنے کی صلاحیت حکومتِ وقت میں نہیں ہے۔ دیگر ملکوں میں عسکری قیادت کی معمول کی تبدیلیاں ہوتی ہیں مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا نے جس طرح پاکستان میں آرمی چیف کی تقرری کے معاملے کو تضحیک آمیز طریقے سے اچھالا ، یہ بحیثیت قوم ہمارے لئے دنیا میں سبکی کا باعث بنا ۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی جمہوری اور سیاسی قوتوں کے کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہوا بلکہ ہمارے عسکری اداروں کا امیج بھی خراب کیا گیا حالانکہ پاکستان کی فوج نے بارہا اور کھلے الفاظ میں یہ واضح کیا کہ اب وہ پاکستان کی سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی ۔ ریٹائرڈ ہونے والے سپہ سالار نے اچھی بات کی ہے، انہوں نے اچھا اعلان کیا ہے۔ صرف بھارتی میڈیا میں ہی نہیں بلکہ دیگر عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی پاکستان میں آرمی چیف کی تقرری کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ۔ میرے خیال میں اس کے ذمہ دار سیاست دان ہیں، جو صرف اقتدار کی سیاست کر رہے ہیں۔

اس دوران ہم نے اپنے سنگین معاشی مسائل کی خبروں کو اہمیت نہ دی , جس دن آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ، اسی دن ادارۂ شماریات پاکستان نے مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کئے ، جن کے مطابق ملک میں مہنگائی میںروزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔سرِدست مہنگائی کی مجموعی شرح 30.16 فی صد ہے ۔ اسی دن یہ خبر بھی آئی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود 15 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کر دی ہے ۔ شرح سود میں اضافے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مہنگائی کا دبائو مسلسل اور توقعات سے زیادہ ہے ۔ مہنگائی کو روکنے کے لئے شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ اسی دن وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ایک ٹوئٹر بیان میں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ایک سیاست دان نے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا رسک93فیصد قرار دیا ہے جبکہ بلوم برگ نے پاکستان کے ڈیفالٹ کا رسک 10فیصد قرار دیا ہے اور کسی پاکستانی معیشت دان نے ان اندازوں کی تردید نہیں کی۔ ہم نے ان خبروں کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔ ہمارے سیاست دانوں کو اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہو گا کہ عالمی برادری پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں حکمران سیاسی قیادت کی بجائے عسکری قیادت کو اہمیت دیتی ہے۔

ان کالموں میں ہم مسلسل سیاسی قیادت سے کہتے رہے ہیں کہ وہ مل بیٹھ کر پاکستان کے مسائل پر بات کریں اور ان مسائل کے حل کے لئے قومی انتخابات کروائیں تاکہ کوئیVisionaryقیادت اقتدار سنبھالے۔ ابھی تک سیاست دان اپنے وژن اور اپنے اختیارات کے بارے میں دنیا کو قائل نہیں کر سکے ۔ اب جبکہ پاکستانی فوج سیاست سے کنارہ کش ہونے کا فیصلہ کر چکی ہے ، سیاسی قیادت کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ پاکستان کے سیاسی معاملات کو خود چلانے کےلئے پیش قدمی کریں اور اپنی صلاحیتوں کو تسلیم کرائیں ۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے ، جب سیاست دان فوج کی بجائے عوام کو طاقت کا سر چشمہ سمجھیںگے۔

اس وقت عوامی طاقت عمران خان کے پاس ہے ۔ ان کی عوامی مقبولیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ راولپنڈی کے جلسے میں عمران خان نے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ وہ اگرایسا کرتے ہیں تو موجودہ سسٹم کو بر قرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا اور نئے انتخابات کرانا پڑیں گے ۔ ایسی صورتحال میں صوبائی و قومی اسمبلی کی تقریباً 550کے قریب نشستوں پر ضمنی انتخاب کروانا ہوں گے جو ناممکن ہے۔ اس لئے قومی انتخابات ہی واحد حل ہیں۔ عمران خان نے اسلام آباد نہ جانے کا اعلان کر کے سیاسی تصادم کے خطرے کو ٹال دیا ہے ۔ اب حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ عمران خان کے فوری انتخابات کرانے کے مطالبے پر ان سے مذاکرات کرے۔ ان کا یہ مطالبہ غیر جمہوری یا غیر آئینی نہیں ہے بلکہ معروضی حالات میں واحد حل فوری انتخابات ہیں۔عمران خان اس وقت بھی پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول سیاسی رہنما ہیں اور ان کی پارٹی پورے وفاق کی نمائندہ ہے۔وہ اگربھرپور عوامی حمایت کی بنا پر سیاسی دبائو بڑھا رہے ہیں اور فوری انتخابات سمیت اپنے دیگر مطالبات منوانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں تو ان کا یہ رویہ غیر سیاسی نہیں ہے ۔ پرامن سیاسی احتجاج سب کا جمہوری حق ہے ۔پی ڈی ایم حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے جمہوری تحریکوں میں حصہ لیا ہے اور وہ عوامی طاقت کو تسلیم کرانے کی جدوجہد کرتی رہی ہیں ۔ انہیں اب بھی پی ٹی آئی کا مقابلہ ریاستی طاقت کی بجائے عوامی طاقت سے کرنا چاہئے ۔

اس وقت پاکستان کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ فوری انتخابات کےلئے عمران خان سے مذاکرات کئے جائیں کیونکہ عمران خان کے اس مطالبے کو غیرمعمولی عوامی حمایت حاصل ہے ۔ عمران خان واحد رہنما ہیں جنہوں نے 80سے زیادہ جلسے کئے ہیں۔عام انتخابات کا مطالبہ سیاسی اور جمہوری ہے ۔ کوئی اگر یہ کہے کہ عمران خان اپنے اس مطالبے سے دستبردار ہو جائیں ، درست نہیں ہے کیونکہ ان کا یہ مطالبہ عوام کی بڑی تعداد کی طرف سے آ رہا ہے۔ اس مطالبے کواگر نظر انداز کیا گیا تو سیاسی بے چینی بڑھے گی ، جس کے نتیجے میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو گا اور اس صورت حال میں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کرنے والی فوج کو دوبارہ مداخلت کرنا پڑے گی اور پاکستان اسی گھن چکر میں پھنسا رہے گا اور ایک قومی، عوامی اور عوام کو ساتھ لے کر چلنے والا بھی یہ عوامی نعرہ سننے پر مجبور ہو گا، قدم بڑھائو عمران خان عوام تمہارے ساتھ ہیں۔

تازہ ترین