ریاست حیدر آباد علم و ادب کا مرکز رہی ہے کہ یہاں کے حکم ران اِس معاملے میں بہت باذوق واقع ہوئے تھے۔ علم و ادب کی اِس سرپرستی نے عوام میں بھی ادبی ذوق کی آب یاری کی۔اس سرزمین پر کئی ایسی شخصیات نے جنم لیا، جنہوں نے مختلف علوم و فنون میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اُن ہی نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک رضا حسین بھی تھے،جو علّامہ رشید ترابی کے نام سے ایک عَالم میں معروف ہیں۔علّامہ رشید ترابی نے اپنے ہنرِ خطابت سے رشد و ہدایت کو ایسا اسلوب دیا، جس سے مختلف مکاتبِ فکر میں دوریاں ختم ہونے لگیں۔
ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی سے’’ مجلس شامِ غریباں ‘‘سے آپ کے خطاب نے عوام کو ذکرِ حسینؓ کی جانب کچھ اِس طرح متوجّہ کیا کہ ان مجالس سے مسالک کے اختلاف کے بغیر استفادہ ایک خوش کُن روایت بن گئی۔ اُنہوں نے جس موضوع پہ لب کشائی کی، اُس کا حق ادا کیا۔قرآن فہمی و قرآن شناسی تو اُن کا خصوصی میدان تھا ہی، جب کہ حدیث، تاریخ، فقہی تقابل، ادیانِ عالم، ادب، علم الکلام اور عالمی سیاسی و سماجی مسائل پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔
وہ 9 جولائی 1908ء کو حیدر آباد دکن کے ایک سرکاری افسر، مولوی شرف الدّین کے گھر پیدا ہوئے۔ بھائی، مظہرعلی خان پشاور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر تھے، جب کہ دیگر بھائی بھی اعلیٰ علمی قابلیت کے حامل تھے۔ گھر پر علم و ادب اور سیاست کے بڑے ناموں کی آمد و رفت رہتی،جن سے اُنھوں نے خُوب استفادہ کیا۔ابتدائی تعلیم علّامہ سیّد علی شوستری، آغا محمّد محسن شیرازی، آغا سیّد حسن اصفہانی اور علّامہ ابوبکر شہاب عریضی سے حاصل کی۔
علّامہ سیّد سبط حسن سے ذاکری اور خلیفہ عبدالحکیم سے فلسفے کی تعلیم پائی،جب کہ طباطبائی اور علّامہ ضامن کنتوری سے بھی وابستہ رہے۔ عثمانیہ یونی ورسٹی سے بی اے اور الہ آباد یونی ورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا۔مرثیے، بچپن میں لوریوں کی صُورت سُنے، جب کہ والد کی بدولت شاعری سے دل چسپی پیدا ہوئی۔والد نے مجالس کی پیش خوانی کے لیے میر انیس کے چند مرثیے زبانی یاد کروا دیے تھے۔
دس سال کی عُمر میں اپنے زمانے کے ممتاز ذاکر، مولانا سیّد غلام حسین صدر العلماء کی مجالس میں پیش خوانی شروع کردی تھی۔ 16 برس کے تھے کہ عنوان مقرّر کرکے تقاریر کرنا شروع کردیں،جو ایک نیا تجربہ تھا، غالباً اُنھیں اِسی لیے جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔ دینی تعلیم کی اسناد علّامہ نائینی، آیت اللہ برد جردی، آقائے محسن الحکیم طباطبائی مجتہدِ اعظم صدر حوضۂ علمیہ نجفِ اشرف آیت اللہ العظمیٰ آقائے الخوئی سے حاصل کیں۔نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ’’ مجلس اتحاد المسلمین‘‘ کے پلیٹ فارم پر بھی فعال رہے۔
بعدازاں، قائدِ اعظم کی ہدایت پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1940ء میں حیدرآباد دکن کی مجلسِ قانون ساز کے رُکن منتخب ہوئے۔اُنہی دنوں’’ انیس‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کیا، جس کی خود ادارت کرتے رہے۔طبیعت شروع ہی سے خطابت کی طرف مائل تھی۔1942ء میں آگرہ میں شہیدِ ثالث کے مزار پر تین روزہ مجالس کا انعقاد ہوا، تو آخری مجلس سے خطاب کے لیے رشید ترابی کو منبر پر مدعو کیا گیا۔
تقریر کا عنوان تھا’’چیونٹی اپنا رزق کیسے حاصل کرتی ہے۔‘‘اُنھوں نے اِس اچھوتے موضوع پر ڈیڑھ گھنٹے ایسا سحر انگیز خطاب کیا کہ بڑے بڑے علماء بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔یہاں سے اُنھیں وہ شہرت حاصل ہوئی کہ اُن کا نام مجالس کا جزوِ لازم بن گیا۔ نوجوان خطیب کے جگہ جگہ چرچے ہونے لگے، لوگ دُور دُور سے اُنھیں سننے آتے۔
وہ قرآن پاک کی تلاوت سے مجلس کا آغاز کرتے،پھر احادیث سے دلائل دیتے اور قرآن پر بات سمیٹ دیتے۔اُن کی مجالس میں ہر طبقے سے وابستہ افراد شرکت کرتے۔قیامِ پاکستان کے بعد قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کی خواہش پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مالک اشتر کے نام لکھے گئے معروف خط کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جو بے حد مقبول ہوا۔ صدر ایّوب خان نے اپنے دورِ حکومت میں اسے 10 لاکھ کی تعداد میں چَھپوا کر انتظامیہ میں تقسیم کیا تھا۔
پاکستان ہجرت کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرلی اور پھر خود کو مکمل طور پر دینی خدمات کے لیے وقف کردیا۔10 صفر،24 دسمبر 1947ء سے کراچی کے معروف خالق دینا ہال میں اپنے پہلے عشرۂ مجالس سے خطاب کیا اور پھر اپنے وصال تک یعنی تقریباً26 برس یہ سلسلہ جاری رہا۔علاوہ ازیں، کراچی کے نشتر پارک میں مرکزی مجلس سے بھی خطاب کرتے رہے۔ 1951ء میں روزنامہ’’المنتظر‘‘کا اجرا کیا۔ تاہم، اپنی گونا گوں مصروفیات کے سبب دو برس تک ہی یہ سلسلہ جاری رکھ پائے۔
وہ تفسیر، حدیث اور فقہ کے ساتھ مغربی فلسفے پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اپنی تقاریر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات کی ذہنی اور عقلی تسکین کا سامان بھی مکمل دلیل اور ٹھوس شواہد کے ساتھ پیش کرتے۔ستمبر 1954ء کو ریڈیو پاکستان سے مجلس شامِ غریباں کا آغازہوا، تو شام 7 بج کر45 منٹ پر امام بارگاہ، کھارا در سے علّامہ رشید ترابی کی مجلس براہِ راست نشر ہوئی۔
اُنھوں نے 1956ء میں اسلامی ممالک کی فلاسفیکل کانفرنس میں پاکستان کی نمایندگی کی۔1957ء میں اُن کی بھرپور کوششوں سے کراچی میں1400 سالہ جشنِ مرتضوی ہوا۔اس موقعے پر آٹھ روزہ بین الاقوامی کانفرنس بھی ہوئی، جس کی صدارت، صدرِ پاکستان اسکندر مرزا اور وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی نے کی،جب کہ راجا صاحب محمود آبادی نے استقبالیہ کے فرائض سرانجام دیے۔
علامہ رشید ترابی نے حمد، قصیدہ، سلام، مرثیہ، منقبت اور مناجات میں طبع آزمائی کی، جب کہ مجلس سے پہلے سلام اور سوز خوانی کی ابتدا بھی اُنھوں نے ہی کی تھی۔وہ بلند پایہ خطیب تھے۔ اُن کی تقریر میں ایک خاص طرح کا ٹھہراؤ ہوتا۔حسّاس موضوعات پر بھی نہایت خُوب صُورتی اور کمال دانش سے بات کر جاتے۔نیز، تاریخی اور فقہی اختلافات پر اشارہ کر کے ایسے گزر جاتے کہ وہ جملہ پوری تقریر پہ بھاری ہو جاتا۔ کوئی تقریر علمی نکات، قرآنی آیات، فکر آمیز کلمات، تحقیق اور استدلال سے خالی نہ ہوتی۔
سامعين کی مزاج شناسی کے ساتھ مختلف ممالک کی روایاتِ عزاداری بھی پیشِ نظر رہتی۔علّامہ ترابی نے پچاس برس تک مختلف ممالک میں اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبان میں لیکچرز دیے۔اُن کی مقبول ترین تقاریر میں’’ قرآن اور شاعری‘‘، ’’اسلام اور سائنس‘‘،’’ اسلام اور فنونِ لطیفہ‘‘،’’ ادب اور مذہب‘‘، ’’انسان کا ارتقاء قرآن کی روشنی میں‘‘،’’ اسلام اور میر انیس‘‘،’’اسلام اور ڈاکٹر اقبال‘‘اور’’ ایجوکیشن فلاسفی اِن اسلام‘‘ وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ 1968ء کے محرم سے پاکستان ٹیلی وژن سے بھی مجلس شامِ غریباں نشر کرنے کا آغاز ہوا۔
پی ٹی وی سے نشر ہونے والی پہلی مجلس شامِ غریباں سے علّامہ طالب جوہری کے والد، علّامہ محمّد مصطفیٰ جوہر نے خطاب کیا تھا، جب کہ 1969ء سے 1973ء تک علّامہ رشید ترابی ہی ان مجالس سے خطاب کرتے رہے۔ان مجالس کے عنوانات یقین، رزق، صبر اور سجدہ تھے۔ علّامہ ترابی کی مقبولیت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے، کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود ان کی ریکارڈ کی ہوئی مجالس ہر سال دس محرم کو کئی ٹی وی چینلز پر نشر کی جاتی ہیں۔19 سال تک ریڈیو پاکستان سے اُن کی مجلسِ شامِ غریباں نشر ہوتی رہی، جسے ٹیلی فون کے ذریعے دنیا بھر میں سُنا جاتا تھا۔
ان تقاریر کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب 1971ء میں بھارت نے پاکستان کے سپاہی قیدی بنائے، تو اُس برس کے ایّامِ عزا میں علّامہ ترابی کا علالت کے سبب نشتر پارک میں چہلمِ شہدائے کربلا کی مجلس سے خطاب نہ کرنے کا ارادہ تھا۔ یہ خبر بذریعہ ریڈیو جنگی قیدی کیمپ میں پہنچی، تو ایک قیدی نے اُنھیں خط میں لکھا،’’ خواہش تھی کہ آپ کی مجلس ہم یہاں سُنتے، لیکن پتا چلا ہے کہ آپ بہت علیل ہیں۔‘‘اس پر اسپتال میں داخل علّامہ ترابی نشتر پارک پہنچ گئے اور فرمایا’’مجھے ایک دن پہلے میری قوم کے ایک قیدی کا خط ملا، جس کی محبت میں یہاں آگیا ہوں۔‘‘
علّامہ رشید ترابی نرم لہجے میں مقصد کی بات کر کے سامعین کے دِل جیت لیتے تھے۔اُن کی مجالس میں وزرائے اعظم محمّد علی بوگرہ، حُسین شہید سہروردی سمیت مُلک کی اعلیٰ شخصیات شرکت کرتیں۔نام وَر علماء اُن کی مجلس سنتے اور اُن کا سا انداز اپنانے کی کوشش کرتے۔کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے مجلس شامِ غریباں میں فضائل و مصائب کا ایسا انداز اختیار کیا کہ پھر آنے والے ہر خطیب نے وہی طریق اپنایا۔علّامہ عرفان حیدر عابدی کے بقول’’ علّامہ رشید ترابی کی شخصیت کسی یونی ورسٹی سے کم نہیں تھی۔‘‘خود علّامہ عابدی نے بھی علّامہ رشید ترابی کا انداز اپنانے کی کوشش کی۔
علّامہ ترابی نے اپنے سب سے بڑے بیٹے علّامہ عقیل ترابی کو اپنا لہجہ اور اندازِ خطابت منتقل کیا۔ علّامہ ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ اُن کے کلام کا ایک مجموعہ ’’شاخِ مرجان‘‘ کے نام شایع ہو چُکا ہے اور اُن کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر پی ایچ ڈی کے کئی مقالے بھی تحریر کیے جاچُکے ہیں۔اُنھوں نے جہاں علم کو ایک نئی جدّتِ فن سے متعارف کروایا، وہیں منبرِ مجلس کو ایک نئی شانِ ابلاغ بھی عطا کی بلکہ خطابت کے ایک مستقل مکتب کی بنیاد رکھی، جسے بعدازاں علّامہ عقیل ترابی اور ڈاکٹر سلمان ترابی نے آگے بڑھایا۔
خطابت کا یہ آفتاب18 دسمبر 1973ء کو کراچی میں غروب ہوگیا۔اُن کے پس ماندگان میں لاکھوں چاہنے والوں کے ساتھ قابل اور باصلاحیت اولاد بھی شامل ہے،جس نے مختلف شعبوں میں خود کو منوایا۔چوں کہ علّامہ رشید ترابی نے کراچی کے علاقے، ناظم آباد میں امام بارگاہ حُسینیہ سجّادیہ کی تعمیر و ترقّی میں اہم کردار ادا کیا تھا، لہٰذا اُن کی وصیّت کے مطابق اُنہیں وہیں سپردِ خاک کیا گیا۔
علاّمہ صاحب کے خوب صُورت کلام کی ایک جھلک
ہَوا ہَوَس کی چَلی، نفس مُشتعل نہ ہُوا
جسے یہ بات میسّر ہُوئی، خجل نہ ہُوا
گُزر چَلا مَن و تُو سے فضائے ہُو کا حرِیف
بشر وہی، جو گرفتارِ آب و گِل نہ ہُوا
یہ اور بات کہ ظالم کی نیند اُڑ جائے
ارادتاً مِرا نالہ کبھی مُخل نہ ہُوا
سُکونِ فکر، سُکونِ نَظر، سُکونِ حَیات
خَمِیرِ زیست، اِن اجزا پہ مُشتمل نہ ہُوا
جو زخم دِل پہ لگے، مِٹ گئے، مگر غَمِ دوست!
مِری حیات ہے یہ زخم، مُندمل نہ ہُوا
بہار میں بھی، نہ تھا ناز دِل کی قوّت پر
خِزاں کے دَور میں بھی قلب مضمحل نہ ہُوا
اثر پذیر وہ قصّہ ہے، جس میں درد بھی ہو
بغیر درد کوئی کیف منتقل نہ ہُوا
ضِدیں تمام زمانے کی اِک جگہ کردِیں
مذاق ہوگیا ہستی کا، میرا دِل نہ ہُوا
خطا یہ تھی کہ جھنجھوڑا ہے خُود پَرستوں کو
رشِیدؔ، ایسی خطاؤں پہ منفعل نہ ہُوا
٭٭٭
سفرِ زیست جو لازم ہے ہر اک گام چراغ
جیسے جلتے ہوں سرِ رہ گزرِ عام چراغ
کیا سحر تک کوئی جلنے کی تمنّا کرتا
بُجھتے دیکھے ہیں اِسی دل نے سرِشام چراغ
منتظر آنکھ میں خُود ہے کوئی تارا روشن
کیوں جلاتا ہے فلک شام سے گم نام چراغ
جاگنے والے محبّت میں یہی جانتے ہیں
ہجر کو کہتے ہیں شب، داغ کا ہے نام چراغ
شوق سے آپ جلائیں، مگر اتنا سُن لیں
زرد ہو جاتا ہے خُود صبح کے ہنگام چراغ
کارواں جاتا ہے، لے صبح ہوئی چونک رشیدؔ
اب کہیں اور جلا جا کے سرشام چراغ