• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج میں اعلیٰ قیادت کی تبدیلی ہو گئی۔ جنرل ساحر شمشاد نے گزشتہ روز ایک سادہ اور پروقار تقریب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے اعلیٰ عہدے کا چارج سنبھال لیا اور آج 29نومبر کے دن جنرل عاصم منیر شاہ پاک فوج کے سپہ سالار کے عہدے کا چارج سنبھال رہے ہیں۔ یہ ان اہم ترین عہدوں پر شاید پہلی بار تعیناتیاں ہیں جو سو فیصد میرٹ پر ہوئی ہیں ۔ ان تعیناتیوں کی اس لئے بھی خصوصی اہمیت ہے کہ جن افسران کو ان اعلیٰ ترین عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے وہ نہایت قابل، اہل اور پاکیزہ کردار و اعلیٰ حسب نسب کے حامل ہیں۔ امید واثق ہے کہ اب دنیا دیکھے گی کہ پاکستان میں کس قدر تیزی سے معاشی اور سیاسی استحکام آئے گا۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہ تعیناتیاں وطن عزیز پر اللہ کریم کے فضل و کرم کا نقطہ آغاز ہیں۔

عمران خان کی ان تعیناتیوں میں روڑے اٹکانے کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ اداروں کو دھمکانے، بدزبانی و بدکلامی اور الزامات و تفریق پیدا کرنے کی ہر مذموم کوشش نہ صرف رائیگاں ہوئی بلکہ ان کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ ان کو نہ خود یہ سمجھ آئی، نہ ہی انہیںکسی نےیہ بات سمجھائی کہ انسان جتنی مرضی تدبیریں کرلے جتنی مرضی چالاکیاں اور ہوشیاری دکھالے، دنیا کی کوئی طاقت اللہ رب العزت کے فیصلوں کو تبدیل کر سکتی ہے نہ ان میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ عزت اور ذلت اللہ عظیم کے ہاتھ ہے اور بے شک اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے۔عمران خان نے سیاسی اور ذاتی مفادات کے حصول کیلئے ہر چیز کو دائو پر لگانے کی کوشش کی۔ قوم کو ایک عجیب بے چینی اور الجھن میں مبتلا کئے رکھا۔ نامساعد معاشی صورتحال اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود وہ جلسہ جلسہ کھیلتے رہے۔ بدکلامی، بدزبانی، اداروں میں تفریق پیدا کرنے، اعلیٰ عسکری قیادت پر الزامات لگانے اور بداخلاقی کا بازار گرم کئے رکھا۔ اپنے ہی ملک کے محافظ اداروں کو کمزور کرنے کی مذموم کوشش کا کوئی موقع ہاتھ سے جانےنہ دیا۔ پھر آخری حربے کے طور پر لانگ مارچ، اسلام آباد پر چڑھائی، مسلح افراد کو لانے اور دھرنا دینے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ ایک نام نہاد لانگ مارچ بھی شروع کیا جس کو قوم نے بری طرح مسترد کیا جس کی وجہ سے لانگ مارچ فرلانگ مارچ میں تبدیل کرنا پڑا۔

مذکورہ بالا صورتحال میں وزیرآباد واقعہ پیش آگیا۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اسی میں معصوم بچوں کے سامنے ان کا بے گناہ باپ مارا گیا۔ اس واقعہ کی تو تحقیقات ہو رہی ہیں اور جلد اصل حقائق سامنے آ جائیں گے تاہم اس فرلانگ مارچ کے دوران ایک خاتون صحافی سمیت جو بھی بے گناہ جان سے گئے ان کا خون ناحق کس کے سر ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کی بھی کھلی تحقیقات بہت ضروری ہیں۔ اس بے مقصد فرلانگ مارچ کی سیکورٹی پر جو کروڑوں روپے خرچ ہوئے وہ اس مفلوک الحال قوم کا پیسہ تھا کیا اس کی ریکوری کی جائے گی۔ لوگوں کو سفری مشکلات، تعلیمی ادارے اور کاروبار بند رہے ان تمام نقصانات کا ذمہ دار کون ہے۔ عمران خان نے ہر طرف سے ناکام و نامراد ہو کر الیکشن کو ہی ملک کی معاشی بیماری کا تریاقی بیانیہ بنایا۔ کوئی یہ تو پوچھے کہ ابھی چھ ماہ پہلے تک تو پونے چار سال آپ ہی کی حکومت رہی، کوئی ایک ایسا کارنامہ بتا دیں جس سے عام آدمی کی ذرہ بھر بھلائی ہوئی ہو۔ کوئی ایسا منصوبہ جس سے ملک کو کوئی فائدہ ہوا ہو۔ کے پی میں دس سالہ اقتدار کے باوجود وہاں کے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئی ہو۔ بلین ٹری منصوبہ، بی آر ٹی اور مالم جبہ اسکینڈل میں سوائے کرپشن کےکچھ نہیں۔ اسپتالوں کی حالت اور صحت کارڈ جیسے منصوبوں کا حشر وہاں کے عوام سے پوچھا جائے۔ پنجاب میں کوئی ایک منصوبہ جو تکمیل تو دور کی بات شروع ہی کیا گیا ہو۔ البتہ پنجاب میں سابقہ حکومت کے منصوبوں کی تختیوں پر اپنے ناموں کی تختیاں ضرور لگوائی گئیں۔

فرلانگ مارچ کے چکر میں کارکنوں کو وقتاً فوقتاً خوار کرنے کے بعد راولپنڈی میں بیس سے تیس لاکھ لوگوں کو لانے کے دعوےکا نتیجہ پوری قوم نے دیکھ لیا۔ بمشکل پندرہ بیس ہزار لوگوں کو چھ گھنٹے انتظار کروانے کے بعد جو پہاڑ کھودا گیا تو اس میں سے چوہا ہی برآمد ہوا۔ کتنی شرمندگی کی بات ہوئی کہ کن مطالبات کی بنیاد پر یہ مارچ شروع کیا گیا تھا اور وہ آخر کار منتج کس بات پر ہوا۔ جو بات اس فرلانگ مارچ کے اختتام و انجام پر کی گئی وہ بات اس قوم کو کئی کروڑ روپے میں پڑی حالانکہ یہ بات تو ایک اخباری بیان کے ذریعے بھی کی جا سکتی تھی۔ سنجیدہ سیاست دان، وضعدار لوگ اور اسپورٹس مین شپ کے جذبے والے لوگ ناکامی کا اعتراف کر کے اپنی ہار کو تسلیم کرتے ہیں ، یوں وہ ہار کے بھی جیت جاتےہیں۔ جہاں تک پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کی بات ہے تو ذرائع کے مطابق یہ اعلان عمران خان کی ایک اور سیاسی غلطی ہے۔ کیونکہ اس میں ان کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں اور ایک مزید ہزیمت کا سامناہو سکتا ہے۔

عمران خان کو خود بھی اور اعظم سواتی جیسے لوگوں کو بھی اب یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اب وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اعظم سواتی تو مکافات عمل کا شکار ہوئے اب شاید مزید لوگ بھی مکافات عمل کا شکار ہو جائیں۔ اعظم سواتی کو تو ان لوگوں سے پوچھنا چاہئے جنہوں نے اس عمر میں ان کو بانس پر چڑھایا۔ ذرائع کے مطابق نئی عسکری قیادت اگرچہ سیاست سے دور ہی رہے گی لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ ملک میں عدم استحکام اور اداروں کے افسران کے خلاف ہرزہ سرائی نظرانداز نظر کرے گی۔ اب ملک کی سلامتی اور اداروں کے افسران کے خلاف کسی بھی جسارت کی کوشش کرنے والوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

تازہ ترین